عیدِ قربان سے ایک ماہ پہلے تقریباً ہر گھرمیں بچوں کی بکرا لینے کی فرمائشیں بڑھنے لگتی ہیں کہ کب آئے گا ہمارا بکرا؟ باپ‘ ماں اور چاچو وغیرہ کو دن میں کئی بار جھنجھوڑا جاتا ہے اور اگر گلی محلے میں کوئی اور بکرا لے کر آ جائے تو پھر تمام محلے کے بچے اس بکرے کے ارد گرد جمع ہو کر اسے ہاتھ لگانے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔ اُس گھر کے بچے بڑے فخر سے سب کو کہتے ہیں کہ دیکھو! یہ ہمارا بکرا ہے، بس اس کے بعد تو گھر والوں کی شامت آ جاتی ہے، اگر بکرا نہ لے کر دیا جائے تو بچے ناراض ہو جاتے ہیں، پھر چاہے گنجائش ہو یا نہ ہو‘ گھر کے سربراہان اپنی تمام ضروریات کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھنے کے بعد مناسب قیمت والے بکرے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
آج جب اپنے پوتے‘ پوتیوں کی طرف دیکھتا ہوں یا اپنی کالونی میں بکروں کی رسیاں پکڑے بھاگتے‘ دوڑتے اور انہیں سہلاتے ہوئے بچوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہوں تو وقت ایک دم مجھے کئی برس پیچھے کی جانب لے جاتا ہے اور میری آنکھوں کے سامنے اپنا چھوٹا سا قصبہ گھومنے لگتا ہے، مجھے اپنا آبائی گھر یاد آنے لگتا ہے، اس میں گلابی رنگت والے امرود کے درخت دکھائی دیتے ہیں جن کے ساتھ ہم قربانی کیلئے لائے ہوئے بکرے کو باندھا کرتے تھے۔ اپنی وہ کیفیت یاد آنے لگتی ہے جو دوسرے بچوں کے بکروں کو دیکھ کر ہوتی تھی، اس وقت گھر کے سامنے ہر طرف کھیت اور کھلے میدان ہوا کرتے تھے اور گلی محلے کے بچے اپنے بکروں کو کھلے میدانوں میں دوڑایا کرتے تھے۔ اکثر ان بکروں کی دوڑ کا مقابلہ بھی ہوتا تھا۔ قربانی کے جانوروں‘ بکروں، چھتروں اور دنبوں کے گلے میں رنگ برنگی گانیاں یعنی ہار پہنائے جاتے تھے، مہندی سے ان کے جسم پر رنگ برنگ خوش نظر بیل بوٹے بنائے جاتے تھے، ان کی گردن میں ملائم اور خوش رنگ دوپٹے باندھے جاتے تھے اور یہ سب کرنے کے بعد بچوں کے چہروں پر ابھرنے والے تاثرات دیکھنے والے ہوتے تھے‘ خاص طور پر جب کسی کا بکرا باقی سب سے زیادہ قد کاٹھ والا صحت مند اور خوبصورت ہوتا۔ اکثر بچے اس موقع پر گھر جا کر ماں‘ باپ سے لڑتے جھگڑتے کہ ہمیں چھوٹا بکرا کیوں لے کر دیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک عید پر جب ہمارا بکرا باقی سب سے رنگت اور قد کاٹھ میں کم تھا تو میں کئی دن تک روتا رہا تھا جس پر میرے والد صاحب نے (خدا انہیں غریق رحمت کرے اور انہیں اپنی خاص رحمتوں سے نوازے۔ ہم کل آٹھ بہن بھائی تھے لیکن آج میرے ماں‘ باپ اور سب بھائی بہنیں اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، خاندان میں صرف میں ہی اکیلا رہ گیا ہوں، اس لیے بھی ان سب کی یادیں مجھے اکثر بہت بے چین کر دیا کرتی ہیں) نے مجھے نہایت شفقت سے سمجھایا۔ ہمارے والد نے ہمیشہ اپنی تمام خوشیاں، ضرورتیں اور آسائشیں ہم پر قربان کیے رکھیں، انہوں نے ہمیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے وہ تمام جتن کیے‘ جو وہ کر سکتے تھے۔ آج بھی جب ان کو یاد کرتا ہوں تو ان کی تصویر کے سامنے جھک کر کئی کئی منٹ تک تشکر اور جدائی‘ غم اور دکھ کے ملے جلے آنسو بہانے لگتا ہوں۔ افسوس کہ میں جب کچھ کرنے کے قابل ہوا تو وہ اس دنیا میں نہیں رہے تھے، اس کا مجھے عمر بھر افسوس اور کسک رہا کہ کاش! میں ان کے پائوں دھو دھو کر پیتا، کاش میں ہر وقت ان کے پائوں دباتا رہتا، کاش میں ان کے سر کا مساج کرتا، کاش میں ان کے ہاتھ چومتے ہوئے زندگی گزار دیتا لیکن شاید قدرت کو یہی منظور تھا، یہی میرے رب کی رضا تھی، اس میں یقینا میرے رب کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی، وہ خدائے بزرگ و برتر ہے‘ جو چاہے کرے‘ ہمیں تو بس اس کی رضا کے سامنے جھک جانا چاہئے۔
بات ہو رہی تھی ایک عید قربان کی کہ جب ہمارا بکرا محلے کے دیگر بچوں کے بکروں سے چھوٹا تھا۔ میرے رونے‘ چیخنے پر والد محترم نے ہم سب بہن بھائیوں کو بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے وعدہ کیا کہ اگلی عید پر تمہارا بکرا سب سے پیارا ہو گا اور سب سے بڑا بھی‘ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر میں تمہیں دو بکرے لے کر دوں گا؛ ہمیں یقین اور بھروسا تھا کہ ابو جو وعدہ کر لیں‘ اسے ہر حالت میں پورا کرتے ہیں‘ اس لئے ان کے وعدے سے مجھے کچھ سکون آ گیا۔ عید قربان گزرنے کے بعد بھی محلے میں کھیل کود کے دوران بچے ہمارے بکرے کا موازنہ کرتے ہوئے مجھے تنگ کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ چند ہفتوں کے بعد ختم ہو گیا اور پھر وہی کرکٹ، ہاکی، ونج وڑیکا اور گلی ڈنڈا شروع ہو گیا۔ کرکٹ کھیلنے کے لیے ہم لوگ گھر کے کپڑے دھونے والا تھاپا استعمال کرتے تھے اور گیند کا کام ہم لٹو سے لیا کرتے تھے، اس کو آدھا کاٹ کر بال بنا لیا جاتا اور اس سے کھیلا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی (اللہ میرے سب بہن بھائیوں کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کرے آمین!) میرے لیے ربڑ کی ایک گیند لے کر آئے تو ہمارے محلے میں ہماری ٹوہر دیکھنے والی تھی۔ ربڑ کی گیند‘ جسے آج ٹینس بال کہتے ہیں‘ میری جاگیر کے مانند تھی‘ جس بچے کو چاہتا‘ میں کھیلنے کیلئے ساتھ لے لیتا اور کسی دوسرے کو بال کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیتا، خاص طور پر ان لڑکوں کو‘ جو مجھ پر اپنے بڑے بکروں کا رعب ڈالا کرتے تھے۔
بات ہو رہی تھی عید قربان اور اس کے لیے خریدے گئے بکروں کی تو ہوا یوں کہ عید کے کوئی ایک ماہ بعد‘ شام کو جب والد محترم گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹے سے بکرے کی گردن میں ڈالی ہوئی رسی تھی۔ اسے دیکھتے ہی ہم سب بہن بھائی خوشی سے اچھلتے ہوئے ان کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ منظر آج بھی میں اگر لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کروں تو نہیں کر سکتا۔ اس خوشی اور دل میں مچلتے ہوئے پُرمسرت جذبات کو کوئی نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔ نام بھلا دیا بھی کیسے جا سکتا ہے کہ یہی تو بچپن ہے۔ ہم نے اس بکرے کا نام ''بِلّو‘‘ رکھا۔ وہ تھا بھی بہت خوبصورت‘ بالکل سفید رنگت کا! اب سکول جانے سے پہلے اور بعد میں اس بکرے کو کھول کر باہر کھیتوں میں لے جاتے‘ اسے نہر میں لے جا کر صابن سے نہلاتے، اسے دن میں دو‘ تین بار صاف کرتے، اس کیلئے دودھ اور سبزیوں سمیت اس وقت کے تمام موسمی پھلوں پر مشتمل خوراک بنائی جاتی، وقت دنوں‘ ہفتوں اور مہینوں میں گزرنے لگا اور جیسے ہی عید الفطر گزری تو ہمارا وہ بکرا اپنے رنگ و روپ اور قد کاٹھ میں بے مثال ہو گیا۔ جو بھی اسے دیکھتا اس پر ہاتھ پھیرنا لازمی سمجھتا۔ اس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے۔ ہمارے والد نے اس کے پائوں میں اپنے آج کے جگری دوست رانا عبدالعزیز سے خوبصورت چاندی کی بڑی بڑی جھانجھریں بنوائیں۔ جب ہمارا بلو ان جھانجھروں کے ساتھ چلتا تو اس سے اٹھنے والی آوازیں سن کر ہم سب تالیاں بجانے لگتے اور پھر عید قربان کا وہ دن بھی آ گیا جب نمازِ عید ادا کرنے کے بعد والد محترم اپنے دوست‘ محمد حسین قصاب کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ بلو جو امرود کے درخت کے ساتھ بندھا ہوا تھا‘ کی رسی کھولی گئی، ہم سب اس کے گرد جمع ہو گئے اور جب ابو نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا ''بلو میرا دل نہیں کرتا مگر قسم ہے رب کریم کی‘ تجھے صرف اللہ کی رضا کیلئے قربان کر رہا ہوں‘‘ تو بلو پہلے پچھلی اور پھر اگلی ٹانگوں کو زمین پر لگا کر امرود کے درخت کے نچلے تنے کے ساتھ سر رکھ کر لیٹ گیا اور پھر والد محترم نے روتے اور خود پر ضبط کرتے ہوئے بسم اللہ‘ اللہ اکبر کی تکبیر کے ساتھ چھری چلائی اور اس نے بغیر کوئی آواز نکالے‘ اپنی قربانی دے دی۔ ہم سب زور زور سے رونے لگے۔ وہ دن اس قدر اداس گزرا کہ آج بھی یاد کرتا ہوں تو عید پر گھر کا افسردہ ماحول نظروں میں گھومنے لگتا ہے اور آنکھوں کو بلو اپنے خوبصورت چہرے اور امرود کے تنے کے ساتھ سر ٹیک کر ضبط کرتا ہوا گردن پر چھری چلنے کی تکلیف سہتے ہوئے کوئی آواز نکالے بغیر دکھائی دیتا ہے۔