سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے صدر نکسن کو لکھے گئے خط کے مطابق‘ ''سوویت یونین کو یقین تھا کہ برصغیر میں عدم توازن کا فائدہ بالآخر چین کو ہو گا۔ اس وقت سوویت یونین اور امریکہ کے مقابلے میں چین برصغیر میں معاملات سلجھانے کیلئے زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ درحقیقت سوویت یونین کو ہماری (امریکہ کی) بھارت میں دلچسپی کھٹکتی ہے‘ اس کی کوشش ہو گی کہ وہ ہمارے بھارت میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر قد غن لگا سکے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو وہ مغربی پاکستان کے حمایتی تو ضرور ہیں اور بھارت کو نیچا دکھانے کیلئے چین اپنی فوجوں کو بھارتی سرحدوں پر لا بھی سکتا ہے تاکہ اس کی توجہ مشرقی پاکستان کی سرحدوں سے ہٹا سکے حتیٰ کہ چین مغربی پاکستان کو محفوظ رکھنے کیلئے بھارت سے پنجہ آزمائی بھی کرنے کیلئے تیار ہے تاکہ مغربی پاکستان میں موجود پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں حالات کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو جائے۔ اگر چین نے اس وقت بظاہر اپنا وزن مغربی پاکستان کے پلڑے میں ڈال دیا تو بھی چین اپنے معروضی حالات کے پیش نظر ''تعاون‘‘ کی تمام حدود پھلانگنے سے قبل ممکنہ اثرات پر غور و خوض ضرور کرے گا‘‘۔
مشرقی پاکستان کے اُس وقت کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے صدر نکسن کو لکھا کہ اس وقت امریکہ کے پاس تین آپشنز ہیں اور ہمیں ان تینوں آپشنز کے انتخاب کا حق ہے۔ اول: جنرل یحییٰ کی سیاسی اور عسکری پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں جاری مغربی پاکستانی قیادت کی پالیسیوں کی حمایت کرنی چاہئے، اس کا مطلب ہو گا کہ ہم پاکستان کو بیرونی قرضوں کی واپسی کیلئے معاونت جاری رکھیں گے۔ جہاں تک ترقیاتی امدادی پروگرام کا تعلق ہے تو جب تک پاکستانی قیادت ہمیں یقین نہیں دلاتی کہ یہ فنڈز صرف ترقیاتی مقاصد کیلئے ہی استعمال ہوں گے‘ انہیں فوجی مقاصد کیلئے خرچ نہیں کیا جائے گا، ان فنڈز کا زیادہ تر حصہ مغربی پاکستان میں خرچ کیا جا ئے گا، یہ فنڈ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اشیائے خوردنی کا تعلق ہے تو ہم حکومت کی درخواست پر گندم کی ترسیل جاری رکھیں گے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اشیائے خوردنی کیسے تقسیم ہوتی ہیں، بالخصوص مشرقی پاکستان میں گندم یا چاول کیسے تقسیم کیا جائے گا، کیا حکومت مخصوص علا قوں میں ہی تقسیم کرے گی یا ذخیرہ کرے گی۔ عسکری تعاون کے ضمن میں ہم تمام اقسام کے سامانِ حرب کی ترسیل کی اجا زت دیں گے ما سوائے ایمونیشن کے‘ جس میں جان بوجھ کر تاخیر برتی جائے گی۔ دوم: امریکہ کے پاس دوسرا آپشن حقیقی غیر جانبداری ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم مزید معاشی امداد مؤخر کر دیں گے تاوقتیکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مطمئن ہو جائیں کہ پاکستان کا ترقیاتی پروگرام تسلی بخش ہے۔ سوم: مشرقی پاکستان کی حقیقی خود مختاری کیلئے سنجیدہ کوشش کرنے کیلئے اگر سیاسی مصالحت کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوتیں تو ہم مشرقی پاکستان کے قضیے کے حل کے لئے دیگر آپشنز پر غور کر سکتے ہیں۔ امریکہ‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اس صورتِ حال میں پاکستان کی مالی معاونت جاری رکھنے سے قاصر ہوں گے، ہم غیر اہم ہتھیاروں اور پرزوں کی فراہمی جاری رکھیں گے تاکہ جنرل یحییٰ خان پر فوجی امداد کی بندش کا تاثر نہ ہو؛ تاہم متنازع ہتھیاروں کی فراہمی روک لی جائے گی۔ ہنری کسنجر کے اس خط پر صدر نکسن نے اپنے ہاتھ سے امریکی وزارتِ خارجہ کو ہدایات دینے کیلئے خط کے آخر میں صرف 10 الفاظ میں مشتمل ایک لکھا:
To all hands, Do not sequeeze Yahya at this time.
بین السطور میں ان دس الفاظ کا جو بھی مطلب اخذ کیا جائے‘ بظاہر صدر نکسن کی پاکستان کے مستقبل کے بارے میں واضح ہدایات کے باوجود یحییٰ خان کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ امریکہ میں پس پردہ ایک اور ''حکومت‘‘ بھی ہے جو امریکی صدر کی نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں پر عمل کرتی ہے اور پس پردہ موجود وہ قوت امریکی سی آئی اے ہے اور وہی کھیل بش، اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کی مرضی کے بغیر آج پاکستان کے صوبوں کے پی، سندھ اور بلوچستان میں کھیلا جا رہا ہے۔ پاکستان کو جان لینا چاہئے کہ افغانستان سے امریکی فوج جا رہی ہے‘ سی آئی اے نہیں!
ہنری کسنجر کے مذکورہ خط کے مندرجات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی قوتیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اپنے طور پر فیصلہ کر چکی تھیں‘ اس لیے پاکستان کے سیاسی حل کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ صدر نکسن نے ہنری کسنجر سے 29 مارچ 1971ء کو فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا:
The real question is whether any body can run the god-damn place.
ہنری کسنجر کا امریکی صدر کو 13 مارچ 1971ء کولکھا گیا یہ خفیہ خط آج بھی اگر غور سے پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ کسنجر نے مارچ ہی میں دو حکومتوں کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔ ''مشرقی پاکستانی قیا دت‘‘ اور'' مغربی پاکستانی حکومت‘‘۔ دوسرا‘ اس نے اپنے خط میں شیخ مجیب کے لئے ''رحمٰن‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اسے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کا پیروکار لکھتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی اس کی مبینہ تحریک پُرامن ہو گی اور اس تحریک کو کچلنے کیلئے طاقت کا استعمال انصاف کے منافی ہو گا۔ آج تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیں، قیامِ بنگلہ دیش کی تحریک کسی ایک لمحے میں بھی پُرامن نہیں تھی بلکہ وحشت و بربریت کا وہ کھیل کھیلا گیا کہ چنگیز اور ہلاکو خان کی روحیں بھی کانپ اٹھی ہوں گی۔ مشرقی پاکستان میں پچیس سال سے گھات لگا کر بیٹھے ہوئے بھارت نواز ہندوئوں نے‘ جنہیں را اور بھارتی فوجی بنگال آتے جاتے تربیت دیا کرتے تھے‘ 1947ء کی تاریخ دہراتے ہوئے پاکستان کے نام سے ہمدردی رکھنے والے بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے، ان کے گلے کاٹے گئے، مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاجروں‘ دکانداروں اور ملاز مین کی آنکھیں تک نکال لی گئیں۔ آج بھی بنگلہ دیش کے بہاری کیمپوں میں محصورینِ پاکستان کے کیمپوں کا دورہ کر لیں‘ ساری حقیقت واضح ہو جائے گی۔ البدر اور الشمس کے کارکنوں کو بعد میں جس طرح پھانسیاں دی گئیں، جس طرح انہیں اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا، جو جو ستم ان پر ڈھائے گئے‘ یہ سب تاریخ میں ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ آج بھی بنگلہ دیش کی جیلوں میں جماعت اسلامی اور پاکستان سے محبت رکھنے والے دیگرہزاروں افراد ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
ہنری کسنجر کی تاریخی دروغ گوئی بلوچستان کے موجودہ حالات سے کس قدر مماثلت رکھتی ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھارت کو اپنی سازش پروان چڑھانے کیلئے مغربی میڈیا کی ضرورت تھی لیکن آج یہ کام پاکستان کے اندر سے بھی ہو رہا ہے، صرف کردار بدل چکے ہیں۔ امریکہ نے بھارت اور سوویت یونین کے بڑھتے تعلقات پر روک لگانے کے لیے اپنے دیرینہ حلیف پاکستان کو دولخت کر دیا ۔آج پھر بھارت اور امریکہ متحد ہو کر پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشوں پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کو امریکی چھتری تلے جس طرح پاکستان میں فساد اور شر پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا‘ کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ دشمن ملک کے ہر حصے میں نقب لگا کر ہمیں کمزور کر رہا ہے‘ اگر قوم اور مخلص قیادت کسی نئے المیے سے بچنا چاہتی ہے تو اسے اتحاد کی قوت کو بروئے کار لانا ہو گا اور یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں‘ جن کا جینا مرنا ملک کے ساتھ ہو‘ نہ کہ وہ جو بیرون ملک محلات اور وسیع بینک اکائونٹس رکھتے ہوں اور مشکل وقت میں ملک سے باہر بھاگ جائیں۔
(نوٹ: کالم کی تیاری میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی تصنیفRN: The Memoirs of Richard Nixonسے استفادہ کیا گیا ہے)