مسلم لیگ نواز‘ پی پی پی‘ اپوزیشن اور ان کے میڈیا سیلز کی جانب سے موجودہ حکومت کو سب سے زیا دہ نشانہ پنجاب میں پے درپے کیے جانے والے آئی جی پولیس، چیف سیکرٹریز اور انتظامی افسران کے تبادلوں کی وجہ سے بنایا جا رہا ہے جو یقینا اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ ہیں لیکن ان کی وجوہات جاننے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی۔ یہ پوسٹنگ کہیں جلدی میں یا کسی کی بریفنگ سے متاثر ہو کر کی جاتی رہیں یا جو نام سامنے آئے‘ ان پر ٹھپہ لگا دیا گیا اور یہ نہ دیکھا کہ ان کی سوچ حکومت کے بارے میں کیا ہے؟ ان کے اصل تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں، ان کے سر پر ہر وقت کس کا خوف سوار رہتا ہے؟ ہوتا یہ رہا ہے کہ اگر کسی جانب سے کان میں یہ بات ڈال دی گئی کہ کل ایک جگہ پر فلاں سرکاری افسر حکومتی پالیسیوں کی بہت تعریف کر رہا تھا‘ وہ کہہ رہا تھا کہ یہ بین الاقوامی معیار کے منصوبے ہیں لیکن ان کا نفاذ درست طریقے سے نہیں ہو رہا، ان میں فلاں فلاں انتظامی خامیاں ہیں، اس کیلئے اگر اچھے انتظامی افسران پر مبنی ٹیم لائی جائے تو دیکھیں کیسے یکدم کایا پلٹتی ہے اور لوگ موجودہ حکومت سے کیسے خوش ہوتے ہیں‘ تو ایسی چند مزید چاند ماریوں کے بعد وہ افسر اعلیٰ عہدے پر فائر ہو جاتا، لیکن سوائے اپنے افسران کو وہاں لانے کے‘ کوئی اور کام نہ کیا جاتا اور یوں ملک و قوم کی کایا کیا پلٹنا تھی‘پہلے سے جو کیا دھرا ہوتا، وہ بھی ضائع ہوجاتا۔
گزشتہ تین برسوں سے پنجاب میں ایسے ایسے افسران لگائے گئے کہ لگتا تھا کہ ان کے آرڈر آج بھی رائیونڈسے کلیئر ہونے کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ ضلع قصور میں جتنے بھی انتظامی افسران لگائے گئے‘ ان کے سامنے پورا ضلع پانی میں ڈوبارہتا، سیوریج کے پانی نے عوام کو عذاب سے دوچار کیے رکھا، گھروں کے گھر تباہ ہو گئے، عوام درخواستیں دے دے کر ہلکان ہو گئے، ایک سے دوسرے سرکاری دفتر کے مابین شٹل کاک بن گئے مگر کہیں پر شنوائی نہیں ہو سکی۔ میرا اپنا آبائی گائوں چونکہ اسی ضلع میں ہے اسی لیے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میرے اپنے گائوں میں سب سے زیادہ گھر بارشوں اور سیوریج کے پانی کا نشانہ بنے۔ وہ گھر جہاں میں پیدا ہوا‘ جہاں اپنا بچپن گزارا‘ وہاں آئے روز ہونے والی بارشوں اور سیوریج لائنوں کے بند ہونے کی وجہ سے دو‘ ڈھائی فٹ تک گندا بد بو دار پانی کمروں میں بھر آنے کی وجہ سے اسے خالی کر نا پڑا۔ یہ دکھ وہی جان سکتا ہے جو اپنی جنم بھومی میں چند لمحے گزارنے کیلئے دوردراز سے چل کر آتا ہو۔ گورنر پنجاب‘ پنجاب بھر میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا رہے ہیں‘ نجانے کھڈیاں کا علاقہ ان کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے جسے صاف پانی کی اس وقت شاید سب سے زیا دہ ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگ گندا پانی پینے پرمجبور ہیں مگر انتظامیہ کو ٹھنڈے کمروں سے نکلنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اب تو گورنر صاحب سے ہی منت سماجت کر سکتے ہیں کہ وہی اس معاملے پر توجہ دے کر نیکیاں کمائیں۔
اچھے سرکاری افسران کیسے ضائع کئے جاتے رہے‘ اس کی صرف ایک مثال سن لیجئے۔ پنجاب میں ڈی آئی جی رینک کے ایک سینئر افسر کی پوسٹنگ کو ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ ان کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے حکومت کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ تو بہت ہی شریف قسم کے انسان ہیں‘ ان کی انتظامی گرفت کچھ کمزور لگتی ہے‘ اس ضلع میں کوئی سخت افسر لگا نا پڑے گا۔ جب انہیں تبدیل کیا جانے لگا تو انہیں کہا گیا کہ آپ کو فلاں علاقے میں فلاں پوسٹ پر تعینات کیا جا رہا ہے مگر پھر انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا ۔وجہ صاف ہے کہ ان جیسے 'شریف‘ افسران فیلڈ میں کارفرما خفیہ ہاتھوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور وہ نہیں چاہتے کہ ایسا کوئی افسر کسی اہم ضلع میں تعینات رہے۔ تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب کی آدھی سے زائد کابینہ اس افسر کو اچھی پوسٹنگ دینے کیلئے اس لئے بے تا ب رہتی کہ وہ نہایت ایماندار اور وزیر اعظم کے وژن کے دو دہائیوں سے قدردان چلا آرہے تھے، جب ا س افسر کے حق میں میڈیا سے بھی دبائوآنا شروع ہو گیا تو پھر یہ خبر اڑا دی گئی کہ اس افسر نے رائیونڈ میں فلاں شخصیت سے ملاقات کی ہے، اس طرح کے پروپیگنڈا کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ حکومت کی نظر میں ایسے سرکاری افسران کی وفاداری کو مشکوک بنا دیا جائے۔ حالانکہ سرکاری افسران، زیادہ تر، کی وفاداری حکومت کے بجائے ریاست کے ساتھ ہوتی ہے، حکومت نے تو پانچ سال بعد ویسے ہی تبدیل ہو جانا ہوتا ہے، اگرچہ اس وقت بالخصوص پنجاب کی افسر شاہی میں سابق حکمران خاندان کی جڑیں کافی مضبوط ہیں مگر زیادہ تر افسران ریاست کے وفادار ہیں اور ایک اہل اور ایماندار بندے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس بھی سیٹ پر تعینات کیا جائے‘ وہاں پر اپنی ڈیوٹی کو بلاتفریق ایک فرض سمجھ کر ادا کرے ۔ گزشتہ حکومتوں میں اعلیٰ سرکاری افسران کو کیوں تبدیل نہیں کیا جاتا تھا، اس کی متعدد وجوہات تھیں۔ جب کسی اعلیٰ عہدے پر تعیناتی کا معیار یہ ہو کہ فلاں نے چونکہ فلاں حکومتی شخصیت کی گاڑی کا دروازہ کھولا تھا‘ جب اس قسم کے خدمتگار افسران قطار اندر قطار میسر ہوں توپھر کسی اہل اور ایماندار افسر کو اس پوسٹ پر کیوں تعینات کیا جائے؟ کون نہیں جانتا کہ ایسے ایسے پولیس افسران کو بھی اعلیٰ عہدوں اور پروموشن سے نوازا گیا جن کی واحد قابلیت حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے مخالف سیا سی جماعت کی لیڈران کو بے جا مقدمات میں الجھانا، ان پر بدترین تشدد کرنا اور دورانِ قید ان کی زبان کاٹنا تھی۔ ایسے افسر جب اس کام کو اپنے لیے قابلِ فخر محسوس کرتے ہوں اور اسی کی بنیاد پر ان کی اعلیٰ عہدوں پر پروموشن ہوتی ہو تو پھر کون اپنی ایمانداری اور اہلیت کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں سے امید وابستہ کرے گا؟ جب اپنے لیے خطرہ سمجھی جانے والی کسی جماعت کے مرکز کے سامنے موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور مخالف لیڈر کو دھمکانے کے لیے جلیانوالہ باغ کی طرز پر آپریشن کرنے اور 14 بے گناہوں کو موت کی نیند سلا دینے والے افسران کو ترقی پر ترقی دی جاتی ہو تو ایسے افسران کو کون تبدیل کرنا چاہے گا؟ یہی وجہ تھی کہ ماضی میں افسران کو ان کی سیٹ سے ہٹانے سے گریز کیا جاتا تھا، کیونکہ سب کو پتا تھا کہ اگر اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کرانی ہے تو پھر ایسے ہی چاپ لوس قسم کے افسران کو اپنے اردگرد رکھنا ہو گا جو کسی ضمنی الیکشن میں سرکاری وردی پہن کر حکومتی جماعت کے امیدوار کے لیے لوگوں سے ووٹ بھی مانگ سکیں۔
گزشتہ دنوں ایک سابق پولیس افسرنے موجودہ حکومت اور گزشتہ حکومت کی گورننس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا: ''میں نے اپنی سروس کے دوران کبھی نہیں سنا کہ شہباز شریف نے کسی بھی ضلعی انتظامی افسرکی پوسٹنگ کرتے ہوئے اسے کہا ہو کہ آپ نے اپنے ضلع میں مسلم لیگ نواز کے مفاد کیلئے کام کرنا ہے‘‘۔1985ء سے2018ء تک کے انتظامی معاملات پر نظر رکھنے والے ایسے کتنے ہی نام گنوا سکتے ہیں جنہوں نے حکمرانوں کی مرضی اور ان خواہشات سے ذرا سا انحراف کرنے کی جرأت کی اور پھر انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ایسے افسران کو جو کچھ بھگتنا پڑا‘ وہ آج بھی اخبارات کی پرانی فائلوں میں محفوظ ہے۔ سرکاری افسران کو حکمرانوں کے سامنے زمین پر بیٹھا یا باادب ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑے ہوئے سب نے دیکھ رکھا ہے جو سرکاری وردی کی شان کے بھی خلاف ہے۔ جب لاہور کے ایک ادارے کے ایک اعلیٰ انتظامی افسر کو کلب روڈ دفتر پر سب کے سامنے گالیاں دی جائیں‘ جب اسے حکمرانوں کے مزاج کے برعکس رائے دینے کی پاداش میں دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا جائے اور کوئی اف تک نہ کرے تو اس مائنڈ سیٹ میں چون و چرا کی آواز کیسے سنائی دیتی۔ موجودہ دور میں جس قدر تضحیک ہر ضلع میں تحریک انصاف کے اراکین اور مرکزی عہدیداروں کی ہوئی ہے‘ اس سے قبل نہ کبھی دیکھی‘ نہ سنی، یہ اس کا ہی خمیازہ تھا جو کنٹونمنٹ انتخابات میں حکمران جماعت کو بھگتنا پڑا۔ تحریک انصا ف کی تین برسوں کی انتظامی کمزوریوں پر جس قدر بھی لکھا جائے‘ وہ کم ہے۔ یہ بھلے حالات و واقعات کی ستم ظریفی ہو مگر ان لاپروائیوں اور عوامی احساسات سے دوری کے سبب سگیاں پل سے بیگم کوٹ اور شرقپور کھڈیاں ہی نہیں‘ پورا پنجاب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور کسی کو فکر نہیں۔ اس میں محکمہ بلدیات اور ضلعی انتظامی افسران کی نااہلی یا ''شرارت‘‘ کا عمل دخل بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔