"MABC" (space) message & send to 7575

اب مزید مصلحت نہیں!

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب کی چند روز قبل پاکستان اور اس کے اداروں سے متعلق بے تکی اور بغیر کسی ثبوت کے کی گئی گفتگو سوائے بھارتی میڈیا کے‘ کسی اور کی توجہ اپنی طرف مبذول نہیں کر سکی۔ شاید یہ وہی باتیں ہیں جو حامد کرزئی اپنی وراثت میں ان سب کیلئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ ان سب باتوں کی وجہ جاننا قطعاً کوئی مشکل کام نہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ صدر اشرف غنی افغانستان میں سیاسی طور پر حد درجہ کمزور ہو چکے ہیں۔ 20 برس تک دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور ایساف اور نیٹو افواج کے علاوہ دنیا کے سب سے جدید ترین اسلحے اور انٹیلی جنس کے سب سے بڑے نیٹ ورک کے زیر انتظام رہنے کے با وجود وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے طالبان سے جنگ ہار چکے ہیں۔ امریکا وسط ستمبر تک اپنا آخری سپاہی بھی افغانستان سے واپس بلانے کا اعلان کر چکا ہے‘ جبکہ یکم مئی سے اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے‘ ایسے میں ان لوگوں کو اپنا انجام صاف نظر آ رہا ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ اپنی توپوں کا رخ اب پاکستان کی طرف کر کے اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔ افغان انتظامیہ میں موجود بھارتی ٹولہ‘ جس میں حمد اللہ محب جیسے سینکڑوں مفاد پرست شامل ہیں‘ جنہوں نے دنیا بھر سے افغان عوام کی امداد کے نام پر ملنے والی دولت کے انبار لوٹنے والوں کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ بھارت کے آگے اپنے اور اپنے عوام کے مفادات کا سودا کر لیں‘ بھارت کے فراہم کیے گئے ہر سکرپٹ کو اشارہ ملتے ہی پاکستان کے خلاف طوطے کی طرح دہرانا شروع کر دیتا ہے۔ افغانستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا حکمران خاندان اور اس کے ارد گرد جمع ٹولے کی بھاری لوٹ مار کا چشم دید گواہ بن چکا ہے۔ یہ صرف ریاستی جبر ہے جو ابھی تک انہیں بولنے سے روکے ہوئے ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق‘ افغان نیشنل آرمی کے وہ لوگ‘ جنہیں اس ٹولے کی جانب سے مخالفین کو طالبان کا نام دے کر کہیں بھی گولی مارنے کا حکم دیا جاتا ہے‘ اجیت دوول اور حمد اللہ محب کیلئے کرائے کے قاتلوں کا کام کر رہے ہیں۔
اشرف غنی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی نجی محافل کے تذکرے بھی افغانستان کے ہر گھر سے سنے جا سکتے ہیں۔ ایسا شخص جس کا کردار اس قدر متنازع تھا کہ افغانستان کے ساتھ امریکا اور اس کے نمائندوں کی قطر اور دنیا بھر میں مختلف مقامات پر کی جانے والی کسی بھی بات چیت میں حمد اللہ کی شرکت ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ اس کی جو ہتک افغان انتظامیہ کے طالبان سے امن مذاکرات کیلئے اسے ناقابل اعتماد قرار دیے جانے اور گزشتہ کئی برس سے اس سلسلے میں رتی بھر اعتماد میں نہ لیے جانے کے باعث ہوئی ہے‘ لگتا ہے کہ اس نے اسے بائولا بنا دیا ہے اور پاکستان کا نام سنتے ہی اسے بے چینی ہونے لگتی ہے جس کا اظہار کرنے کا وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ جب امریکیوں نے اس کی بار بار کی درخواستوں اور اشرف غنی کے مجبور کرنے کے باوجود اسے دھتکار دیا تو اس نے امریکیوں کے خلاف بھی اول فول بکنا شروع کر دیا کیونکہ ان کے پاس اس کی کچھ قابلِ اعتراض وڈیوز بھی تھیں۔ امریکی تو اسے افغانستان سے متعلق ہونے والی اپنی معمول کی میٹنگز میں بلانے سے بھی انکاری ہو گئے تھے حالانکہ یہی شخص پہلے امریکا میں بطور افغان سفیر کام کرتا رہا ہے۔ افغان عوام میں اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ اشرف غنی اور حمد اللہ محب کو افغانستان کے ساتھ سوائے اپنے اقتدار اور اس سے حاصل ہونے والی لوٹ مار کے‘ دوسری کوئی دلچسپی یا محبت نہیں اور یہ ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ کئی برسوں سے انہوں نے اپنے خاندانوں کو امریکا اور دوسرے ممالک میں مستقل طور پر آباد کر رکھا ہے۔ جب ان کی جائیدادیں‘ ان کے بینک اکائونٹس اور تجارتی ادارے امریکا، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں ہیں تو انہیں افغانستان اور اس کے عوام کے مستقبل کی کیا فکر ہو گی؟
افغان خفیہ ایجنسی ''این ڈی ایس‘‘ نے بدنامِ زمانہ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ کی مدد کرتے ہوئے جس قدر نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے‘ اگر پاکستان کی جانب سے اس کا انتقام لینے کا ارادہ کر لیا جاتا تو افغانستان میں آج امن کے پھول اگنے کی جو امیدیں پیدا ہو رہی ہیں‘ ان کا کہیں دور دور تک نشان بھی نہ ملتا لیکن پاکستان چونکہ افغانستان میں مستقل امن کا سب سے زیادہ خواہشمند ہے جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پُرامن اور کسی بھی بیرونی تسلط سے آزاد افغانستان پاکستان کیلئے سب سے زیا دہ سود مند سمجھا جاتا ہے‘ اسی لیے پاکستان افغان امن عمل میں فعال کردار ادا کر رہا ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح متحارب فریقوں میں امن معاہدہ طے پا جائے اور امریکا کے یہاں سے نکلنے کے بعد ویسی صورتحال پیدا نہ ہو جائے جسی سوویت یونین کے نکلنے کے بعد یہاں پیدا ہو گئی تھی۔ افغان انتظامیہ کے گرگٹ کی طرح آئے دن بدلتے رنگوں کا اندازہ اس امر سے کیجئے کہ کسی صبح اگر وہ پاکستان کے قصیدے پڑھنے کی کوشش کرتی ہے تو شام کو اجیت دوول کی دھمکی پر وہ پاکستان کے خلاف لفظی گولہ باری شروع کر دیتی ہے اور اپنے آقائوں کے حکم کی تعمیل میں اس کا نشانہ پاکستان کی فوج، سکیورٹی ادارے اور پاکستان کی ایجنسیاں ہوتی ہیں۔ پاکستان کے خلاف بیان بازی میں ''ہز ماسٹر وائس‘‘ کی مثال بن جانا اس کیلئے معمول بن چکا ہے۔
6 جون 2017ء کو کابل میں ہونے والی 23 ممالک کی امن کانفرنس میں صدر اشرف غنی کی دھمکیوں اور الزامات کا جواب دیتے ہوئے آرمی کی سپیشل کور کمانڈرز کانفرنس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کو پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے تنبیہ کی تھی کہ اس کے نتائج افغان امن کیلئے انتہائی تباہ کن ہوں گے۔ اس کانفرنس‘ جو بھارت اور اس کے اتحادیوں کی شراکت سے ترتیب دی گئی تھی‘ میں میزبان ملک کے صدر کی حیثیت سے اشرف غنی سے پاکستان پر افغانستان میں امن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور دہشت گردی پھیلانے جیسے الزامات بھارت کی بہت بڑی کامیابی سمجھے جا رہے تھے اور اس سلسلے میں انڈین آرمی کے سینئر افسران اور را کی ٹیم کئی دنوں سے کابل میں موجود تھی لیکن اس کے بعد کا منظر نامہ بھی سب کے سامنے ہے کہ پاکستان کے سخت ناقد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیٹو اور اتحادی افواج کے کمانڈرز سمیت متعدد امریکی و یورپی اہلکار افغان امن عمل میں پاکستان کی مثبت شراکت کے نہ صرف معترف ہوئے بلکہ کئی مواقع پر پاکستان سے اس ضمن میں مدد بھی طلب کی گئی۔ صدر اشرف غنی جو کچھ آج کہہ رہے ہیں‘ چار برس قبل بھی پاکستان پر اسی قسم کے الزامات عائد کیے تھے، جن کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے امریکا سمیت اقوام عالم کو متنبہ کیا تھا کہ افغانستان کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی جارحیت یا سازش کے نتائج خطے کے امن کیلئے بہتر نہیں ہوں گے۔ مذکورہ امن کانفرنس میں‘ جس میں پاکستان بھی شریک تھا‘ اشرف غنی نے تمام آدابِ مہمان نوازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو الفاظ استعمال کئے‘ وہ اپنی جگہ قابلِ مذمت مگر حقائق سے منافی جو کچھ کہا گیا‘ وہ احسان فراموشی کی تمام حدوں کو فراموش کرنے کے مترادف اور کسی بھی آزاد ریاست کی شان کے خلاف تھا۔ اس کا جنرل باجوہ نے صحیح اور بروقت نوٹس لیا۔ اب ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان افغانستان کی سلامتی اور استحکام کو اولین ترجیح دیتے ہوئے بھارت اور افغان این ڈی ایس کے شر سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے کسی بھی قسم کی مصلحت کو آڑے نہ آنے دے۔
گزشتہ روز پاک افغان سرحد پر سپاہی عمر دراز کی افغانستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ کوئی پہلا موقع بھی نہیں تھا۔ گزشتہ ایک برس میں پاک فوج اور ایف سی کے پچیس سے زائد اہلکار افغان سرحد پر آہنی باڑ لگاتے ہوئے افغان دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ یہ پاکستان کی سرحد ہے کوئی چاند ماری کا علاقہ نہیں‘ بس بہت ہو چکا۔ ایسے لوگوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بھارت نے ایل او سی کے بجائے اب افغان فوج کی مدد سے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور اس کا جواب نہ دینا مصلحت نہیں کہلا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں