مینار پاکستان گراؤنڈ میں یوم آزادی کو ہونے والے شرمناک واقعہ پر ایکشن لیتے ہوئے کی گئی ہنگامی ٹرانسفرز اور معطلیاں اس قدر حیران کن ہیں کہ ان پر کچھ کہنے سے نہ کہنا ہی بہتر ہو گا۔14 اگست کو لاہور بھر میں پیدل‘ موٹر سائیکلوں ‘چھوٹی بڑی گاڑیوں اور رکشوں میں بیٹھ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ یوم آزادی کا جشن اور بچوں کو روشنیوں سے جگمگاتا شہر دکھانے کیلئے نکلنے والوں کے ساتھ اوباش‘ بد معاش اور چھوٹے موٹے جرائم میں لتھڑے لیکن اپنی طاقت ‘پیسے‘ سفارش اور سیا سی پشت پناہی کی وجہ سے محفوظ رہنے والوں نے جو شرمناک حرکات کیں ‘ بے ہودہ اشار ے کئے اور آوازے کسے‘ وہ مردہ ضمیر ی کی علامت تھے۔ عدلیہ نے فیصلہ دیا تھا کہ طوطیاں اور باجوں سے کان پھاڑنے والوں کو سزا دی جائے گی لیکن سب نے دیکھا کہ اُسی شام تاجروں کی ایک مرکزی تنظیم کے سینئر عہدیداروں نے اپنی پریس کانفرنس کا آغاز ہی طوطیاں باجے بجاتے ہوئے کیا تھا ۔گویا وہ قانون کو چیلنج دے رہے تھے۔ کاش ان لوگوں کو اسی وقت عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہوتا ۔ ڈی آئی جی آپریشن لاہو ر کے تبادلے کی خبر عام ہوئی تواس وقت ڈیوٹیوں پر موجود تھانے اور وہاں کے ماتحت عملے کو شکرا دا کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ‘ اور یہ کوئی قصہ نہیں بالکل ایک حقیقت ہے جو بتا رہا ہوں۔ ان سے بہتر پولیس افسران بھی ہوں گے لیکن ان کی تنظیمی گرفت کمال کی تھی۔ اپنی تعیناتی کے دوران سخت سیا سی دبائو کے با وجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری ان سے کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن ان کی شہرت ہر جگہ سے اچھی ہی سنتے رہے ہیں۔ عاشورہ محرم پر لاہور کے امن و امن کیلئے ان کی حکمت عملی اور جلوس کے راستے میں آنے والی ہر ایک گلی کی بذات خودمانیٹرنگ معمولی کام نہ تھا۔
پھرایک ڈی آئی جی آپریشنز ہی کیوں لاہور کی ہر انتظامی مسند پر بیٹھے ہوئے عہدیدار کو گھر کیوں نہیں بھیجتے کیونکہ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر اجتماعی ہے۔ یوم آزادی کو مینار پاکستان اور لاہور کی سڑکوں پر دیکھے گئے مکروہ اور بد ترین جانوروں جیسی خصلت لئے بیہودہ لوگوں نے جو کیا وہ قرآن پڑھنے اور اسے سمجھنے والی مخلوق کا کام نہیں ہو سکتا ۔دیکھا جائے تو آئے اس دھرتی پر جو کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہاہے اس نے اس پہ مہر ثبت کر دی ہے کہ بطور قوم ہم سب توہین انسانیت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہماری سیا ست‘ معاشرت اور ہمارا نظامِ تعلیم ہمیں وہ اخلاقی سبق سکھانے میں ناکام ہے جو بطور مسلمان ہمارا دینی فریضہ ہے اور بطور انسان ہماری سماجی ذمہ داری۔لگتا ہے کہ لاہور کے نوجوانوں کو اخلاقی سبق سکھانے کا خصوصی اہتمام کرنا پڑے گا۔اس یوم آزادی کو مجھے ایسا لگا کہ کسی بزدل ا ور ڈرپوک قوم کے ایسے لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے جن کی انسانیت کو جنسیت کی دیمک چاٹ گئی ہو۔ ایسے لگا کہ اُس چنگ چی رکشا کے چاروں طرف مرد نہیں بھیڑیے تھے‘ بلکہ بھیڑیے بھی اپنی نسل کے جانداروں پر ایسے کب ٹوٹ پڑتے ہوں گے‘ کوئی لحاظ تو وہ حیوان بھی کرتے ہوں گے‘ مگر یہ انسان؟
اندر سے خوف سے کانپ رہے تھے مگر افسوس کہ کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر ان لچوں کو روکنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کی۔ چاہئے تو یہ تھا اُس چنگ چی رکشا کے ساتھ ساتھ چلنے والی تمام موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے حوالے سے شناخت کر کے سب کو اس خاندان کے ساتھ کئے گئے شرمناک سلوک کا شریک جرم قرار دے دیا جاتااور وہ لوگ جنہوں نے اس خاندان کے ساتھ یہ گھٹیا اور شرمناک سلوک کیا انہیں نشان ِعبرت بنا دیا جائے۔اگر یہ سزا ایک مرتبہ دے دی جائے تو شاید گھر سے نکلنے والی حوا کی بیٹیاں ہوس کے بچاریوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ سیالکوٹ موٹر وے پر گزشتہ برس ایک خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا ابھی میرے جیسے لوگ اُسی سانحہ کے دکھ کو نہیں بھول پائے۔ اس کا تصور کرتے ہوئے رو پڑتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب ان مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے اور انہیں معاشرے میں ایک گھٹیا اور مکروہ چہرے کے ساتھ رہنے کا عذاب دیا جائے۔ ابھی اس کیس کے مجرموں کی سزا پر عمل ہونا باقی ہے کہ یوم آزادی پر یکے بعد دیگرے کئی دل دوز واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
چودہ اگست اور یوم آزادی کے حوالے سے پاکستانی جھنڈے کے رنگوں والے لباس پہنے بیٹھی ہوئی ایک فیملی جن میں ماں‘ بیٹی اور نواسہ شامل تھا جس قسم کی مکروہ اور گھٹیا حرکات ان کے ساتھ کی گئیں وہ سب اپنی جگہ لیکن مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں جو کچھ ہوا وہ سب سے زیادہ وحشت ناک تھا۔ اس خاتون ٹک ٹاکر اورچنگ چی رکشا میں سوار فیملی کے ساتھ پیش آنے والے گھٹیا اور شرمناک واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے دلی رد عمل کے لیے اگر الفاظ کا چنائو کیا جائے تو ذخیرہ الفاظ ختم ہو جائے گا لیکن پھر بھی وحشیانہ جنونیت کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد اند رکا دکھ اور تکلیف کم نہیں ہو گی۔ ایک جانب ان مجاہدین کی دا ستانیں گونج رہی تھیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے تن ‘ من اور دھن کی قربانیان دے ڈالیں اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کر کے دم لیا تا کہ مسلم قوم کو اپنے دین کے اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کے لیے ان کا الگ ملک حاصل ہو جائے۔ یہ ملک اسلام کے سنہری اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا مگر جس قسم کے واقعات یہاں ہو رہے ہیں وہ اسلام اور انسانی اخلاقیات کی توہین ہیں۔قابل ِافسوس بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں عورت کی توہین اورا س کے ساتھ ہر وقت جنونیت کے مظاہرے کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے‘ جہاں جنسیت نے زندگی اور احترام انسانیت کے سب اصول دیمک زدہ کر دیے ہیں‘معاشرتی سطح پر کوئی بھی ایسی بااثر آواز نہیں اٹھ رہی جو اخلاقی تباہی کے شکار معاشرے میں ہدایت کی تبلیغ کرے۔ صورتحال جس قدر خراب ہو چکی ہے اس میں دعوت او ر تعزیر دونوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ صرف دعوت سے بھی کام نہیں چلے گا اور صرف سزا کا پہلو بھی معاشرے کو اخلاقی بہتری کی بلند تر سطح پر نہیںلا سکتا۔ حکومتیں اس قسم کے واقعات کو ہنگامی اقدامات اور بیان بازی سے نمٹاتی ہیں۔ یہی دیکھ لیا جائے کہ 14 اگست کو جو ہوا کیا سرکاری سطح پر اس کا علم نہیں تھا؟ یقینا ہو گا یا کم از کم پولیس اور انتظامیہ کی سطح پر ایسی اطلاعات ضرورہونی چاہئیں تھیں‘ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یوم آزادی پر آنے والے اس طوفانِ بد تمیزی پر حکومت نے اُس وقت تک خاموشی اختیار کئے رکھی جب تک کہ اُس متاثرہ بچی نے ہمت کر کے خود اندراج مقدمہ کی درخواست نہیں دی۔ اس کے بعد حکومت ہر طرح کی پھرتیاں دکھا رہی ہے مگر ‘ ان واقعات کے فوری بعد حکومت کا ردعمل نہ آنا حیران کن ہے۔
جب حکومت اس طرح کے واقعات میں اتنی سست روی کا مظاہرہ کرے گی اور واقعات پر بے مقصد جذباتی پن اختیار کر کے وقت گزارے گی تو عوامی سطح پر وہ فکری تبدیلی جو مر د و خواتین کو دینی احکام اور سماجی اور ثقافتی روایات کی پاسداری پر آمادہ کرے‘ ناممکنات میں سے ہے۔ اس سال یوم آزادی پر جو کچھ ہوا وہ ملکی تاریخ کے بد ترین واقعات تھے۔ ملک میں سیاسی جلسوں‘ بازاروں اور دیگر پُر ہجوم واقعات پر خواتین کی بے حرمتی کے قابل مذمت واقعات یقینا پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس طرح دیدہ دلیری سے کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ ان واقعات کو اگر حکومت نے نظر انداز کر دیا اور اصلاح کے مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو اندیشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں قومی تہواروں پر ایسے واقعات عام ہو جائیں گے۔ اس لیے صرف افسروں کی معطلی اور تبادلے کافی نہیں بلکہ ذمہ داروں کے خلاف یقینی کارروائی اور سما ج میں اخلاقی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی آگاہی بھی ضروری ہے۔