"MABC" (space) message & send to 7575

سانحہ بہاولپور

ہمارے ہاں 17 اگست 1988ء کے سانحے کو ایک ایسا شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے کہ اس پر رسمی سا بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا جاتا۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھیوں کی سی ون تھرٹی طیارے کی تباہی کے نتیجے میں شہادت کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو پوما ہیلی کاپٹرکے ذریعے ملتان لائے گئے آموں کی ان دو پیٹیوں کا ذکر لازمی کیا جاتا ہے جو بطورِ تحفہ موصول ہوئی تھیں اور ان کے جہاز میں رکھوائی گئی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بدترین مخالفین نے آموں کی ان پیٹیوں کے قصیدے بھی لکھے اور ایک صاحب نے اس پر ایک ناول بھی تحریر کیا جس کا بہت چرچا رہا لیکن اپنے آج کے مضمون میں آموں کی پیٹیوں کا نہیں بلکہ ایک ایسے تحفے کا ذکر کروں گا جس کا آج تک کہیں ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کو بہاولپور میں پیش کیا جانے والا کرسٹل کا بنا مختلف جہازوں کے ماڈلز کا تحفہ ہے جو جہاز میں دیگر سامان کے ساتھ نہیں بلکہ خصوصی طور پر سی 130 پاک ون کے کاک پٹ میں یہ کہتے ہوئے رکھوایا گیا تھا کہ چونکہ بہت نازک ہے‘ اس لیے اسے جہاز کے کاک پٹ میں رکھوا دیا جائے۔ ہمایوں اختر سمیت بہت سے لوگوں نے مجھے یہ بات 1988ء میں احمد رضا قصوری کے گھر‘ ماڈل ٹائون لاہور میں بتائی تھی کہ جنرل صاحب کے جہاز کے کاک پٹ میں ایک چھوٹا سا ڈبہ رکھوایا گیا تھا جسے جہاز بلند ہوتے ہی ریموٹ سے کنٹرول کیا گیا اور کاک پٹ میں موجود بیٹھے عملے کے اعصاب شل ہو گئے جس سے جہاز پر ان کا کسی قسم کا کوئی کنٹرول نہ رہ سکا۔
جنرل ضیا اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا جب بھی ذکر ہو گا‘ کچھ سوال ہمیشہ اٹھائے جائیں گے مثلاً وہ کون تھا جس نے کرسٹل کا یہ تحفہ جنرل صاحب کو دیا اور یہ جہاز کے کاک پٹ میں کیسے رکھوایا گیا۔ اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کو انہیں اپنے متعینہ روٹ سے ہٹ کر لیاقت باغ کے کالج کی جانب جانے اور پھر گاڑی کے روف ٹاپ سے سر باہر نکالنے کا مشورہ کس نے دیا؟ اگر ان دو سوالات کے جوابات مل جائیں تو ان دو المناک قومی سانحات کے مجرم انصاف کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں گے۔ ویسے تو ہماری تاریخ ایسے سوالات سے بھری پڑی ہے‘ مثلاً قائداعظم محمد علی جناح کو ایک خراب ایمبولینس پر کیوں سوار کرایا گیا؟ ان کی گاڑی کو کراچی ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہائوس لاتے ہوئے اشارے پر دیر تک کیوں اور کس بلیو بک کے تحت روکا گیا؟وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا قتل کس نے اور کس کے کہنے پر کیا؟ حسین شہید سہروردی کی پُراسرار موت کی وجوہات کیا تھیں؟ حکیم سعید کس کا نشانہ بنے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کے سکیورٹی انچارج خالد شہنشاہ کو کس نے قتل کیا؟ کس نے بلاول ہائوس کے سکیورٹی افسر شیخ صاحب کی جان لی؟ بینظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش پر مامور سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار‘ جن کی ساکھ بحیثیت وکیل نہایت قابل اور مستقل مزاج کی تھی تھی اور جنہوں نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں کافی پیش رفت کر کے قاتلوں کے قریب پہنچ چکے ہیں‘ کو کس نے قتل کیا؟ ایک طویل فہرست ہے جو ہم سب سے اپنے قاتلوں کی تلاش کا جواب مانگتی ہے؛ تاہم آج بات کریں گے سی ون تھرٹی طیارے حادثے کی کیونکہ یہ اکیلے جنرل ضیاء الحق کی موت نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ قوم کے ان دو درجن سے زائد بہادر سپوتوں کی بھی ہے جو 17 اگست 1988ء کے سی ون تھرٹی طیارے حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ اس سازش میں اگر بھارت اور اسرائیل سمیت غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھ کی بات کی جائے تو یہ امر کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اس المناک قومی حادثے میں معاون تو اندرونی لوگ ہی بنے ہوں گے۔
16 اگست کو‘ پاک ون حادثے سے ایک روز قبل کراچی فیصل بیس سے پاک ایئر فورس کا ایک طیارہ‘ جسے فلائنگ آفیسر سیف اللہ اڑا رہے تھے‘ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے جس کیلئے گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی کو ایئر فورس حادثات کے تحقیقاتی بورڈ کا سربراہ اور چیف انویسٹی گیٹر مقرر کیا جاتا ہے۔ ونگ کمانڈر ظہیر زیدی نے 24 اگست 1995ء کوکراچی کے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ سی 130 کی تباہی کے وہ سربستہ راز‘ جو انہوں نے جسٹس شفیع الرحمن کمیشن کے سامنے پیش کیے تھے‘ ان کا پانچ فیصد بھی ان کی جاری کردہ رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسی قوت تھی جو سچ سب کے سامنے لانے سے روک رہی تھی۔ ان کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ جسٹس شفیع الرحمن کمیشن میں کسی ماہر سرجن اور فلائٹ انجینئر کا شامل نہ کیا جانا سب کی سمجھ سے بالاتر تھا۔
ظہیر زیدی کے بقول‘ 16 اگست کو اچانک انہیں ایئر وائس مارشل فاروق فیروز کی جانب سے بلایا جاتا ہے۔ ظہیر زیدی اس وقت شلوار قمیص جیسے سول ڈریس میں ملبوس‘ چپل پہنے ہوئے تھے، وہ یونیفارم پہننے کیلئے پندرہ منٹ کی اجازت طلب کرتے ہیں لیکن انہیں اسی لباس میں پیش ہونے کا حکم ملتا ہے۔ جیسے ہی ظہیر زیدی ایئر وائس مارشل کے پاس پہنچتے ہیں‘ وہ انہیں ساتھ لے کر فیصل ایئر بیس پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں کھڑے ایئر فورس کے ایک جہاز میں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے ہوئے سوار ہو جاتے ہیں جس پر گروپ کیپٹن ظہیر زیدی ان سے بغیر وردی جہاز میں بیٹھنے پر معذرت کر تے ہیں کیونکہ یہ ایئر فورس کے قوائد و ضوابط کے خلاف تھا۔ ایئر وائس مارشل انہیں اطمینان سے جہاز میں بیٹھنے کا کہتے ہیں اور پھر سب سے حیران کن وہ لمحہ آتا ہے جب جہاز چکلالہ جانے کیلئے رن وے پر دوڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ گروپ کیپٹن ظہیرالحسن زیدی اپنے سینئر سے کہتے ہیں سر اگر ہم نے چکلالہ اترنا تھا تو مجھے اپنا سفری بیگ اور یونیفارم لانے کی اجا زت دے دی جاتی جس پرانہیں بتایا گیاکہ آپ کا تمام مطلوبہ سامان جلد آپ تک پہنچ جائے گا۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد فاروق فیروز خان ایئر ہائوس پہنچتے ہیں جہاں ان دونوں کیلئے الگ الگ کمرے بک کرائے گئے تھے۔ گروپ کیپٹن زیدی کا مطلوبہ سامان پی آئی اے کی اگلی کسی فلائٹ سے منگوا کر ان کے حوالے کر دیا گیا۔ اگلا سارا دن وہ اسی سوچ میں غلطاں رہتے ہیں کہ ا نہیں اس قدر بے خبررکھتے ہوئے ہوئے کس مقصد کیلئے اسلام آباد لایا گیا ہے؟
ابھی ظہیر زیدی اپنے کمرے میں ہی بیٹھے تھے کہ انہیں بستی لال کمال میں پاک ون فلائٹ کے سی ون تھرٹی طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی اطلاع ملی‘ اس خبر نے ایک لمحے کیلئے سب کو چکرا کر رکھ دیا۔ اس خبرکے دس منٹ بعد ہی ظہیر زیدی کو فوری طور پر ایئر ہیڈ کوارٹر پہنچنے کا حکم ملا اور جیسے ہی وہ وہاں پہنچے فاروق فیروزانہیں لیے ایئر چیف مارشل عبدالحکیم خان درانی کے پاس لے کر گئے جو اس وقت وار روم میں تھے۔ اس کے بعد انہیں سی ون تھرٹی کے کریش کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے امریکی ٹیم کے ساتھ مل کر تحقیقات کرنے کا حکم دیا گیا۔ بقول ان کے‘ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے‘ اس پُراسرار کیس کی پس پردہ کہانی کے تانے بانے کھلتے چلے گئے۔
19 اگست 1988ء‘ جمعۃ المبارک کے دن صبح دس بجے گروپ کیپٹن ظہیر نے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو بڑی مسرت سے یہ اطلاع دی کہ وہ جان چکے ہیں کہ جہاز کیسے تباہ ہوا اور اسے کس طرح سبوتاژ کیا گیا ہے‘ مگر وہ اس پر خوش ہونے کے بجائے کچھ بڑبڑانا شروع ہو گئے۔ اس پر وہ انہیں لے کر سیدھے لیبارٹری گئے جہاں کیمیائی تجزیوں کے ذریعے تخریب کاری کے ثبوت مہیا کیے۔ یہ رپورٹ آج بھی ''نیلور کی نیوکلیئر فزکس ڈویژن‘‘ کی لیبارٹری میں موجود ہو گی۔
لیبارٹری سے واپس چکلالہ ایئر بیس آتے ہوئے ان کے سینئر کا مزاج سخت برہم تھا اور چکلالہ پہنچتے ہی انہوں نے ظہیر زیدی کے کمرے میں رکھے گئے ٹیلی فون پر کسی سے بات کی اور یہ بھی نہ سوچا کہ وہ زیدی کے کمرے میں ان کے سامنے ہی کیا کچھ کہے جا رہے ہیں۔ یہ واقعہ 19 اگست دن ساڑھے بارہ بجے کا ہے اور ظہیر زیدی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک نادر شاہی حکم دیتے ہوئے مجھے کہا گیا ''تاحکم ثانی تم انڈر کلوز اریسٹ ہو، نہ تم کسی سے مل سکتے ہو اور نہ ہی کسی سے فون پر یا کسی بھی طریقے سے رابطہ کر سکتے ہو‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں