"MABC" (space) message & send to 7575

ذ مہ دار کون؟

حربی تاریخ میں نمایاں مقام کے حامل جنرل منٹگمری کی دوسری عالمی جنگ میں شاندار خدمات کااعتراف کرتے ہوئے حکومت برطانیہ نے انہیں متعدد اعلیٰ سول اور ملٹری اعزازات سے نوازا۔ جنگی تاریخ کی کتابوں میں ان کا نمایاں تذکرہ کیا گیا اور دوسری عالمی جنگ سے متعلق ان پر فلمیں بنائی گئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس جری اورذہین جرنیل کے گھر کی دیوارجرمن طیاروں کی بمباری سے مسمار ہو گئی تھی‘ بعد ازاں اس دیوار کی تعمیر کیلئے جنرل منٹگمری نے حکومت برطانیہ کو قرض کی درخواست کی اور اپنی درخواست میں اس نے سلطنت برطانیہ کیلئے اپنی شاندار خدمات کا حوالہ بھی دیا لیکن آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ جنرل منٹگمری جیسے قومی ہیرو کا درجہ رکھنے والے جرنیل اور ہٹلر اور جنرل رومیل کو ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ میں شکست فاش دینے والے فاتح کو واشگاف الفاظ میں یہ جواب دیا گیا کہ جو خدمات آپ نے تاجِ برطانیہ کیلئے انجام دی تھیں‘ ان کا معاوضہ آپ تنخواہ کی صورت میں لے چکے ہیں، رہا دیوار کی تعمیر کیلئے آپ کی قرض کیلئے دی گئی درخواست‘ تو آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ پانچ برس تک جاری رہنے والی اس خوفناک جنگ کی وجہ سے صرف آپ کے گھر کی دیوار ہی نہیں بلکہ برطانیہ کے ہزاروں گھر اور دیواریںمسمار ہو چکی ہیں، اس لئے ابھی آپ کی یہ درخواست زیرِ غور رکھی جا رہی ہے اور جب اس جنگ سے متاثرہ لاکھوں برطانوی شہریوں کے گھروں اور عوام کی بحالی کیلئے حکومت برطانیہ کوئی فیصلہ کرے گی یا جب بھی کوئی ایسا مرحلہ آیا جس میں ان گھروں کی تعمیر و مرمت کا کوئی فیصلہ ہو گا تو آپ کی درخواست بھی ان کے ساتھ ہی نمٹائی جائے گی، فی الحال ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ کی اس درخواست پر کوئی کارروائی کی جا سکے گی۔
میرے جیسے محدود تنخواہ دار ہر ماہ کے پہلے ہفتے ہی سر پکڑکر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک ایک ضرورت کیلئے ترستے ہوئے پیسے خرچ کرتے ہیں، ایسے میں کبھی علاج کیلئے میڈیکل سٹورز اور ڈاکٹرکی فیس کا بوجھ بھی آن پڑے تو ڈاکٹر کے نسخے دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ ہوا کیوں؟ یہ کس نے کیا اور یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا اور کب تک چلتا رہے گا؟ کیا اس کے ذمہ دار ہمیشہ اسی طرح بچتے رہیں گے؟ کیا کبھی رمضو، فیقے اورپھجے کے ساتھ ساتھ مخدوم‘ ملک‘ خان اور چودھری صاحب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہو سکے گا؟ آخر ہمارے ملک کے خزانے خالی کیسے ہو جاتے ہیں؟ کون ہے جو کبھی چھپ کر تو کبھی ڈنکے کی چوٹ پر ہمیں لوٹ لیتا ہے لیکن کسی کو نظر نہیںآتا؟ زرمبادلہ کے ذخائر کب ہمارے اپنے ہوں گے؟ کب ہماری جھولیاں ہمارا ستر بنیں گی؟ کہتے ہیں کہ غریب کی دولت قرضوں کی معافی کی صورت میں لوٹ لی جاتی ہے‘ یہ قرضے کن کے معاف ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ اگر کسی چھوٹے زمیندار کا مالیہ ایک دو ماہ لیٹ ہو جائے تو تحصیلدار اسے گرفتار کر کے حوالات میں بند کرا دیتے ہیں۔ لگ بھگ پچیس برس پرانی بات ہے‘ چھوٹے سے روزگار کیلئے لیا گیا پچاس ہزار کا قرضہ سود سمیت ادا کرتے کرتے ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر گیا اور جب سیلاب سے وہ کاروبار بھی تباہ ہو گیا تو ہر ماہ سرکاری ہرکارے اس شخص کو گرفتار کرنے آ جاتے تھے اور پھر سود در سود مزید ایک لاکھ روپیہ کیسے ادا کیا گیا‘ یہ سب منظر آج بھی میرے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہے۔ پچاس ہزار قرض لینے والے مجرم ٹھہرتے رہے جبکہ اس کے بر عکس کروڑوں کا قرضہ ہضم کرنے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اور ان سے بھی اعلیٰ آئینی اور حکومتی عہدوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد کے چند برس چھوڑ کر‘ پاکستان پر حکمرانی کرنے والے اسے اُن نظریات کے مطا بق ڈھال ہی نہ سکے یا انہوں نے کوشش ہی نہیں کی جن کے تحت یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ ہرآنے والا حکمران عوام کی ترقی، خوش حالی،بے روزگاری،انصاف اورغربت کے خاتمے کے نعرے لگا کر اقتدار پر قابض ہوتا رہا لیکن کسی ایک نے بھی‘ تھوڑی سی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی اس ملک کی سمت درست کرنے کی اور سب آپس کی بندر بانٹ میںجت گئے، نہ کسی کو ملک کا خیال رہا اور نہ ہی اس کے عوام کا۔ اگر انہیں خیال رہا تو سب سے زیا دہ اپنی کرسی کا، اسی لیے اقتدار سے کسی بھی طور پر وابستہ لوگوں کی مکمل دیکھ بھال کی گئی، پرمٹ، لائسنس، زمینوں‘ مکانوں کی الاٹمنٹ اور منافع بخش تعیناتیوں کے بعد ان افراد نے قومی بینکوں کے ساتھ زر خرید غلاموں والا سلوک روا رکھا اور خاندان کے ہر فرد کے نام پر اربوں روپے کے قرضے لینا شروع کردیے، پھراقتدار کے جادو کی چھری ایسی گھومی کہ ان کے لئے گئے ارب ہا روپوں کے قرضے معاف کئے جانے لگے۔ یہ کس قانون کے تحت معاف ہوئے‘ ابھی تک ہمیں تو پتا نہیں چل سکا۔ یہ استحصالی طبقہ جب بھی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا‘ اپنے اور اپنے دوستوں‘ عزیزوں کیلئے مزید قرضوں کے حصول میں جت گیا۔ اگر کبھی ان میں سے کسی کی جماعت اقتدار سے باہر ہو ئی‘ تو بھی ان پر کوئی آنچ نہ آئی بلکہ ان کا اس طرح خیال رکھا گیا کہ کسی مجبوری یا عوامی دبائو کے تحت یا محض دکھاوے کے طور پر ہی کبھی قرض کی واپسی پر زور دیا بھی گیاتو اس طرح کہ ایک طویل بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حکومتی خزانے میں ایک پائی بھی جمع نہیں ہوئی۔ اگر کبھی مخالف حکومت نے نکیل ڈالنے کی دھمکی دی تو پھر کچھ ایسا بند و بست کیا گیا کہ سٹے آرڈر کے پیچھے جا چھپے۔ اگر تاریخ اور سرکاری ریکارڈ سامنے رکھیں تو بغیر کسی شک و شبہے کے تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرضوں کی معافی یا انہیں ہضم کرنے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ایک آمرانہ حکومت کی سپورٹ کے لیے سرمایہ دار خاندانوں کو سیاست کے میدان میں داخل کیا گیا۔ نیشنلائز کی گئی صنعتیں جب ایک نو وارد سیاسی خاندان کو لوٹائی گئیں تو نہ صرف ان کے ذمے واجب الادا قرضہ معاف کر دیا گیا بلکہ انہیں قومی خزانے سے مزید اتنی ہی رقم عنایت بھی کی گئی۔ کسی بھی بینک کی بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھ لیجئے‘ قرضے معاف کرانے والوں کے نام نامی آپ کو چونکا کر رکھ دیں گے۔ ایک سوال جو شاید ہی کسی نے پوچھا ہو‘ کہ کھربوں روپے مالیت کے قرضے معاف یا ہڑپ کرنے والوں نے اس سرمایے سے وہ کون سی تجارت کی یا کون سی صنعت شروع کی کہ عوام کے پیسوں کے ساتھ ساتھ قومی بینکوں کا بھی ستیا ناس کر دیا گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان بینکوں کے سربراہان کا تقررحکمران اپنی مرضی سے لگاتے رہے تاکہ وہ ان کی خواہشات اور احکامات کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔
کھربوں روپے کے قرضوں کی معافی کسی سیاستدان اور حکمران کی جیب سے نہیں بلکہ اس کے کھاتہ داروں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر ہوتی رہی کیونکہ تمام بینک پورے سال میں تمام اخراجات اور دیگر ڈیفیسٹ کو مد نظر رکھ کر ہی منافع کا اعلان کرتے ہیں۔ آپ اندازہ کیجئے کہ اگر ہر چار‘ پانچ برس بعد کھربوں روپے کے معاف کیے گئے متنازع قرضے ڈکارے نہ جاتے تو ان بینکوں کی شرحِ منافع کئی گنا بڑھ جاتی جس سے عام صارف کو کثیر منافع کی شکل میں ریلیف ملتا۔ یہ قرض صحیح جگہ خرچ ہوتے اور ان سے مزید افراد اور اداروں کو کم شرح سود پر قرض دیے جاتے تو اس سے ملک میں صحت منداور منافع بخش انڈسٹری فروغ پاتی۔ بیروزگاری میں اطمینان بخش حد تک کمی آتی لیکن بچتوں پر شرحِ منافع کی مسلسل کمی نے بینکوں کے کسٹمرز کو پژمردہ کیے رکھااور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ عوام کو اپنی بچتوں کو جمع کرانے یا نکلوانے سمیت کسی بھی پروسیس پر کئی قسم کی کٹوتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے جیسے لوگوں کے مقابلے میں قرض لینے اور اسے ہڑپ کرنے والوں کی چاندی ہی چاندی ہے۔
بیس برس ہوئے‘ معاف کئے گئے قرضوں کی ایک فہرست اخبارات کی زینت بنی توہمارے جیسے لوگ دل تھام کر رہ گئے کیونکہ یہ پچاس ہزار یا سود سمیت ایک لاکھ نہیں بلکہ ''پانچ ارب تریسٹھ کروڑ‘‘ کی رقم تھی۔ جس وقت یہ قرضے معاف کئے گئے تھے‘ اس وقت چند ہزار یا ایک‘ دو لاکھ روپے تک کے قرضے اور جرمانے ادا نہ کرنے والے کئی ہزار افراد ملک کی مختلف جیلوں میں بند تھے اور آج بھی ایسے سینکڑوں‘ ہزاروں افراد ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ میں‘ آپ یا پھر کوئی اور؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں