"MABC" (space) message & send to 7575

تیر انداز تو دیکھو

آج کل لندن کے ایک عدالتی فیصلے کا کافی غلغلہ ہے، ہر دو اطراف سے مخالفین پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں نیب کا موقف ہے کہ وہ کبھی بھی سلمان شہباز یا شہباز شریف کے یو کے میں موجود اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے معاملے کا حصہ نہیں رہا،اور نہ ہی نیب نے ان دونوں سے اس سلسلے میں کبھی کوئی سوالات کئے ہیں۔ لیکن دوسری جانب سے ایک سٹڈی وزٹ کو بنیاد بنا کر خوب ہنگامہ کیا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ یہ کچھ بھی ثابت نہیں کر سکے‘ ان کے سب الزامات جھوٹ کا پلندہ نکلے، نیب کے لوگ لندن میں ہمارے خلاف نیشنل کرائمز ایجنسی سے ساز باز کرتے رہے لیکن عدالتوں نے ان سب کو دھتکار دیا‘ وغیرہ وغیرہ۔
سچ کیا ہے اور 'تیر انداز‘ کیا کہہ رہے ہیں‘ یہ جاننے کیلئے پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن کی جانب چلتے ہیں جس نےIFF کے سلسلے میں اسلام آباد میں ایک سیمینار کیا اور ا س کے بعد حکومت پاکستان سے درخواست کی گئی کہ لندن میں 9 دسمبر سے13 دسمبر 2019ء تک‘ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور اس کیلئے کی جانے والی مختلف کاوشوں کے سلسلے میں ایک سیمینار منعقد ہو رہا ہے، اس میں شرکت کیلئے پاکستان کے فنانشل لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کے ایسے سینئر لوگوں‘ جو منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی روک تھام میں مصروف ہیں‘کا ایک وفد بھیجا جائے۔ اس پر حکومت نے ایف بی آر سے عاصم احمد ڈائریکٹر جنرل I&I IRS، خورشید احمد مروت چیف ایف بی آر، فیض احمد ڈائریکٹر جنرل کسٹم ٹریننگ اینڈ ریسرچ، مدثر حسن ایڈیشنل ڈائریکٹرنیب راولپنڈی، عمر رندھاوا ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب اسلام آباد، شہزاد سلیم ڈی جی نیب لاہور، سید فرید علی ڈائریکٹر ٹریننگ ایف آئی اے، سٹیٹ بینک آف پاکستان کے شعبہFMU سے منصور صدیقی، ڈپٹی ڈائریکٹر ثمینہ چگانی اور جوائنٹ سیکرٹری وزارتِ مالیات افتخار حسن شاہ پر مشتمل‘ منی لانڈرنگ کی روک تھام سے متعلق ہائی پاورڈ وفد سیمینار میں شرکت کیلئے لندن بھیجا۔ سب کے سامنے پاکستان کے مختلف محکموں سے بھیجے گئے یہ نام اور شخصیات ہیں‘ ان میں سے کسی کا برطانیہ میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات یا کسی انکوائری میں حکومت ِبرطانیہ کی کسی بھی ایجنسی کی معاونت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان سے دنیا بھر کے مختلف انتظامی و عسکری مشنز اور ان کے اداروں میں تربیت یا مذاکرے میں حصہ لینے کیلئے سرکاری اہلکاروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے‘ اس بنیاد پر اگر کل کو کوئی کسی فوجی وفد پر یہ کہتا ہوا انگلی اٹھائے کہ فلاں عسکری شخصیات لندن‘ امریکا یاجرمنی میں اس لئے گئی تھیں تاکہ وہ فلاں شخصیت یا تنظیم یا گروہ کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ بن سکیں‘ تو کیایہ مناسب ہو گا ؟
کیا یہ امر حیران کن نہیں کہ نیشنل کرائم ایجنسی کا فیصلہ 10 ستمبر کو آتا ہے اور 15 دن تک پاکستان میں اس کے متعلق کوئی خبر ہی نہیں دی جاتی، وہ‘ جنہوں نے شور مچا رکھا ہے کہ ہم با عزت بری کر دیے گئے ہیں اور ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آپ سے زیا دہ صادق اور امین کوئی نہیں، آپ کے خلاف کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں تھا، جائیں! لڈیاں ڈالیں اور موج اڑائیں‘ خود بھی اس معاملے میں 26 ستمبر تک خاموش تھے، جیسے انہیں خود بھی اس فیصلے کا علم نہ ہو۔ اس وقت ہر طرف گہری خاموشی تھی‘ جیسے کہیں کچھ ہوا ہی نہیں۔ نہ تو ''باخبروں‘‘ کو اطلاع ملی اور نہ ہی آدھ درجن سے زائد ان اینکرز حضرات کے ماتھے پر بل پڑے‘ جو اس وقت نیب کے لتے لینے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ نہ کسی نے پریس کانفرنس اور ٹویٹر اکائونٹس سنبھال کر لفظوں کی گولہ باری شروع کی اور نہ ہی مریم اورنگزیب صاحبہ اور دیگر ترجمانوں نے اپنے مخصوص لہجے میں پریس کانفرنسوں کی بھرمار کی۔ ایسے لگتا تھا کہ کہیں کچھ لوگ سر جوڑے بیٹھے گوئبلز کی پرانی فائلوں کو کھنگال رہے ہیں کہ کس طرح سے حملہ کیا جائے کیونکہ پہلے ہی انگریزی فیصلے پر فوری طور پر مٹھائیاں بانٹنے اور اردو ترجمہ آنے پر فیصلہ غلط دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں، اسی لئے دس ستمبر سے چھبیس ستمبر تک گوئبلز کی ایک ایک فائل کو کھنگالا جاتا رہا اور پھر جب انہیں یقین ہو گیا کہ تنور تپ گیا ہے تو ایسا حملہ کرایا گیا کہ لندن سے ایک رپورٹر کے ذریعے یہ خبر دی گئی کہ شہباز شریف‘ جن کا اس پورے فیصلے میں ذکر تک نہیں‘ کو لندن کی عدالت نے کلین چٹ دیدی۔ اس پر ملک میں موجود اینکروں کی فوج خود کو کوسنا شروع ہوگئی کہ ان سے گزشتہ کئی سالوں سے پاناما اور نجانے کن کن 'نام نہاد‘ الزامات کے نام پر جھوٹ بلوایا جاتا رہا‘ جس پر وہ شرمندہ ہیں کیونکہ شہباز شریف اور ان کی فیملی پر تو کوئی الزام ثابت ہی نہیں ہو سکا‘ لندن کی 'غیر جانبدار‘ عدالتوں نے انہیں با عزت بری کر دیا ہے۔ اعتراض کیا جا رہا ہے ''حکومتِ برطانیہ کی دعوت پر لندن جانے والے وفد میں نیب سے ایسے افراد کا شامل کیا جانا ضروری تھا جو منی لانڈنگ اور کرپشن کے پیسے کا کھوج لگانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں؟‘‘۔ کیسے کیسے تیر انداز سامنے آ رہے ہیں، ایک کہتا ہے کہ فلاں تاریخ کو نیب کا فلاں افسر لندن میں فلاں شخصیات سے ملا تاکہ شہباز شریف اور نواز شریف کے خلاف ثبوت دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے۔
اب تک اس موضوع پر جتنے پروگرامز کیے جا چکے ہیں‘ وہ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے کانوں تک پہنچ چکے ہوں گے اور نجانے کتنے ہی افراد ان تیر اندازوں کی کمانوں سے برسائے گئے تیروں سے گھائل ہو چکے ہوں گے۔ چالاکی دیکھیے کہ جس لندن وزٹ کو لے کر دھول اڑائی جا رہی ہے‘ وہ سارا شیڈول اور پروگرام اس وقت میرے سامنے ہے۔ اسی طرح ان تیر اندازوں کے پاس بھی تھا‘ یہ کوئی قومی راز تو تھا نہیں کہ کسی سے چھپانے کی کوشش کی جاتی، اس پروگرام میں اس وفد کی ایک ایک منٹ کی مصروفیات پہلے طے شدہ تھیں۔
7 دسمبر 2019ء کو اس وفد نے‘ جو لندن روانہ ہو رہا تھا‘ اسلام آباد ایئر پورٹ سے قطر ایئر ویز کی فلائٹQR001سے اڑان بھری، لندن پہنچ کر یہ پارک پلازہ ہوٹل البرٹ گئے۔ 8 دسمبر کی شام کو ان کیSCIS کے ایکسپرٹس سے میٹنگ ہوئی، 9 دسمبر کو پارک پلازہ ہوٹل کے کمیٹی روم میں Mcleary/Graeme Miller سے ورکنگ میٹنگ ہوئی۔ 10دسمبر کو صبح سے شام تک یو کے پولیس سٹرکچر، ECA/ECP، رشوت ستانی اور کمیشن، پولیس انٹلیکچول پراپرٹی کرائمز، اینٹی کرپشن اورFIU Input کے سلسلے میں ہوٹل فوئر میں مختلف اجلاس ہوتے رہے۔ لندن قیام کے دوران پاکستانی وفد کی‘ جو سائبر کرائمز اور منی لانڈرنگ کے سلسلے میں باہمی تعاون اور ایک دوسرے کا طریقہ کار سمجھنے کیلئے مدعو کیا گیا تھا‘ جان فاسٹر، کیون پیریمنٹ، رابرٹ میکر، شان میکلری اور گراہم ملر سے ملاقاتیں رہیں، ان کے فون نمبر اور ای میل ایڈریس بھی اس وقت میرے سامنے موجود ہیں۔ 12 دسمبر کو اس وفد کی‘ جس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ نیب کے لوگ شامل تھے‘کائونٹر فراڈ بورڈ سے میٹنگ ہوئی جبکہ سائبر انٹیلی جنس اور بینکنگ انڈسٹری کے منی لانڈنگ اور ٹیررازم سے تعلقات اور اس کے استعمال کے نت نئے طریقوں اور ان کو روکنے کے اقدامات پر ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ بھی کیا گیا۔
اس وفد‘ جس سے متعلق اندرونِ ملک آسمان سر پر اٹھایا جا رہا ہے کہ اسے شریف فیملی کے خلاف ثبوت مہیا کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا‘ کے دورے کی ایک ایک تفصیل سب کے سامنے ہے۔ اب اگر اس وفد کے ساتھ لندن کے ایسے ادارے بھی ملاقات کرتے ہیں جو برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف سر گرم ہیں‘ تو اس میں معاونت کا عنصر کہاں سے شامل ہو گیا؟ اب اس معاملے کو جس قدر چاہے اچھالا جائے‘ کیا فرق پڑتا ہے، جس کا دل چاہے میاں برداران کی ''بریت‘‘ پر ان کے خلاف کئے گئے پروگرامز پر معافی مانگ لے‘ جس کا دل چاہے حقائق جاننے کی کوشش کرے‘ کیا کہا جا سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں