"MABC" (space) message & send to 7575

ہماری دولت اور غربت

یکم اکتوبر 2010ء کو سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے مالیاتی نظام سے متعلق اپنی تاریخ کی منفرد قرارداد کی منظوری دے کر دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے سرکاری افسروں، تاجروں، سیاستدانوں اور مافیاز کی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جمع ناجائز دولت ضابطے کی کارروائی کر کے اپنے ملک واپس لے جا سکتے ہیں۔ یہ قانون منظور ہوتے ہی دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنے اپنے ملک کی ناجائز طریقوں سے لوٹی جانے والی دولت واپس لانے میں کامیابی حاصل کی مگر پاکستان نجانے اب تک کیوں خاموش ہے۔ اگر وہ سیاست سے ماورا ہو کر آپریشن راہِ حق، ضربِ عضب اور ردالفساد کی طرح‘ صدق دل سے سوئس حکومت کے وضع کیے جانے والے RIIA قانون سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی سوئس کھاتوں میں جمع دولت کی تفصیلات طلب کر لے‘ تو بعض ماہرین کے اندازوں کے مطابق‘زیادہ سے زیادہ چند ماہ یا ایک سال میں ان تمام غیر قانونی کھاتوں کی تفصیلات مل جائیں گی۔ مذکورہ قانون کے تحت سوئس حکومت پابند ہو چکی ہے اور اب وہ کسی بھی سیاسی دبائو یا سفارتی تعلقات کی آڑ میں ان تفصیلات کو نہیں چھپا سکتی۔
فلپائن نے ڈکٹیٹر حکمران مارکوس کے 600 ملین ڈالر سوئس بینکوں سے واپس حاصل کیے تھے۔ politically exposed persons جنہیں PEPs کہا گیا ہے‘ کے کھربوں ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں اور اسی وجہ سے‘ ایک رپورٹ کے مطابق‘ سوئس حکام نے مصری کرپٹ اشرافیہ کے 570 ملین ڈالر‘ تیونس کے 60 ملین ڈالر اور یوکرائن کے 70 ملین ڈالر فریز کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ اور نائیجیریا نے کچھ عرصہ قبل لوٹی دولت کی واپسی کا ایک معاہدہ کیا تھا اور اس معاہدے کے بعد نائیجیریا نے ایک سابق گورنر‘ جس نے تیل کے ذخائر سے مالا مال ریاست سے تقریباً 11 کروڑ 70 لاکھ پاؤنڈ لوٹے تھے اور جسے برطانیہ میں منی لانڈرنگ پر سزا بھی ہوئی تھی‘ کے حوالے سے کیس دائر کیا اور آخر کار امسال مارچ میں برطانوی حکومت نے 58 لاکھ ڈالر (42 لاکھ پاؤنڈ) جلد لوٹانے کی یقین دہانی کرائی۔ پاکستان کے حوالے سے آن دی فلور کئی بار یہ کہا جا چکا ہے کہ پاکستانیوں کے لگ بھگ 200 بلین ڈالر‘ جس میں سے بیشتر ناجائز طریقوں سے کمائے گئے‘ سوئس کھاتوں میں جمع ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بیان کیے جاتے ہیں‘ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھلے یہ دولت 20 بلین ڈالر ہی ہو‘ ہم اسے واپس کیوں نہیں حاصل کرتے؟ آج دنیا بھر میں پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو خاکم بدہن‘ بہت جلد دیوالیہ ہونے والا ہے، مہنگائی اور غربت نے ملک اور یہاں کے سماجی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ 6 بلین ڈالر کے قرض کے لیے ہم پورا ملک آئی ایم ایف کی ہدایات کے عین مطابق چلانے پر مجبور ہیں، مگر پھر بھی نجانے کیوں اپنے لوٹے گئے پیسے واپس لانے کے لیے اقدامات نہیں کیے جاتے؟
Avoidance of double taxation treaty آرٹیکل 25ون کی روشنی میں پاکستان سوئٹزر لینڈ سے ایسے کھاتوں کی تفصیلات طلب کر سکتا ہے‘ اب تک یہ تفصیلات کیوں نہیں مانگی گئیں؟ اگر طلب کی گئی ہیں تو ان پر کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو سکی؟ کیا یہ بھی کسی ''پلیٹ لٹس‘‘ قسم کا این آر او تو نہیں؟ ستمبر 2018ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے تھے کہ صرف دبئی میں پاکستانیوں کے 150 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں جو زیادہ تر حوالہ ہنڈی کے ذریعے باہر بھیجے گئے۔ عدالت نے ایف بی آر سے ایسے ٹاپ سو لوگوں کی فہرست بھی طلب کی تھی اور یہ تفصیلات بھی کہ اب تک اس ضمن میں کیا کارروائی کی گئی ہے۔ بعد ازاں اس معاملے کا کیا بنا‘ کچھ علم نہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد سوئٹزر لینڈ میں چھپائے گئے غیر قانونی اثاثوں کی تفصیلات حاصل کرنے کیلئے اعلیٰ سطحی رابطہ شروع کر دیا تھا جس میں ابتدا میں تو مودی حکومت کو خاصی کامیابی ملی مگر بعد ازاں مودی حکومت بھی کرپٹ مافیا کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی جس کی وجہ مودی کے کھرب پتی دوستوں کی پریشانی تھی۔ شاید پاکستان میں بھی ہر بار اسی قسم کے تعلقات رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بھارت اور سوئس حکومت نے ''انسدادِ ٹیکس فراڈ‘‘ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط بھی کر رکھے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کی سابق وزیر خارجہMicheline Calmy-Rey نے یہ انکشاف کر کے سب کو حیران کر دیا تھا کہ بھارت سے ناجائز طریقوں سے لوٹ کر سوئس بینکوں میں جمع کرائے جانے والے سرمایے کی مالیت 1.4 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اسی ضمن میں بھارتی راجیہ سبھا کے رکن رام جیٹھ ملانی کا سپریم کورٹ میں دیا جانے والا وہ بیان بھی شامل کر لیں جس میں انہوں نے بھارت سے سوئٹزر لینڈ بھیجے جانے والے کرپشن کے سرمایے کی مالیت 1500 بلین ڈالر بتائی تھی۔ یہ تو ہوا بھارت کا معاملہ‘ اب اگر ہم اپنے ملک کی طرف دیکھیں تو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا تھا کہ وہ سوئس بینکوں میں موجود ملک سے لوٹا گیا پیسہ واپس لائیں گے مگر ایک رسمی سے اعلان کے بعد شاید میثاق جمہوریت کی خاطر کوئی ٹھوس اقدام کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اگر کسی کو اس حوالے سے کوئی تردد یا ضابطے کی کارروائی کے بارے میں معلومات درکار ہوں تو اس کے سامنے نائیجیریا کے ثانی اباچا، فلپائن کے مارکوس اور میکسیکو کے کارلوس کی مثالیں موجود ہیں جن کے سوئس بینکوں میں جمع غیر قانونی اثاثے ان کے ممالک نے واپس حاصل کیے تھے۔ غیر قانونی اثاثوں کی واپسی کیلئے سوئس حکومت اب اس قدر فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ اس نے وہ اثاثے بھی اس فہرست میں شامل کر دیے ہیں جو کسی بھی وجہ سے سوئس حکومت نے منجمد کر رکھے تھے اور جو سوئٹزر لینڈ کے مجوزہ ضابطوں کے تحت متعلقہ ممالک کو واپس نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ان میں وہ اثاثے بھی شامل کر دیے گئے ہیں جن سے متعلق کسی بھی ملک کے سربراہ نے استثنا مانگا ہو۔ مذکورہ قانون میں ایک شق انتہائی دلچسپی کی حامل ہے‘ وہ یہ کہ ان منجمد اثاثوں کی واپسی کیلئے سوئس حکومت کو یہ اطمینان دلانا ضروری ہو گا کہ متعلقہ شخص کے اثاثے‘ جو اس نے سوئس بینکوں میں جمع کرائے ہیں‘ اپنے ملک میں‘ کسی بھی حیثیت میں‘ کام کرتے ہوئے اس کے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں۔ کیا حکومت‘ نیب یا ایف بی آر کیلئے یہ کوئی مشکل یا ناممکن کام ہے؟ ہمارے جیسے نجانے کتنے ملک ہیں جو ان ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جنہیں عالمی اداروں نے 'کرپٹ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے‘ اس ضمن میں تو یہ کام مزید آسان ہو جاتا ہے۔ اب پاکستان کیلئے اس سے زیادہ آسانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے ملک کے تحقیقاتی اداروں کی مدد سے مشتبہ شخص کے ذرائع آمدن اور اثاثوں کی آسانی سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ 1997ء سے دنیا بھر کے ممالک سے سوئس بینکوں میں ناجائز ذرائع سے جمع کرائی جانے والی دولت کی اس قدر بھرمار ہو نے لگی تھی کہ سوئس عوام کی طرف سے بھی اس کرپٹ پریکٹس کے خلاف سخت ردعمل آنے لگا تھا بلکہ دنیا بھر سے سوئٹزر لینڈ کے مالیاتی اداروں پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب تو سوئس قانون نے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ہیں لیکن جب یہ قانون نہیں تھا‘ اس وقت بھی نائیجیریا‘ فلپائن اور پیرو کئی ماہ تک قانونی جنگ لڑنے کے بعد ملینز آف ڈالر اپنے اپنے ملک واپس لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
آج جب پی ٹی آئی حکومت سابقہ حکومتوں اور حکمران خاندانوں پر الزامات کی بارش کرتی ہے تو نجانے کیوں بھول جاتی ہے کہ اس نے ''ٹیکس ایڈمنسٹریشن اصلاحات پروگرام‘‘ کے نام سے امریکا سے 100 ملین ڈالر قرض صرف اس لیے لیا تھا کہ ٹیکس چوری روکنے کیلئے جدید طریقے اختیار کیے جائیں لیکن کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ نہ تو ٹیکس چوری روکی جا سکی، نہ ہی لوٹے ہوئے پیسے ریکور کیے جا سکے بلکہ الٹا 100 ملین ڈالر کا قرض اور اس کا سود پہلے سے پسے ہوئے عوام پر لاد دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں