گزشتہ حکومت کے پہلے سال کا ذکر ہے‘ جب ایک مشہور بینک کے حصص 160 روپے کے حساب سے بیرونِ ملک کچھ لوگوں کو فروخت کرنے کی تیاریاں کی جانے لگیں تو شور مچ اٹھا کہ اس وقت پاکستانی مارکیٹ میں اس حصص کی قیمت 210 روپے ہے اور معاشی ماہرین بڑے وثوق سے بتا رہے تھے کہ ان حصص کی قیمت جلد ہی 250 روپے تک پہنچنے والی ہے۔ پٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور گیس کی کمی پر آج ہر پاکستانی دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ ملک کے وسائل بیرونی ممالک کس طرح چلے گئے؟ کیا ان کی آج کی تکلیفوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار آج کے حکمران ہیں یا وہ سب‘ جنہوں نے مل کر اس ملک اور ان کی معیشت کو کھوکھلا کیا ہے؟
مشہور ''ڈالر گرل‘‘ماڈل سے پانچ لاکھ چھ ہزار ڈالر کی برآمدگی تو محض ایک فلائٹ کی داستان ہے، 2014ء میں دبئی جانے والی ایک لانچ سے پکڑے جانے والے ایک ارب ڈالر کی خبریں کس سے نہیں سنی تھیں؟ آج یہ سوال ٹاک شوز کے سبھی پروگراموں کی جان چلا آ رہا ہے کہ پاکستان کی شہ رگ سے یہ خون کیسے نچوڑ کر لے جایا گیا؟ ملک اور ریاست تو دور‘ گھر یا دکان کے خزانے بھی یک دم نہیں لٹتے۔ یہ لٹتے لٹتے خالی ہوتے ہیں اور وہ بھی اس طریقے سے کہ کسی کو پتا نہ چلے۔
ملک میں جب بھی سردیوں یا گرمیوں کا آغاز ہوتا ہے تو گیس اور بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کا عذاب ہر گھر کو اپنے حصار میں جکڑ لیتا ہے ۔ سردیوں میں ٹھنڈے پڑتے چولہے اور گرمیوں میں بند پنکھے اور اندھیرے ہر فرد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ چاہے گیس ہو یا بجلی‘ ان کی لوڈ شیڈنگ سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گھروں کے چولہے بند اور گرمی سے انسانی بدن جلتے ہیں تو وہ یکسر غلط ہے بلکہ اس لوڈ شیڈنگ سے شہروں، تحصیلوں سمیت چھوٹے چھوٹے قصبوں میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی دکان اور نہ جانے کتنی چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتیں بند ہو کر رہ جاتی ہیں ، جن کے بند ہونے سے وہ تمام خاندان بری طرح متاثر ہو تے ہیں جو ان سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ 2013ء میں جب مسلم لیگ نواز نے اقتدار سنبھالا تھا تو ابھی اس کے اقتدار کا پہلا سال تھا‘ غالباً گیارہ ماہ کا عرصہ گزر ا تھا‘ کہ اس وقت کی ''تیز طرار اور انتہائی لائق فائق‘‘ لوگوں پر مشتمل حکومت کی مہربانیوں سے ملک کو پاور پلانٹس کی مد میں ایک ارب روپے روزانہ کا نقصان پہنچنا شروع ہو گیا یعنی 41 ملین روپے فی گھنٹہ یا سات لاکھ روپے فی منٹ۔ اگر کسی ملک کو ایک ارب روپے روزانہ نقصان ہو رہا ہو تو لوگوں کو اگر پوچھنے کا نہیں تو یہ سوچنے کا حق تو ضرور ہوناچاہئے کہ یہ کون سی ایسی پالیسی ہے کہ ملک کو ایک ارب روپے کا نقصان اور سرمایہ کاروں کو روزانہ کا ایک ارب روپے کا فائدہ ہو رہا تھا؟ 5 جون2013ء کو میاں محمد نواز شریف نے وزیر اعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا اور تھوڑی ہی دیر بعد مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پاور پلانٹس کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضے کی یکمشت ادائیگی کا فیصلہ جاری کر دیا۔ ان ادائیگیوں کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ 345 ارب روپے کے مزید گردشی قرضے پاکستان پر دوبارہ بوجھ کی صورت میں لاد دیے گئے تھے۔
گزشتہ دنوں اسمبلی میں سابق وزیر دفاع اور وزیر پانی و بجلی محترم خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریریں اور ان کے موجودہ حکومت پر الزامات کی بھر مار سنی تو یاد آنے لگاہے کہ کیسے اُس وقت کے وزیر پانی و بجلی فرمایا کرتے تھے کہ بجلی پیدا کرنے کے اخراجات اسے بیچنے کی قیمت سے زیا دہ ہوتے جا رہے ہیں( حالانکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ان دنوں تیل روز بروز سستا ہوتا جا رہا تھا۔ آج اگرتیل 87ڈالر کا بیرل ہے تو اس وقت39 ڈالر کا بیرل تھا اور اب عرب ممالک کی کشیدگی اور ابوظہبی پر حوثیوں کے ڈرون حملے کے بعد سے یہ قیمتیں مزید بلندی کی طرف گامزن ہیں)۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ تیل کی ا ن قیمتوں میں بھی آئی پی پیز کے گردشی قرضے بڑھتے رہے۔ سابقہ وزیر پانی و بجلی کو اس وقت بھی یہ بتانے کی گستاخی کی تھی کہ آپ کی لائق فائق حکومت کی مہربانی سیــ پاکستان میں کام کرنے والے آئی پی پیز (انڈیپنڈینٹ پاور پروڈیوسرز) 100 KWhکے لیے 24 کلوگرام تیل استعمال کر رہے ہیں جبکہ عالمی معیار کودیکھا جائے تو دنیا بھر میں اس طرح کام کرنے والے پاور پلانٹس 100 KWhکی پیداوار کیلئے صرف 14 کلو گرام تیل استعمال کرتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی یا را زکی بات نہیں بلکہ کہیں سے بھی اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔
جب یہ واضح اور سامنے نظر آنے والی حقیقت تھی تو پھر نواز لیگ کی حکومت نے ملک اور قوم کے خزانوں کو لٹنے سے کیوں نہیں بچایا؟ اس کا سد باب کیوں نہیں کیا؟ آج اگر پی ٹی آئی موجودہ صورت حال کی ذمہ داری نواز لیگ پر ڈال رہی ہے تو اس کی وجوہ وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ بھلا نواز لیگ کی اس وقت کیا مجبوری تھی جو ان پاور پلانٹس کے مالکان کی من مانیوں کے سامنے بے بس کھڑی رہی ؟ کیا یہ سب آپس کے معاملات تو نہیں تھے؟ اس دور میں بجلی کی پیداوار میں گھپلوں کا کیا ذکر کیا جائے‘ نندی پور پاور پلانٹ میں جو کوتاہیاں کی گئیں‘ اس کے چوبیس ارب روپے کا بوجھ بھی غریب صارفین پر ڈالا جا رہا تھا لیکن نیپر ا یہ کہتے ہوئے راہ میں کھڑا ہو گیا کہ حکومتی بد اعمالیوں کی سزا عوام کو نہ دیجئے۔ آج اپوزیشن کے جو رہنما ماہرِ معیشت بن کر حکومت کو مفت کے مشوروں سے نواز رہے ہیں کہ وہ ذرا یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس 12000 BTU گیس استعمال کر تے رہے جبکہ ہم سے چند سو کلومیٹر دور بھارت میں بجلی پیدا کرنے والے یہی پلانٹس بمشکل 5000BTU گیس استعمال میں لا رہے تھے ۔ اپوزیشن رہنما جب پارلیمنٹ کے ایوان میں موجودہ حکومت کونا اہلی کے طعنے دے رہے ہوتے ہیں تو ان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ تحریک انصاف کا میڈیا سیل ایک فربہ وجود کی طرح بمشکل ہی حرکت میں آتا ہے لیکن عوام تو آپ سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ بجلی پیدا کرنے کیلئے یہ اضافی سات ہزار بی ٹی یو گیس کیوں ضائع کی گئی؟قوم کے چولہوں سے چھینی گئی یہ قدرتی گیس کن لوگوں کو مفت کا مال سمجھ کر لٹائی جاتی رہی؟
یہ تو ابھی کل کی بات ہی معلوم ہوتی ہے کہ جب میاں نواز شریف کا اقتدار نصف النہار پہ تھا اور خواجہ آصف اور عابد شیر علی فرمایا کرتے تھے کہ گردشی قرضے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، بجلی کا مہنگا ہونا اور لوڈ شیڈنگ کی لعنت کی ذمہ داری آپ ہماری حکومت پرنہیں ڈال سکتے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیا دہ تر بجلی چوری کی جا رہی ہے اور اس چوری کی وجہ سے لائن لاسز پچیس فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔یہ لائن لاسز ٹیکنیکل وجوہ کی بنا پر تھے یا نان ٹیکنیکل وجہ سے‘ یہ ایک الگ معاملہ ہے، لیکن اگر کل کی نواز حکومت اس ضمن میں جوابدہ ہے تو آج تحریک انصاف کو بھی اس بات کا جواب دینا ہو گا کہ لائن لاسز اگر ٹیکنیکل وجہ سے تھے تو اس کی وجہ ٹرانسفارمرز اور تاروں کا بوسیدہ نظام تھا اور اگر نان ٹیکنیکل وجوہات غالب تھیں تو پھر یہ حکومت کی نااہلی کا معاملہ کہلائے گا۔ اب اگر گھروں میں ہونے والی بجلی چوری کی بات کی جائے تو پھر باقی70 فیصد لائن لاسز کس کے کھاتے میں ڈالے جائیں گے؟ اس کے ذمہ داروں کا فیصلہ کون کرے گا؟