"MABC" (space) message & send to 7575

وزیر توانائی کے ساتھ ایک نشست

لاہور کے گورنر ہائوس میں وزیر توانائی حماد اظہر کے ساتھ میڈیا کی ایک طویل نشست میں ملک میں گیس کی قلت اور بجلی وتوانائی کی دیگر سہولتوں کے بڑھتے ہوئے نرخوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دنیا ٹی وی کے مشہور اینکر کامران شاہد بھی اس نشست میں موجود تھے۔ دو گھنٹے کی اس نشست میں کافی دیر تک سوال وجواب کا سلسلہ چلتا رہا اور گورنر ہائوس کے ڈرائنگ روم میں ہونے والی اس خصوصی نشست میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ حماد اظہر اپنے والد میاں اظہر کی طرح کھل کر بات کرنے کے عادی ہیں اور ایمانداری ان کی گھٹی میں ہے جس کی گواہی ان کی وزارتوں کا ریکارڈ بھی دیتا ہے‘ اس کے علاوہ اپنے کام کے حوالے سے بھی وہ کافی سنجیدہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان کی تعریف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام بیو روکریٹس بھی اپنی نجی محفلوں میں ان کے حوالے سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں اور ان کے کام اور لگن کی بھرپور تعریف کرتے ہیں۔
19 تاریخ کوگورنر ہائوس کی اس نشست میں میرے ایک سوال کے جواب میں حماد اظہر صاحب نے تسلیم کیا کہ ملک کی صنعت و حرفت کیلئے سب سے سستی اور وافر مقدار میں موجود قدرتی گیس جیسی نعمت کو حکمرانوں نے سی این جی سٹیشنوں اور تنوروں میں بھسم کر کے اس ملک و قوم پہ بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا توبلوچستان میں سوئی کے مقام سے حاصل ہونے والی گیس کے ذخائر اگلے پچیس برس کے لیے بھی کافی ہوتے جو اب بمشکل پانچ سے سات سال تک کے لیے رہ گئے ہیں۔ وزیر توانائی کا یہ کہنا اپنی جگہ درست لیکن اگر ہم سب مل کر گیس کے ان قیمتی خزانوں کو بے دردی سے لٹانے اور بجلی کے مہنگے سودوں اور نجی پاور پلانٹس کے نا مناسب اور ظالمانہ شقوں پر مبنی کنٹریکٹس کا رونا روتے رہیں گے تو پھر سوائے ماتم کے طویل سلسلے کے‘ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حکومت مسلم لیگ نون کی ہو یا پیپلز پارٹی کی یا پھر پاکستان تحریک انصاف کی‘ ان سب کا مطمح نظر ملکی سلامتی اور ہر قسم کی پیداواری صلاحیتوں کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے نہ کہ ہر شعبے میں گراوٹ کو اپنا مقدر بناتے ہوئے بد سے بد ترکی جانب بڑھتے جانا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماد اظہر کام کرنا جانتے ہیں اور ان کی نیت بھی ہے لیکن بجلی‘ گیس اور پٹرول سمیت توانائی کے ہر معاملے میں اس قدر کانٹے بکھرے ہوئے ہیں کہ اچھے بھلے آدمی کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تاریخ میں یاد وہی رکھا جاتا ہے جو تمام مشکلات کو خدائے رب ذوالجلال کا نام لے کر‘ اس سے مدد طلب کر کے اپنی قوتِ ارادی اور نیک نیتی سے دور کرتا چلا جائے۔ منزل کٹھن اور دشوار گزار ضرور ہے لیکن ہمتِ مرداں مددِ خدا کاا شارہ بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں اپنے رب کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہئے۔ ربِ کریم ضرور ہماری مدد کرے گا لیکن اس کیلئے وہ ہماری نیت کو دیکھے گا۔ اگر ہماری نیت نیک ہوئی اور کام کرنے کا جذبہ اور لگن ہم میں موجود ہوئی تو یقینا ربِ کریم کی مدد بھی ضرور آئے گی۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیر موصوف بھی دوسروں کی طرح وقتی واہ واہ کے نعرے سننے والے اقدامات کریں اور گیس سمیت تمام قدرتی وسائل کو کھیل تماشابنا کر بچی کھچی عمارت کو زمین بوس کر کے چل دیں اور آخر میں یہ کہہ دیں کہ تخم بیج کر خربوزہ تو نہیں اگتا۔
شنید ہے کہ 2013ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل جو اندرونی اور بین الاقوامی معاملات ''طے‘‘ پائے تھے‘ ان میں سے ایک معاملہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے دستبرداری بھی تھا۔ حکومت کی تشکیل کے کچھ ہی دنوں بعد اس منصوبے کے حوالے سے طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر دیے گئے اور پھر مفتاح اسماعیل صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ ختم کر دینا ہے۔پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے‘ جس میں بھارت کو شامل کرتے ہوئے آئی پی آئی منصوبے کا نام دیا گیا تھا۔ امریکہ کے دبائو پر پہلے اس گیس پائپ لائن منصوبے سے انڈیا کو علیحدہ کیا گیا جس سے ابتدا میں پاکستان کچھ گھبرا سا گیالیکن اسے یہ کہہ کر تسلی دی گئی کہ IPI کے بدلے تمہیںTAPI سے نوازا جائے گا۔ پھر ترکمانستان سے گیس کے حصول کے اس منصوبے میں پاکستان سے پوچھے بغیر امریکہ نے بھارت کو بھی شامل کرا دیا تاکہ اس منصوبے کے ذریعے انڈیا کو 33 ملین کیوبک میٹر گیس روزانہ مہیا کی جاتی رہے۔ اس وقت امریکیوں نے یقین دلایا تھا کہ2019ء کے آخر تک یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا لیکن اس کیلئے سب سے پہلے افغانستان میں امن قائم کرنا ہو گا۔ 2019ء تو کیا‘ 2021ء بھی ختم ہونے کو ہے مگر یہ منصوبہ تاحال تعطل کا شکار ہے۔
اب امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور طالبان برسرِاقتدار آ چکے ہیں، اب امریکہ کے دکھائے جانے والے ان خوابوں کی تعبیر کا وقت آ پہنچا ہے اور ہم ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ کے وعدے کے مطا بق افغانستان میں امن دکھائی دے تاکہ یہ منصوبہ شروع کیا جا سکے۔طالبان کی حکومت کو تاحال امریکہ سمیت کسی نے تسلیم نہیں کیا‘ خدشہ ہے کہ اب یہ منصوبہ بھی ایران منصوبے کی طرح‘ امریکی پابندیوں کا شکار نہ ہو جائے۔ اس حوالے سے بھی انحصار اب امریکہ پر ہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ انسانوں کو آزادی سے جینے دیتے ہیں یا آگ اور بارود کے شعلوں میں بھسم دیکھ کر خوش رہنا چاہتے ہیں؟ امریکہ اگر بنی نوع انسان کی بہتری کا خواہش مند ہے‘ اگر اسے ہیومن رائٹس اور انسانی حقوق کا پاس ہے تو پھر کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا ذریعہ بننے والے تیل اور گیس کے منصوبوں پر سے دبائو اور پابندیوں کو ہٹاتا کیوں نہیں؟ امریکی افواج سمیت نیٹو اور ایساف کی فوج ظفر موج اپنے اپنے ملکوں کو جا چکی ہیں۔ ایک عارضی ہی سہی‘ طالبان حکومت کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے‘ ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ التوامیں ڈالنے کے بعد‘ اب ہم گیس کے حصول میں کس انتظار میں بیٹھے ہیں؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم سستی گیس حاصل کر سکیں گے؟ جب ہم اپنی صنعتوں کو سستی اور وافر گیس فراہم کرنے کے بعد ملکی پیداوار اور اپنے جی ڈی پی میں اضافہ کر سکیں گے؟ کل تک کہا جاتا تھا کہ افغانستان میں نجانے کب امن آئے گا‘ کب یہ منصوبہ شروع ہو گا‘ اس کے متعلق کوئی بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ رہا تھا کیونکہ افغانستان کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورت حال سب کے سامنے تھی۔ امریکہ کے علاوہ بھارت نے بھی اسے اپنا اڈہ بنا رکھا تھا جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ کو بھڑکا اور بڑھا رہا تھا۔ان حالات میں افغانستان میں کسی عالمی منصوبے کا قیام بھی بیوقوفی تھا۔ گزشتہ سال اس منصوبے کے حوالے سے ترکمانستان کے حکام سے بات چیت ہوئی‘ جو اپنی ملکی حدود میں اس منصوبے کی گیس پائپ لائن بچھا چکے ہیں تاہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ ترکمان‘ افغان سرحد پر پاکستان کو گیس فراہم کر رہے تھے جبکہ جنگ زدہ افغانستان میں گیس ٹرانزٹ خسارہ پاکستان کو برداشت کرنا تھا؛ تاہم حکومت نے اس معاہدے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ یہ تمام سرمایہ کاری کو ضائع کرنے کے مترادف تھا۔ اب افغانستان کے حالات قدرے بہتر ہیں اور کم از کم تمام افغانستان طالبان کی عمل داری میں ہے‘لہٰذا اب اس معاملے پر دوبارہ بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ گزشتہ ماہ ترکمانستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس کے مطابق ترکمانستان حکومت کے ایک وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جہاں طالبان حکام کے ساتھ دیگر امور کے علاوہ تاپی منصوبے کے مستقبل پر بھی بات چیت ہوئی۔ افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی نے اس حوالے سے یقین دہانی کرائی اور کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہو‘ وہ یہ منصوبہ شروع کرنا چاہتے ہیں؛ تاہم اب افغان امن کی گارنٹی کے بعد ایک اور عفریت کا سامنا ہے۔ سی پیک جس طرح امریکہ کی نظروں میں کھٹک رہا ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں