اوور سیز پاکستانیوں نے وزیراعظم عمران خاں کو لکھے گئے خط میں انہیں ووٹ کا حق دینے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے پورا کرنے پر وہ تحریک انصاف حکومت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی وہ خواہش تھی جو برسوں سے ہر اُس پاکستانی کے دل کی آواز بن چکی تھی جو اگرچہ دیارِ غیر میں بیٹھا ہے؛ تاہم وہ ملک میں ہونے والی سیاست سے بیزار ہو چکا تھا۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان کی معاشی ترقی اور دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر چلنے میں سب سے زیادہ ہاتھ اور سب سے زیادہ قربانیاں اوور سیز پاکستانیوں کی ہیں جنہیں ہمارے ملک کے تمام معاشی زاویے بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ نجانے کتنے لاکھ ایسے پاکستانی ہوں گے جو پاکستان کی تمام سیاسی قیادت اور مسندِ اقتدار پر براجمان شخصیات کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ انہی افراد میں سے ایک نام میاں عبد الحکیم کا ہے جنہوں نے وزیراعظم کے نام اپنے خط میں چند تجاویز ارسال کی ہیں۔
پاکستان اور دنیا بھر سے صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو دن میں نجانے کتنے خطوط موصول ہوتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ان تک پہنچائے بھی نہیں جاتے ہوں گے۔ ان خطوط میں لوگوں کی درد بھری فریادیں ہوتی ہیں تو چند ایک پند و نصائح سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ تمام خطوط بوریوں میں بھر دیے جاتے ہیں اور اگر کبھی اقتدار کی مسند پر فائز شخصیت کے متعلقہ دفتر میں بیٹھا ہوا کوئی اہلکار چند خطوط کھولتا بھی ہے تو اس پر کارروائی برائے نام ہوتی ہے۔ میں کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن چونکہ میں کچھ عرصہ ملک کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے سٹاف ممبر کے طور پر کام کر چکا ہوں‘ اس لئے چشم دید گواہ ہوں کہ جب ان کی حکومت اچانک ختم ہوئی اور ان کی رہائش گاہ کے اردگرد بنائی گئی عمارتوں کو نئی آنے والی حکومت نے انکروچمنٹ کے زمرے میں لاتے ہوئے گرانا شروع کیا تھا تو ان تمام عمارتوں میں موجود ریکارڈ کو اکٹھا کیا جانے لگا۔ اسی دوران ایک سیکرٹری صاحب کے کمرے سے پانچ‘ چھ بوریاں برآمد ہوئیں۔ انہیں جب سکیورٹی پوائنٹ سے چیک کیاگیا تو معلوم ہوا کہ وہ تمام کی تمام خطوط سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ تمام ریکارڈ اور بوریاں وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دی گئیں۔ چند دنوں بعد جب مختلف بوریوں میں رکھے گئے خطوط میں سے چند ایک کو کھولا گیا تو میں سر سے پائوں تک کانپ گیا کیونکہ ان میں چیخوں میں لپٹی ہوئی فریادیں اور لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کی داستانیں تھیں جنہیں نجانے کیا سوچ کر اور کون کون سی امیدیں وابستہ کر کے اعلیٰ عہدیداران کو بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح عبدالحکیم صاحب نے بھی وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھا ہے جس کی ایک کاپی متعدد دیگر افراد کی طرح راقم کو بھی ارسال کی گئی ہے۔ یہ خط عام خط نہیں بلکہ تجاویز کا ایک مجموعہ ہے جو اس ملک کی فلاح، اوور سیز پاکستانیوں کو سکون دینے اور ان کی پاکستان میں انویسٹ کی گئی ایک ایک پائی کی ضمانت کے حوالے سے تجاویز لیے ہوئے ہے۔ اگر یہ اوور سیز ہمارے سر کا تاج ہیں‘ ہم انہیں اپنا فخر کہتے نہیں تھکتے تو اس فخر کو گہنانے سے بھی بچانا ہو گا۔ ہمیں ان کی امیدوں کو راکھ کا ڈھیر نہیں بلکہ پھولوں سے مہکتی ہوئی کیاریوں میں بدلنا ہو گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس خط میں اوور سیز پاکستانیوں کی نمائندگی کرنے والوں نے اپنے لیے کچھ نہیں مانگا بلکہ ملک کی معیشت میں سرمایہ کاری کے بھروسے کو چار چاند لگانے اور اسے مزید مضبوط بنانے کیلئے چند تجاویز بھیجتے ہوئے وزیراعظم سے ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی استدعا کی ہے۔
کئی اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے ای میلز‘ وٹس ایپ پیغامات اور خطوط کے ذریعے وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے اپیل کی گئی ہے کہ اگر آپ پاکستان میں صاف ستھری سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں‘ اگر آپ دل سے چاہتے ہیں کہ دیارِ غیر میں مقیم ایسے پاکستانی جنہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے دنیا کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے‘ ملکِ عزیز میں سرمایہ کریں تو اس حوالے سے ملک کی جانے والی کسی بھی سرمایہ کاری کیلئے حکومت پاکستان کو ضامن بننا ہو گا۔ اگر حکومت اور ریاست محفوظ سرمایہ کاری کی ضمانت دیں تو اوور سیز پاکستان میں ڈالرز کی بھرمار کر دیں گے۔ بدقسمتی سے اب تک یہی کچھ دیکھنے میں آیا ہے کہ جس نے بھی کہیں زمین خریدی یا کوئی گھر اور پلاٹ کا سودا کیا تو دھوکے اور فراڈ کی صورت میں اسے تمام عمر کی کمائی سے محروم کر دیا گیا۔ کتنے ہی اوور سیز عمر بھر کی کمائی کے ساتھ پاکستان لوٹے مگر یہاں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
کینیڈا سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ لاہور، کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد، کراچی، سکھر، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان ، بہاولپور اور دوسرے بڑے شہروں میں اوور سیز پاکستانیوں کو ریاستی ضمانت دیتے ہوئے ایک ایک کنال کے گھر بنا کر دینے کا وعدہ کریں تو اوور سیز اس پروجیکٹ کے لیے انویسٹمنٹ میں لمحے بھر کی بھی دیر نہ کریں گے۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی طرز پر دس، سات، پانچ اور تین مرلے کے ٹائون ہائوسز بنا کر مقامی پاکستانیوں کو اس میں شامل کیا جائے تو ملک میں سرمایہ کاری کا گراف یکدم بلند ہو جائے گا کیونکہ یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہمارے لوگ ٹیکس دینے سے گھبراتے ہیں‘ یہ لوگ جی بھر کے ان مکانات کی خریداری میں دلچسپی لیں گے اور اس سے ہو گا یہ کہ ملک کے چالیس سے زائد صنعتی ادارے چل پڑیں گے اور ان سے منسلک پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار کی نئی گارنٹی مل جائے گی۔ حکومت کو پیشکش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر ایک کنال یا بڑے گھروں کیلئے مانگی جانے والی درخواستوں کے ساتھ ڈالرز میں ''درخواست فیس‘‘ رکھ دی جائے تو بھی اوور سیز کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیں گے۔ انہیں فقط حکومت اور ریاست کی ضمانت چاہئے اور بس۔
حکومت سے درخواست کرتے ہوئے اوور سیز کمیونٹی نے کہا ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر جیسے ہی حکومت کی ضمانت میں ان پروجیکٹس کا اعلان کیا جائے گا اور درخواست دینے کی مقررہ تاریخ سامنے آئے گی جس میں اس جگہ‘ اس لوکیشن کی نشاندہی بھی شامل ہو گی جہاں اوور سیز کو گھر بنا کر دیے جائیں گے تو دیکھیے گا کہ کس طرح اوور سیز پاکستانی اس منصوبے پر لبیک کہتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانی حکومت بالخصوص وزیراعظم سے اس منصوبے پر فوری عمل در آمد کی درخواست کر رہے ہیں۔ بے شمار درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس ملک سے گئے ہوئے بیس‘ تیس یا اس سے بھی زائد برس ہو گئے ہیں اور اب تک انفرادی طور پر وہ اس ملک کو لاکھوں ڈالرز بھیج چکے ہیں، وہ جب مستقل طور پر پاکستان آنا چاہتے ہیں تو انہیں کوئی بھی مراعات نہیں دی جاتیں حالانکہ دنیا کے اکثر ممالک میں ایسے اوور سیز کو اپنی پسند کی ایک گا ڑی لانے کی اجا زت دی جاتی ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو بھی اپنی پسند کی ایک گا ڑی لانے کی اجا زت دی جانی چاہیے جس پر لمبے چوڑے ٹیکس اور دوسری مختلف ڈیوٹیز عائد نہ کی جائیں۔ ان میں سے اکثرگاڑیاں تو ایسی ہوں گی جو اس وقت ان کے زیرِ استعمال ہیں۔ کئی اوور سیز یہ گلہ بھی کرتے ہیں کہ ایک طرف ہر حکومت اوور سیز پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے کہ یہ اوور سیز پاکستانی ہی ہیں جو اس ملک کی معیشت اور کاروبارِ زندگی کو چلا رہے ہیں، پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر انہی افراد کے باعث بھرے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف جب یہ افراد اپنے گھروں کو واپس آتے ہیں تو اپنے ماں‘ باپ یا بیوی‘ بچوں کیلئے ایک موبائل فون بھی لے کر نہیں آ سکتے۔ اس پر بھی حکومت کی جانب سے بھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی خدمت میں اوور سیز پاکستانیوں کی اپیل کو پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ آخر ان تجاویز میں غلط کیا ہے؟ انہوں نے تو ایسی کوئی ڈیمانڈ نہیں رکھی جس سے ملکی خزانے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ بیس‘ تیس برس بعد بیرونِ ملک سے آنے والوں کو اپنے ساتھ ایک ٹیکس فری گاڑی اور ہر سال وطن لوٹنے والوں پر ایک موبائل فون لانے کی اجازت مل جانے سے ان کا اعتماد مزید بڑھے گا اور یہ لوگ یقینا ملکی خزانے کو پہلے سے بھی زیادہ سرمایہ کاری کا تحفہ دیں گے۔