وزیراعظم عمران خان نے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا وعدہ قومی اسمبلی میں ایک بل منظور کروا کر پورا کر دیا ہے لیکن حیرانی اس بات پہ ہے کہ اس ایشو پر تمام اپوزیشن جماعتیں اس طرح سراپا احتجاج ہیں جیسے اوور سیز پاکستانیوں سے ان سب کو کوئی خوف لاحق ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے تو یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ کینیڈا، امریکا، برطانیہ یا یورپی یونین سمیت خلیجی ممالک میں بسنے والے پاکستانی ملک سے باہر بیٹھ کر کس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے حلقوں کے کیا سائل ہیں؟ جس نے بھی ان کا یہ بیان سنا اور پڑھا‘ وہ ایک لمحے کیلئے ان کی دور اندیشی اور قابلیت بارے کیے گئے بلند بانگ دعووں سے بو کھلا گیا کہ وزیر داخلہ جیسی اہم ترین ذمہ داریوں پر فائز رہی شخصیت کی جانب سے کیا اس قسم کی باتیں مناسب تھیں؟ اپوزیشن کے تمام دھڑے اور مسلم لیگ نواز بالخصوص شاید اس لیے اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے الرجک ہیں کہ ان کو خدشہ ہے کہ باہر بیٹھے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف اور عمران خان کی سپورٹر ہے اور یوں الیکشن کا پلڑا تحریک انصاف کے حق میں بھاری ہو سکتا ہے لیکن ووٹ لینا ہی اصل مسئلہ نہیں ہونا چاہئے، اوور سیز کو ووٹ کا حق دینا دراصل ان کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور ان کے مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے کہ وہ اوور سیز پاکستانیوں کیلئے اسمبلی میں چند نشستیں بھی مختص کرنے کا بل منظور کرائے‘ ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کو ملکی پارلیمنٹ کے فیصلوں میں بھی حصہ دار بنایا جائے۔
اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے اور ان کیلئے نشستیں مخصوص کرنے کی یہ کوئی نئی تجویز نہیں اور نہ ہی اسے دنیا کا کوئی انوکھا کام اور عجوبہ سمجھانا جانا چاہیے۔ہمارے سامنے چند ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ اس وقت فرانس اور کینیڈا دو ایسے ممالک ہیں جہاں الجیریا کے شہریوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے اور ان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے الجیریا کی حکومت نے ان کیلئے پیپلز نیشنل اسمبلی میں نشستیں مختص کر رکھی ہیں۔ الجیریا نے اپنے تمام اوور سیز شہریوں کو یہ حق دے رکھا ہے کہ وہ بیرونِ ممالک سے الجیریا کی پارلیمان میں اپنے منتخب کردہ نمائندے بھیجیں۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ووٹ کا حق استعمال کرنے والے بھی اوور سیز ہوں اور ان مخصوص نشستوں کیلئے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار بھی اوور سیز ہوں گے۔
میرے خیال میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو مل بیٹھ کر اپنے قابلِ احترام اوور سیز پاکستانیوں کیلئے قومی اسمبلی میں 6 نشستیں مختص کر دینی چاہئیں، دو نشستیں عرب ممالک، دو نشستیں یورپ و برطانیہ اور دو نشستیں امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، مشرق بعید اور دیگر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کیلئے مخصوص ہوں۔ اپوزیشن اور مسلم لیگ نواز سمیت کچھ مخصوص دانشور اور میڈیا پرسنز اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت تو کر رہے ہیں کہ مگر ان کی توضیح خاصی عجیب ہے، ان کا کہنا ہے کہ چونکہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اب خاصی کمی ہو چکی ہے‘ لہٰذا اب وہ اپنی نشستیں بڑھانے کیلئے اوور سیز پاکستانیوں کا سہارا لے رہی ہے۔ حسنِ کمال دیکھئے کہ آپ ان اوور سیز پاکستانیوں سے پورا سال اپنا زرمبادلہ کا خسارہ پورا کرنا فخر سمجھتے ہیں لیکن انہیں ووٹ کا حق اس لیے نہیں دینا چاہتے کہ آپ کو خدشہ ہے کہ ان کے ووٹ آپ کی مخالف سیاسی جماعت کے حق میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
ان لوگوں کو کون بتائے گا کہ اوور سیز پاکستانی جہاں جہاں بھی بیٹھے ہیں‘ وہاں سے انہیں عالمی میڈیا اور عالمی طاقتوں کی ان کے وطن عزیز کے خلاف کی جانے والی ریشہ دوانیوں کا سب سے زیادہ علم ہوتا ہے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو جتنا درد اپنے ملک اور اس کے عوام سے متعلق ہوتا ہے‘ اس کا یہ لوگ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب جب میں نے یا کسی دوسرے نے‘ کسی مریض‘ بے آسرا‘ بیوہ یا یتیم بچوں کی مدد کی اپیل کی تو اوور سیز اس پر تڑپ کر رہ گئے اور اس شرط کے ساتھ ایسے تمام مستحقین کی مدد کو تیار ہو گئے کہ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا، ان کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو گا یعنی وہ اس پیغام پر عمل کرتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے کسی غریب‘ لاچار‘ یتیم اور بے آسرا کی مدد کرو تو اس طرح کرو کہ بائیں ہاتھ کو اس کا پتا نہ چلے۔
مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما نے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں لاہور میں جو پریس کانفرنس کی‘ اس کے مطا بق: اگر کوئی پاکستانی پیرس، لندن یا سان فرانسسکو میں رہ رہا ہے تو اسے نارووال، جیکب آباد اور لالہ موسیٰ کے مسائل کا کیا پتا ہو سکتا ہے۔ اگر یہی بات پاکستان کے ہر وزیر اور وزیراعظم سے متعلق کی جائے کہ آپ پاکستان پر حکمرانی تو کر رہے ہیں لیکن آپ کو اندرونِ ملک ہر علاقے، ہر تحصیل، ہر گوٹھ اور ہر چک کے مسائل کا علم ہے؟ چلیں اس بات کو چھوڑیں‘ کیا آپ کو علم ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنے ملک کے سفارت خانوں سے کیا کیا تکالیف ہیں؟ انہیں وہاں کیا مسائل درپیش ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جرمنی کے سفارت خانے سے ابھی چند روز قبل ایک پاکستانی کو اپنا پاسپورٹ بنوانے کیلئے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا؟ اگر کوئی شخص جاننا چاہے تو میں اسے بتا سکتا ہوں کہ ایک محب وطن پاکستانی کو‘ جس کے سر پر پی ٹی آئی کا جنون سوار تھا‘ اپنی بیگم کے پاسپورٹ کیلئے کئی ماہ تک تکالیف اور بار بار چھ سو کلو میٹر دور جا کر ہزار ہا مصائب سے دوچار ہونا پڑا۔ رشوت خور وہاں علی الاعلان منہ کھولے بیٹھے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ یہ مافیا اس قدر نڈر اور بے خوف ہے کہ اس نے یورپی ممالک میں موجود پاکستانی سفارت خانوں کے باہر بھی ایجنٹ کلچر شروع کر رکھا ہے۔ اس اوور سیز پاکستانی کو اپنی بیگم کے پاسپورٹ کیلئے اس قدر چکر لگوائے گئے کہ خدا کی پناہ! اور جب تک اس فیملی نے ایک گروہ کو پانچ لاکھ روپے رشوت نہیں دی‘ کسی نے ان کے کاغذات کو دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ بعض سفارت خانوں کا عملہ بڑے دھڑلے سے ہر کام کے بدلے حسبِ منشا رشوت طلب کرتا ہے۔ اسی لئے تو یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان پاکستانیوں کیلئے قومی اسمبلی میں کچھ نشستیں مختص کی جائیں کیونکہ اس سے ان کے نمائندوں تک ان کے مسائل فوری طور پر پہنچ جایا کریں گے اور ان کے منتخب کردہ افراد‘ جو خود بھی اوور سیز پاکستانی ہوں گے‘ ان مسائل کو ذاتی دلچسپی لے کر حل کریں گے۔آج 73 برس کے طویل عرصے بعد جب اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے جا رہا ہے جو ایک پاکستانی ہونے کے ناتے ان کا بنیادی حق تھا‘ اس وقت ایک اندازے کے مطابق‘ ایک کروڑ کے قریب پاکستانی بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ یہ کریڈٹ بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کرانے کی طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاتا ہے کہ جنہوں نے ضمنی انتخابات میں اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دیا تھا۔ اُس وقت رجسٹریشن کروانے والے پچاسی فیصد پاکستانیوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا‘ جو کسی بھی الیکشن میں سب سے زیادہ کمیونٹی ٹرن آئوٹ ہے۔ اِس وقت سعودی عرب میں پچیس لاکھ، متحدہ عرب امارات میں پندرہ لاکھ، برطانیہ میں بارہ لاکھ اور امریکہ میں چار لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں۔ کینیڈا، جرمنی، فرانس، عمان، قطر اور اٹلی، آسٹریلیا، ملائیشیا میں اوور سیز پاکستانیوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔ ہم ان اوور سیز پاکستانیوں کا‘ جو باقاعدہ بینکنگ سرکل سے پاکستان میں اپنے گھر والوں اور عزیزوں کو زرمبادلہ کی صورت میں ہر ماہ پیسے بھجواتے ہیں‘ ہمیشہ احسان مند رہنا چاہئے کہ یہ ہمیں دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جینے کی ہمت اور طاقت دیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ایئر پورٹس اور سفارت خانوں میں جس قسم کا سلوک کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ ہمارے حکمران یہاں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے ہیں‘ بالکل اسی طرح جس طرح بقول احسن اقبال‘ ایک شخص جو پیرس میں رہ رہا ہے، جو سان فرانسسکو میں رہ رہا ہے، جو لندن میں رہ رہا ہے اس کو نارووال، جیکب آباد اور لالہ موسیٰ کے حلقے کے مسائل کا کیا پتا ہو۔