یہ بات اب واضح ہو جانی چاہئے کہ ایف اے ٹی ایف کوئی تکنیکی ادارہ ہے یا یہ کوئی سکھا شاہی قسم کی عدالت؟ حیران مت ہوں‘ اس ادارے کے فیصلوں کا کمال دیکھئے کہ جس ملک سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے‘ وہ ایف اے ٹی ایف کی بلیک اور گرے لسٹ میں شامل ہیں اور اس ملک کی دولت کو تحفظ دے کر منی لانڈرنگ کرنے والوں کو اپنے خصوصی مہمان بنا کر ان کی لوٹ مار کی دولت سے اپنے قومی خزانے بھرنے والے ممالک وائٹ لسٹ میں ہیں۔ یہی ممالک ہاتھ میں تلوار لیے اس غریب ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں‘ جس کی لوٹی ہوئی دولت سے یہ اپنی معیشت کو سنوار رہے ہیں۔ وہی ممالک‘ جو منی لانڈرنگ کے مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں‘ ان کے لوٹ مار اور کمیشن سے حاصل کیے گئے کروڑوں‘ اربوں ڈالرز کو اپنے بینکوں اور سرمایہ کاری کے اداروں میں حفاظت سے رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں‘ ان ممالک پر پابندیاں عائد کر رہے ہوتے ہیں جن کے ہاں لوٹ مار کی جاتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے ہاں چوری ہو تو پولیس بجائے اس کے کہ جس کے ہاں چوری کا مال چھپایا گیا ہے‘ چوری کی رپٹ درج کرانے والے کو ملزم قرار دیدے کہ اس کے ہاں چوری ہوئی تو ہوئی کیسے؟ وہ لاکھ روتا، چلاتا رہے کہ جناب! چوری تو جو ہونی تھی‘ ہو چکی ہے مگر اب آپ ان چوروں کو پکڑیں جو فلاں جگہ پر مسروقہ مال کے ساتھ چھپے ہوئے ہیں تو آگے سے اسے کہا جائے کہ قانون یہ کہتا ہے کہ جس کے ہاں چوری ہوئی ہے‘ وہ خود اسے روکنے کا بندوبست کرے وگرنہ اس کے خلاف تادیبی کارروائی اور سخت پابندیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ یہ وہ شرمناک تضاد ہے جسے عالمی ٹھگوں کے ٹولے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ اقوام عالم کے غریب ملکوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی سکھا شاہی نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمارے لوگ بھی بہت کافی سادہ لوح ہیں کہ جیسے ہی فرانس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے دن قریب آنے لگتے ہیں‘ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وزرا سمیت دانشوروں کی اکثریت خوش فہمی کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ اب کی بار پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آیا ہی چاہتا ہے۔ یہ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اب تک کے حالات دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے کا قیام ہی اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ ''قومی حمیت کے مرض میں مبتلا‘‘ ممالک اور رہنمائوں کو سبق سکھایا جا سکے اور کمزور ممالک کو اوپر اٹھنے اور ان کی برابری کرنے سے روکا جائے۔ جب کوئی ملک ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو گرے اور بلیک لسٹ نامی تلواریں اس پر سونت لی جاتی ہیں۔
دنیا کی وہ کون سی عدالت ہے‘ کون سا انٹرویو پینل ہے اور کون سا امتحانی ادارہ ہے جو کسی بھی ملزم، انٹرویو کنندہ یا طالب علم سے پوچھے گئے ستائیس سوالات میں سے چھبیس کے فر فر جواب ملنے کے بعد بھی اسے مجرم، نااہل اور فیل قرار دیدے؟ ایف اے ٹی ایف کے صدر اپنی نیوز کانفرنس میں یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ روکنے کیلئے بہترین کام کیا ہے لیکن دوسری جانب وہ یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ ابھی تک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو مناسب سزائیں نہیں دی جا سکی ہیں۔ سول یہ بھی ہے کہ سزا کس کو دیں؟ جو بھی منی لانڈرنگ کا ملزم ہے‘ وہ بھاگ کر انہی ممالک میں بیٹھا ہے جہاں سے فیٹف کی قسمت کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ انٹرپول اور متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو بار بار خطوط لکھنے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا تو پھر سزائیں کن لوگوں کو دی جائیں گی؟ جولائی 2020ء میں احتساب کیسز کے بڑے بیک لاک کو ختم کرنے کے لیے ملک بھر میں 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کی وزیراعظم کی جانب سے منظوری بھی دیدی گئی تھی، مگر بعد ازاں بتایا گیا کہ فنڈز کی کمی کے باعث مرحلہ وار عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جنوری 2021ء میں عدالتِ عظمیٰ نے 30 نئی احتساب عدالتوں کو ایک ماہ میں فعال کرنے کا حکم جاری کیا تھا، عدالت کو بتایا گیا کہ عملے کی بھرتیاں شروع کی جا رہی ہیں مگر آج چھ ماہ بعد بھی عالم یہ ہے کہ چند روز قبل پنجاب کی چار لیبر کورٹس میں تو جج حضرات کی تعیناتی عمل میں آ گئی مگر احتساب عدالتیں اب تک اپنے منصفوں کی راہ تک رہی ہیں۔
اگر آپ فیٹف کے طویل اجلاس کے بعد ادارے کے صدر کی پریس کانفرنس کا جائزہ لیں تو اس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان نے قابلِ ذکر اقدامات کیے ہیں لیکن ابھی تک وہ دہشت گردوں اور منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کو سخت سزائیں نہیں دے سکا ہے۔ کیا عالمی ادارہ اس امر سے بے خبر ہے کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے متعدد کیسز اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس بات کو بے وجہ گرے لسٹ میں رہنے کا سبب بتایا جا رہا ہے۔ اگلے سال جون تک پاکستان کو گرے لسٹ رکھ کر اس کی معاشی کلائی مروڑنے کا ارادہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ فرانس نے واضح کیا تھا کہ وہ پاکستان کو کسی صورت گرے لسٹ سے نہیں نکلنے دے گا اور جس شدت سے فرانس پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ اس سے صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ بھارت کی زبان بول رہا ہے۔ فرانس سے دفاعی سامان کے سودوں کے عوض بھارت نے یقینا اپنی بھی کئی شرائط منوائی ہوں گی۔ بھارت فرانس سے ٹنوں کے حساب سے اسلحہ کی خریداری کر رہا ہے، رافیل کے لیے بھی فرانس کو ایک بہت بڑی مارکیٹ مل چکی ہے اسی لئے بھارت اور فرانس اپنے پرانے بدلے چکانے کیلئے فیٹف کا فورم استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے جب ستائیس میں سے چھبیس نکات مکمل کر لیے ہیں تو پھر میمنے اور بھیڑیے کی کہانی کی طرح پاکستان کو ہر حال میں لقمہ بنانے کی کیوں ٹھانی گئی ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر مالیت کے جنگی طیاروں اور دوسرے حربی ہتھیاروں کے معاہدوں نے فرانس کو انسانی حقوق اور انصاف کے تمام سبق بھلا دیے ہیں۔
1989ء میں جب اس تنظیم کی تشکیل کی گئی تھی تو امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، فرانس اور چین اس کے ممبر بنائے گئے تھے۔ اگر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو واضح ہو چلا ہے کہ یہ تنظیم مغرب اور امریکا کے مفادات کے تحفظ کیلئے قائم کی گئی تھی۔ اب اس تنظیم کے اراکین کی تعداد 38 تک جا پہنچی ہے اور گرے لسٹ میں زیادہ تر وہی ممالک نظر آئیں گے جنہیں مغربی ٹولہ معاشی طور پر کمزور اور سماجی طور پر بے ربط رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات پر نظر رکھنے والے ادارے کو امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس اور دوسرے یورپی ممالک میں بیٹھے وہ دہشت گرد کیوں نظر نہیں آتے جو بلوچستان، کراچی اور پاکستان کے قبائلی کے علاقوں میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔ دو درجن سے زائد انتہاپسندوں کی دہشت گردی تنظیمیں‘ پورے بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں‘ انہیں فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟ عالمی اداروں کو کیا اس کی بھی کوئی خبر نہیں ہے؟
ایف اے ٹی ایف نے اپنے اجلاس کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہاں تک کہا ''اگر اگلے سال جون میں پاکستان ہماری طرف سے فراہم کی جانے والی تمام شرائط پوری کر دیتا ہے تو بھی اسے گرے لسٹ نہیں نکالا جائے گا بلکہ ہم اپنا سپیشل وفد پاکستان بھیجیں گے جو وہاں بیٹھ کر حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا‘ پھر اس رپورٹ کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔ پاکستان کے ایک سابق جج سکندر سلیم کا FATF کے حالیہ فیصلے پر یہ تبصرہ کمال کا ہے: (ترجمہ) لوٹی جانے والی دولت اور لوٹ مار کرنے والے افراد جن ممالک میں موجود ہیں وہ تمام کے تمام وائٹ لسٹ میں شامل ہیں اور وہ ممالک جنہوں نے اپنی قومی دولت کا نقصان برداشت کیا اور جنہیں نقصان پہنچایا گیا‘ وہ سب گرے لسٹ میں ہیں۔ سکندر سلیم صاحب نے اس ادارے کو کیا خوب نام دیاہے ''فورس آف الائیڈ ٹیررسٹ فنانسرز‘‘۔