"MABC" (space) message & send to 7575

1971ء کی کچھ اَن کہی کہانیاں

انڈین آرمی کے میجر جنرل (ر)پیلت (D. K. Palit) اپنی کتاب (The Lightning Campaign)میں لکھتے ہیں ''بھارت کی سقوطِ ڈھاکہ میں کامیابی میں ہمارے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا سب سے زیا دہ دخل تھا جس میں ہم نے پاکستانی فوج کے بڑے افسروں سے لے کر معمولی سپاہیوں تک پر شرمناک الزامات کی بارش کرتے ہوئے‘ انہیں سب کی نظروں میں قدرو منزلت سے محروم کر دیا تھا۔ اس کا اثر ان کے مورال پر بھی پڑا۔ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے، پاکستانی فوج کے تمام یونٹس اور بریگیڈز انتہائی کم تعداد اور نیوی اور فضائیہ کا تحفظ نہ ہونے کے باوجود غضب اور قہر سے لڑتے رہے‘‘۔ 1972ء میں بنگلہ دیشی وزارتِ داخلہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2 ہزار افراد کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتلِ عام کی کہانیاں سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں تھیں۔ شیخ مجیب، بھارتی میڈیا اور بنگلہ دیش کی تخلیق میں مدد گار بننے والے انٹرنیشنل میڈیا اور تنظیموں کی ملی بھگت سے پھیلائی جانے وا لی ان رپورٹس کو‘جن کے مطا بق تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام ہوا‘ اگر ایک لمحے کیلئے سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ مارچ میں شروع ہونے والے آپریشن کے 262 دنوں میں اوسطاً 11450 افراد فی دن قتل ہوئے۔کیا عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے؟ وزارتِ داخلہ بنگلہ دیش کی اس رپورٹ میں یہ بھی لکھاہو ا ہے کہ مکتی باہنی کے ہاتھوں بھی لاتعداد افراد ہلاک ہوئے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفہ اور جرنلسٹ شرمیلا بوس لکھتی ہیں کہ ان کی بنگلہ دیش کی آزادی پر کی گئی طویل ریسرچ سے بھارت اور شیخ مجیب سمیت عوامی لیگ کے اس جھوٹ اور پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں رہتی کہ فوج نے بنگالی بچوں اور خواتین پر تشدد کی انتہا کر دی تھی۔ اس قسم کے اکا دکا واقعات بلاشبہ ہوئے لیکن اجتماعی طور پر آبرو ریزی اور منظم تشدد کے پیچھے سوائے انڈین پروپیگنڈا اور عوامی لیگ کے بین الاقوامی ہمدرد میڈیا کے ڈرامے کے‘ کچھ نہ تھا۔بنگالی خواتین سے فوجیوں کی زیا دتیوں پر بنائی گئی فلمیں ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ فلمی شوٹنگ کے سوا اس میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اگر ایسے واقعات پیش آئے تھے تو کیا یہ سب سرِ بازار پیش آئے تھے؟ کیا گلیوں، سڑکوں، چوراہوں پر ریپ ہو رہے تھے؟ کیا وہ لوگ اس قدر بے خبر تھے کہ یہ بھی نہیں دیکھتے تھے کہ ان کی فلمیں بنائی جا رہی ہیں؟ اس وقت تو موبائل کیمرہ بھی نہیں ہوتا تھا، بڑے بڑے کیمروں سے شوٹنگ اس طرح ہوتی تھی کہ سب کو پتا لگ جاتا تھا، پھر کیا یہ سب کچھ سیٹلائٹ سے فلمایا گیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔
بھارتی فیلڈ مارشل جنرل مانک شا27 جون2008ء کو94 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اپنی موت سے قبل انہوں نے درجنوں ٹی وی انٹر ویوز دیے اور ان کے انٹرویوز کی آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگز پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں محفوظ ہیں۔آج گو کہ وہ اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے الفاظ یو ٹیوب پر جب چاہیں‘ سنے جا سکتے ہیں کہ ''1971ء میں بھارت اور اس کی فوجی تنظیموں نے پروپیگنڈا کا بھر پور استعمال کیا اور پاکستانی فوج کے بنگالیوں پر مظالم کے افسانوں کو مکتی باہنی،میڈیا اور پاکستان میں موجود اپنے ہمدردوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے پھیلا کر پاکستان کی فوج کو دنیا بھر میں بد نام کیا۔ پاکستانی فوج اپنے ہیڈکوارٹر سے ہزاروں کلو میٹر دور تھی‘ اس تک اشیائے خوردنی اور اسلحہ نہیں پہنچ رہا تھا اور نہ ہی منا سب طبی امداد مل رہی تھی۔ پھر بنگالی نوجوانوں پر مشتمل مکتی باہنی ان پر ہر جگہ حملے کر رہی تھی جبکہ ہماری (بھارتی فوج کی) کوششوں سے ان کے سیا ستدان اور میڈیا ان کی کردار کشی میں مصروف تھے جس کیلئے ہم ایک سال سے تیاری کر رہے تھے لیکن کمال یہ ہے کہ اس بے سرو سامانی کے باوجود وہ مشرقی پاکستان کے ہر محاذ پر ایک سال تک گوریلا جنگ اور فوج،پولیس سمیت خفیہ ایجنسیوں میں شامل بنگالیوں کی بغاوت کا مقابلہ کرتے رہے۔ ایک فوجی کی حیثیت سے اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ وہ بزدل تھے تویہ قطعی غلط اور بہتان ہو گا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران اور بعد میں شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کو کئی سال تک دنیا بھر سے کروڑوں ڈالر بنگالی عورتوں کی بحالی اور کفالت کے نام پر وصول ہوتے رہے اور یہ سب دولت بنگلہ دیش کے لیڈران ہڑپ کر گئے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مانک شاکے پاکستان کے اندر ہمدرد اور دوست کون تھے؟ اب شاید یہ حقیقت سبھی جان گئے ہیں کہ یہ وہی لوگ تھے جنہیں ڈھاکہ مدعو کر کے ایوارڈز دیے گئے تھے۔
قیام بنگلہ دیش کے بعد وہاں کے عوام پر کیا گزری‘ اس حوالے سے امریکا کے پولیٹیکل سائنٹسٹ R. J. Rummel اپنی کتاب ''Death by Government‘‘ میں لکھتے ہیں :پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں پر حملے کیے گئے انہیں تشدد اور نسل کشی کا نشانہ بنایاگیا، ہزاروں غیر بنگالی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا ان کی خواتین کی وسیع پیمانے پر آبرو ریزی کی گئی اور شرمناک طریقوں سے ان کی چھاتیوں کو چاقوئوں سے کاٹا گیا تھا۔ چٹاگانگ، کھلنا اور جیسور میں بیس ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطا بق‘ بھارتی فوج کی سرپرستی میں کام کرنے والی مکتی باہنی کے غنڈوں نے ڈھائی لاکھ سے زائد غیر بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ سوویت یونین کی بد نام زمانہ خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابقہ ایجنٹ یوری بیزمینوف کا اعتراف اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مجیب الرحمن سمیت کئی بنگالی رہنمائوں اور ہزاروں نوجوانوں کی تربیت کے جی بی کے زیر اہتمام سوویت یونین میں ہوئی اور پھر انہیں بھارت کے ذریعے مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا جہاں ان افراد کی مدد سے بغاوت برپا کی گئی۔ بنگلہ دیش بننے کے فوری بعد بہت سے افراد کو اس لیے مروا دیا گیا کہ وہ سب رازوں سے واقف تھے۔ بھارتی ایجنسی را کے بانی و اعلیٰ عہدیدار بی رامن نے لگی لپٹے رکھے بغیر اپنی کتاب ''The Kaoboys of R&AW: Down Memory Lane‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ مکتی باہنی کو اسلحہ اور تربیت را نے فراہم کی تھی اور اس وقت کی پاکستانی حکومت کے خلاف نفسیاتی پروپیگنڈا مہم چلاتے ہوئے اس کی فوج کو نشانہ بنا کر اس کا مورال گرایا گیاــ جس میں پاکستان (مشرقی و مغربی) کے اندر سے سیا سی شخصیات اور پریس نے بھی تعاون کیا۔نیویارک ٹائمز کی 71ء کی جنگ میں بھارت اور پاکستانی فوج کے تقابلی جائزے کی رپورٹ کے مطا بق بھارت کی 104 انفنٹری اور مائونٹین پلٹنوں، بارڈر سکیورٹی فورس کی29 پلٹنوں اور ایک لاکھ سے زائد بھارت کی تیار کر دہ مکتی باہنی گوریلا فورس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف32 پلٹنیں تھیں۔ بھارت کے پاس چھاتہ بردار بریگیڈ بھی تھی جبکہ پاکستان کے پاس ایسی کوئی بریگیڈ نہیں تھی۔ بھارت کی پانچ ٹینک رجمنٹس تھیں جن میں روس کے فراہم کردہ وہ ٹینکس بھی تھے جو پانی میں تیرتے اور خشکی پر چلتے تھے جبکہ پاکستان کے پاس دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی صرف ایک ٹینک رجمنٹ تھی۔ بھارت کے پاس توپخانے کی پچاس رجمنٹس اور مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف ایک۔ بھارت کے پاس لڑاکا بمبار طیاروں کے دس سکواڈرن جبکہ پاکستان کے پاس صرف ایک۔ بھارت کے پاس120 ہیلی کاپٹر اور پاکستان کے پاس صرف چار۔ بھارت کے پاس بڑے بحری جنگی جہازوں کی تعداد13 جبکہ پاکستان کے پاس صفر۔اس کے علاوہ بھارت کے پاس ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی تھا۔ مشرقی پاکستان میں ایک پلاننگ کے ساتھ پاکستانی فوج کے دستوں کو محصور کر دیا گیا جبکہ بھارتی فوج کو ہر قسم کا اسلحہ، گولہ بارود اور تازہ دم نفری کی سہولتوں کے علا وہ بنگالیوں سے پاک فوج کی ہر حرکت اور مورچوں کی تفصیلات بھی مل رہی تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں