"MABC" (space) message & send to 7575

مذاکرات اور امن کے امکانات

ترک ٹی وی سے وزیر اعظم عمران خان کے انٹر ویو میں ٹی ٹی پی اور اس کے کچھ گروپوں سے ہونے والے امن مذاکرات کی کچھ تفصیلات سامنے آتے ہی حسبِ توقع حزب اختلاف اور کچھ دوسری سیا سی جماعتوں کے لیڈروں کی طرف سے مذمتی اور غصے سے بھرے ہوئے بیانات کا تانتا بندھ گیا۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں‘ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ہم قیام امن کی خاطر بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں نتیجے کا تو علم نہیں تاہم افغان سر زمین پر مذاکرات ہو رہے ہیں‘ طالبان ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے‘ بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ترک میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مقام پر قیام ِ امن کارواستہ بات چیت سے نکلتا ہے۔ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ ماضی میں دیکھیں تو پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں مسلح بغاوت کو کچلنے کیلئے فوجی ایکشن کیا تھا اور پھر وہاں عام معافی کا اعلان بھی کیا ۔ جنرل ایوب خان کے دور میں بلوچستان میں مسلح مزاحمت ہوئی جس پر قابو پانے کیلئے فوج کو بھیجنا پڑا ‘دونوں جانب سے نقصان ہوا لیکن جلد ہی اس مزاحمت پر قابو پالیا گیا بعد میں مزاحمت کاروں کے کچھ بڑے لیڈروں کو سزائیں بھی دی گئیں اور باقی کیلئے عام معافی کا علان کیا گیا۔سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے دورِ حکومت میں متعدد مرتبہ دہشت گردی میں ملوث بلوچ تنظیموں کیلئے عام معافی کا اعلان کیا۔ آج بھی پوری پیپلز پارٹی مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے اور ا ن کی اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے بہت سے باغیوں نے ہتھیار پھینک کر فراری کیمپوں سے واپسی کا علان بھی کیا ہے۔
ملک و قوم کو اپنے خلاف کی جانے والی دہشت گردی سے پہنچنے والے جانی نقصانات کا دکھ کبھی نہیں بھولے گا لیکن دو ملکوں کے درمیان ہونے والی عالمی جنگوں کے نتیجے میں کئی کئی لاکھ انسان دونوں اطراف سے ہلاک ہوئے لیکن نتیجہ یہی نکلتا رہا کہ ان ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو سامنے رکھ لیں‘جرمنی نے شکست اور جاپان نے ہزیمت اور بے پناہ بربادی کا سامنا کرنے کے بعد امن مذاکرات کی میز پر سب کچھ برداشت کرنے کا کڑوا گھونٹ بھرا۔پاکستان کوٹی ٹی پی اور اس سے نکلنے والی کئی تنظیموں نے جس قدر نقصان پہنچایا اس کا پس منظر دیکھنے کیلئے اگر اجیت ڈوول کا بھارت کی ایک یونیورسٹی کے سیمینار سے کیا گیا خطاب سامنے رکھیں جس میں وہ بتاتا ہے کہ ہمیں پاکستان سے جنگ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے‘ جنگ پر خرچ ہونے والے بجٹ کا چوتھا حصہ اپنے پروردہ ایجنٹوں میں تقسیم کر کے جنگ سے زیا دہ نقصان پہنچا یا جاسکتا ہے۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ بھارت یہی کچھ پاکستان میں کررہا ہے‘ بس ڈالر پھینکنے کی دیر ہوتی ہے سب کچھ بھارت کی مرضی کے مطا بق ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو اس سے بھی زیا دہ ہو جاتا جس کی انہیں امید بھی نہیں ہوتی۔ امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن کے سات سے آٹھ اکتوبر کے دور وزہ دورۂ پاکستان شروع ہونے سے پہلے پاکستان سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ تمام شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔اب امریکہ کیوں بھول جاتا ہے کہ دو چار نہیں بلکہ کئی برس تک طالبان سے خونریز جنگ کرنے کے بعد امریکہ ہی نہیں اقوام متحدہ نے بھی طالبان کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں کیلئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں سفر کرنے کی اجا زت دی اور پھر پانچ برس تک ان سے کبھی قطر توکبھی پاکستان میں مذاکرات ہونے کے بعد ان سے معاہدہ کیا گیا جس کے نتیجے میں طالبان آج افغانستان میں اپنی حکومت قائم کئے ہوئے ہیں ۔یہ امن معاہدہ ان طالبان سے کیا گیا جنہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے چھ ہزار سے زائد افسروں اور جوانوں کو ہلاک کیا۔ پھر انہی کی حکومت میں امریکہ اور نیٹو نے اپنے اڈے خالی کئے اور اپنے ایک ایک فوجی کو افغانستان سے واپس بلا یا۔ طالبان کیلئے دی گئی یہ عام معافی پاکستان کیلئے قابلِ قبول کیوں نہیں ہو سکتی؟امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے اپنے دورہ سوئٹزر لینڈ میں ترکی کو بھی دھمکی دیتے ہوئے روس سے مزید اسلحہ خریدنے سے منع کیا اور وارننگ دے دی ہے کہ اگر امریکی حکم پر عمل نہ کیا گیا تو دو طرفہ تعلقات خراب ہو جائیں گے ۔امریکہ کو یہ اس لئے ناگوار گزر رہا ہے کہ ترک صدر نے اسی ہفتے سُوچی میں روسی صدر سے ملاقات میں جنگی طیاروں اور کچھ آبدوزوں کی خریداری میں دلچسپی کیوں ظاہر کی۔
قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان میں چھ مرتبہ مسلح بغاوتیں ہو چکی ہیں لیکن قیام امن کیلئے ناراض بلوچوں سے مذاکرات اور تشدد ترک کرنے کی ضمانت پر عام معافی کا اعلان ہوتا رہا ہے‘ اُدھرسوات میں صوفی محمد نے اپنا قانون اور اپنی حکومت قائم کر کے مسلح شورش کی اور سب کچھ تہہ وبالا ہو کر رہ گیا جس پر فوج کو ریاست کی رٹ بحال کرنے کیلئے حرکت میں آنا پڑا لیکن آخر میں صوفی محمد کوبھی عام معافی دینا پڑی۔ 1973ء میں عوامی نیشنل پارٹی کے اجمل خٹک اور خان عبد الولی خان نے بھی کابل میں بیٹھ کر مسلح تحریک کی سرپرستی کی اور ملک میں بم دھماکے کرائے جس میں واپڈا ہائوس لاہور کا مشہور خوفناک بم دھماکہ بھی شامل تھا۔ان کارروائیوں کی تمام تفصیلات ولی خان اور اجمل خٹک کے سیکرٹری جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ''فریب نا تمام‘‘ میں تفصیل سے لکھی ہیں ۔ حملے کئے گئے جن میں افغان حکومت کی مکمل پشت پناہی تھی ‘ جس نے ہر موقع پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں ‘لیکن ہوا یہ کہ جنرل ضیا الحق نے ان سب کو عام معافی دینے کا اعلان کرکے پھر سے قومی دھارے میں آنے پر رضامند کر لیا۔
دیکھا جائے تو پائیدارقیام امن بھی ایک طرح کی فتح ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے ایک مشن پر ہیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ملک میں امن اور سلامتی شروع ہو جائے لوگ اپنے روزگار اور دوسری مصروفیات کیلئے بلا روک ٹوک آنے جانے لگیں اور ان کی راہ میں کوئی گروہ یا تنظیم حائل ہو کر انہیں مسلسل نقصان نہ پہنچائے۔ کسی بھی مرحلے پر اگر کوئی ایسا سلسلہ شروع ہو جائے جس سے باغی گروہ یا دہشت گردوں کا گروپ ہتھیار ڈال کر پھر سے قومی دھارے میں شامل ہو جائے اور آپ فوج کو دفاعی مصروفیت سے ہٹا کر کسی امن کی جگہ پر لے جا سکیں تو اس میں کیا برائی ہے؟
کھیت ہمارے جلتے ہیں کسی دوسرے ملک کے نہیں ‘جوان ہمارے شہید ہیں کسی اور کے نہیں‘ گود یں اور سہاگ ہمارے اجڑتے ہے کسی اور کے نہیں‘ قومی وسائل ہمارے ضائع ہوتے ہیں کسی دوسرے کے نہیں‘ معیشت ہماری تباہ ہوتی ہے برطانیہ ‘ یورپی یونین یا نیٹو کی نہیں‘قوت ہماری بکھرتی ہے کسی دوسرے کی نہیں‘ وسائل ہمارے تباہ ہوتے ہیں امریکہ کے نہیں۔امریکہ اور برطانیہ اُس وقت کہاں تھے جب وزیرستان اور خیبر پختونخوا میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ جاری تھا؟اُس وقت امریکہ کابل پر قابض تھا‘ اس کی فوج اور خفیہ ایجنسیاں افغانستان کی ایک ایک گھاٹی کو مانیٹر کر رہی تھیں‘ پھر کیسے اس کی بغل سے نکل کر بلوچستان میں آگ اور خون کی بارش ہو تی رہی؟ قندھار اور جلال آباد سے کس طرح بلوچستان اور وزیرستان میں دنیا کے خطرناک ترین اسلحوں کی کھیپ کی کھیپ پاکستان میں تخریب کاروں کیلئے پہنچتی رہی؟ RAW/NDS کا اتحاد امریکوں کی نظرو ں سے اس قدر اوجھل کیوں رہا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں