فروری 1925ء میں افیون کی کاشت پر ہونے والے عالمی کنونشن اور اس میں دنیا بھر کے لیے وضع کیے جانے والے قوانین اور مندر جات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ پاکستان بننے کے دس سال بعد‘ 1957ء میں اینٹی نارکوٹکس کے نام سے پاکستان میں فوج کے ماتحت ایک نئے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ہر صوبے کی پولیس، ایف آئی اے اور ایف سی کے علا وہ لیویز، کسٹم اور میری ٹائم سکیورٹی جیسے ادارے بھی منشیات کی خرید و فروخت، تیاری اور سمگلنگ کو کنٹرول کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود‘ ہزاروں کی تعداد میں افسروں اور اہلکاروں کے با وجود‘ ملک بھر میں منشیات کا کاروبار وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ایک جانب ملک بھر میں یہ مکروہ اور انسانیت دشمن دھندہ کرنے والوں کی تعداد، ان کے فارم ہائوسز، بنگلوں، پلاٹوں، پلازوں اور مارکیٹوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو دوسری جانب منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آج پاکستان میں ہیروئن اور آئس استعمال کرنے والوں کی تعداد‘ جو دس برس پہلے تک چند لاکھ کے قریب بتائی جاتی تھی‘ ڈیڑھ کروڑ کا ہندسہ عبور کر چکی ہے اور ظاہر ہے کہ ڈرگز ان کیلئے آسمان سے نہیں اترتیں، ملک کے ہر شہر‘ گلی‘ محلے‘ بلاک، چک، گوٹھ اور دیہات میں ڈیڑھ کروڑ نشہ بازوں کو مختلف شکلوں میں منشیات کی فراہمی ملک کے اندر موجود لوگ ہی کرتے ہیں جن کے چہرے سوائے پولیس اور مذکورہ اداروں کے‘ سب کو نظر آ جاتے ہیں۔ اگر یہ منشیات فروش نظر نہیں آتے تو پولیس، کسٹم اور اینٹی نار کوٹکس فورس جیسے اداروں کو نظر نہیں آتے۔
اگرکوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ جب یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے تو پھر انسانیت کے یہ دشمن بھاری مراعات لینے والے محکموں کی گرفت سے دور کیوں ہیں؟جب سب کو ان کا علم ہے تو پھر ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟ تو کوئی تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ ایسے ہر سوال کے جواب میں چند رٹے رٹائے جملے سنا دیے جاتے ہیں کہ اتنے منشیات فروشوں کو گرفتار کیا، اتنی مقدار میں نشہ آور مواد تلف کیا، اتنے سمگلر پکڑے اور اتنے نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا۔ سوال ہے کہ اگر واقعی یہ سب کام ہو رہے ہیں تو منشیات کا کاروبار دن دگنی‘ رات چوگنی ترقی کیسے کر رہا ہے؟ اس وقت منشیات کی سمگلنگ کو دنیا بھرکا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار کہا جاتا ہے اور یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ اس کاروباری مافیا میں کئی ممالک کے سربراہان، قانون نا فذ کرنے والے اداروں کے بااثر افسران، سیاستدان، بڑے بڑے کاروبا ری اور تجا رتی ادارے شامل ہیں۔ حکومتوں اور اداروں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہوتا، ہمارے اداروں کو بھی بخوبی علم ہو گا کہ منشیات کے دھندے میں مقامی لوگوں کے تعاون سے ملک دشمن عنا صر اور دشمن ملک کے خفیہ ادارے جو کالا دھن بناتے ہیں‘ اس رقم کا ایک بڑا حصہ پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کے نیٹ ورک پھیلانے جیسی خطرناک کارروائیوں کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ پاکستان کے ایک سابق صدر‘ مرحوم سردار فاروق احمد لغاری نے اپنے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ پاکستان منشیات کے خلاف جنگ ہار رہا ہے۔
1993ء کو منشیات کے خاتمے کا بین الاقوامی سال قرار دیا گیا تھا لیکن ہوا اس کے بر عکس کہ اس کے بعد سے منشیات کی پیداوار اور استعمال روز بروز بڑھنا شروع ہو گئے۔ جب یہ عالمی اینٹی نارکوٹکس ایئر منایا جا رہا تھا تو اسی وقت منشیات کا ایک عالمی سمگلر کولمبیا کی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ منشیات فروشوں کا بادشاہ ''پابلو ایسکوبر‘‘ (Pablo Escobar) اپنے خفیہ ٹھکانے پر بیٹھا اقوام عالم کی طاقت اور وسائل کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مزید مضحکہ خیز صورتِ حال یہ سامنے آ ئی کہ عین اسی وقت یورپ کے بڑے بڑے شہروں کے میئرز نے ایک نادر تجویز دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ''منشیات کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ اس کو قانوناً جائز قرار دیا جائے‘‘۔
1994ء میں اسلام آباد میں ''منشیات کی لعنت اور منشیات کنٹرول‘‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک قومی سیمینار میں اس وقت کے صدرِ پاکستان نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ قوم کی بد قسمتی ہے کہ ڈرگ مافیا اپنی نا جائز دولت‘ وسائل اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ملکی سیاست میں سرایت کر گیا ہے اور اقتدار کے ڈھانچے تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چند سال پہلے ایک حساس ادارے کی رپورٹ کے مطابق‘ بعض سیاسی شخصیات منشیات کے دھندے میں پوری طرح ملوث ہیں اور اسی دھندے کے باعث پارلیمنٹ تک پہنچ گئی ہیں، نیز یہ کہ منشیات کا دھندہ پولیس کی سرپرستی اور نگرانی میں ہو رہا ہے بلکہ یہ سپلائی بھی پولیس کے ذریعے ہی مختلف ہاتھوں تک پہنچ رہی ہے۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ ڈرگ مافیا حکومت کے ہر ادارے سے زیا دہ مضبوط ہو چکا ہے۔
آج افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے دنیا کا ہر قابلِ ذکر ملک پریشان ہے جبکہ روس کو دیگر پریشانیوں کے علا وہ ایک بڑی پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ اب وار لارڈز، منشیات کے عالمی گروپ اور ڈان‘ قندھار کے بجائے روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ذریعے یورپ بھر میں منشیات کی سپلائی کرنا شروع ہو جائیں گے جس سے تمام یورپ کی نظروں میں اس کی رسوائی ہو گی۔ چالیس برس پہلے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان میں پوست کی کاشت عام بات تھی۔ سوویت افغان جنگ سے پہلے یہاں سے چرس کی سپلائی دنیا بھر میں بھیجی جاتی تھی لیکن جونہی سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد شروع ہوا تو پھر دنیا نے دیکھا کہ اچانک '' ہیروئن‘‘ دریافت ہو گئی۔ یہیں سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کی تیار کردہ منشیات‘ جو افغان جنگ کے دوران‘ پہلے اور بعد میں بھی امریکا سمیت دنیا کے دوسرے کئی ممالک میں بھیجی جاتی تھیں‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ تخریبی کارروائیوں کیلئے رکھا جا تا تھا۔ یہ بات کھلی حقیقت ہے کہ امریکا نے آج تک جہاں بھی جنگ لڑی ہے‘ اس کے اخراجات اس نے مقامی ذرائع سے ہی پو رے کیے ہیں اور دنیا کو تا ثر یہی دیا جا تا رہا کہ امریکا نے کمزور قوموں کی مدد کر نے کیلئے سینکڑوں ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ امریکا ہی سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ EIR نے پچھلی افغان جنگ کے دوران ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ روس سے جنگ کے دوران افغانستان اور قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والی بیشتر منشیات امریکی حکومت کے مختلف اداروں کے ذریعے سمگل کی جا تی تھیں۔ اب تو یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ جب تک سوویت فوجیں افغانستان میں رہیں‘ منشیات کا کنٹرول پاکستان بھر کے نامی گرامی سمگلروں کے ہاتھوں میں رہا۔ روسی افواج کی شکست کے بعد اس کاروبارمیں سندھ اور بلوچستان کے کچھ طاقتور لوگ بھی شامل ہو گئے۔ افغان جنگ کے دوران اسرائیل بھی منشیات کی اس تجا رت کا حصہ بن گیا اور پھر امریکی اور اسرائیلی مافیا نے مل کر منشیات کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسی دوران ان کا سِسلی اور بلوچستان مافیا سے ٹکرائوبھی ہوتا رہا۔ افغان جنگ میں امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن امریکا نے کبھی گھا ٹے کا سودا نہیں کیا۔ اگر دیکھا جائے تو افغان جنگ امریکا کیلئے سونے کی کان ثابت ہوئی جس کا سلسلہ ابھی تک جا ری ہے کیونکہ روس کے سپر پاور نہ رہنے سے امریکا کے دفاعی اخراجات میں40 فیصد کمی آئی جو کئی کھرب ڈالر بنتی ہے۔
1979ء سے اب تک افغان جنگ کے دونوں ادوار کے نتیجے میں لاکھوں پناہ گزینوں اور فوجی اخراجات کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان کو طے شدہ رقم کا سوواں حصہ بھی نہیں ملا۔ آج جب امریکا، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے یورپی ممالک اپنے قرضہ جات مع سود کی واپسی کی بات کر تے ہیں تو پاکستان کو چاہئے کہ اپنے اخراجات کابل ان کے سامنے رکھ دے کہ آپ کی وجہ سے ہما را اب تک جو نقصان ہوا ہے‘ اس میں سے اپنا قرضہ مع سود کاٹ کر بقیہ رقم ہما رے حوالے کر دیں۔ جب امریکی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے تو ہم خاموش کیوں رہیں؟