اسلام آباد میں افواہ سازی کا چرخہ اس تیزی سے گھوم رہا ہے کہ ہر ساعت ایک نئی خبر اورایک نیا منصوبہ لیے سامنے آ رہی ہے۔ یہ چرخہ چند دنوں سے نت نئے ڈیزائنز کے دلفریب تانے بانے بُننے میں اس قدر محو تھا کہ لگ رہا تھا کسی دن شام ڈھلے پارلیمنٹ کی راہد اریوں یا کسی بڑے ہوٹل کے ہال میں حکمران جماعت کے اراکینِ قومی اسمبلی کی ایک بھاری تعداد پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرنے جا رہی ہے جس سے ملکی سیاست میں ایسی ہلچل مچے گی کہ کوئی نیا منظرنامہ ہی دیکھنے کو ملے گا۔ گزشتہ تیس برسوں میں جب کبھی اسلام آباد جانا ہوا‘ رات کو میڈیا اور سیا ستدانوں کی محفلوں میں اسی طرح کی سرگوشیاں ابھرتی سنائی دیں جن سے لگتا تھا کہ صبح جب سو کر اُٹھیں گے حکومت کا تختہ الٹا جا چکا ہو گا لیکن اگلی صبح جیسے ہی ٹی وی کی سکرین اور اخبارات پرنظر پڑتی تو سب کچھ ویسے کا ویسا پاتے‘ سوائے دو دفعہ کے۔6 اگست 1990ء اور 5 نومبر 1996ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتیں ختم کی گئیں تو ان کی معزولی کی خبریں صرف رات گئے منعقد ہونے والی خصوصی محفلوں میں ہی سننے کو نہیں ملتی تھیں بلکہ سپر مارکیٹ سمیت بلیو ایریا کے پان فروش بھی کئی دن پہلے سے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہر ایک کو بتا تے پھر رہے تھے کہ حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔
اب گزشتہ ایک برس سے اسلام آباد میں ہر شب ایک ہی رَٹ چل رہی ہے کہ مائنس ون فارمولا طے پا چکا ہے بس تحریک انصاف کے سینئر لیڈران کو قائل کیا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کی جگہ اپنی جماعت کے کسی ایک نام پر متفق ہو جائیں وگرنہ اس کے سو کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ نیا امیدوار کسی اور جانب سے آگے آ جائے۔ دسمبر‘ دسمبر، جنوری‘ جنوری کرتے ایک سال بیت چکا ہے پہلے دسمبر گزرا‘ پھر جنوری بلکہ اب تو دوسرا جنوری بھی آخری ساعتوں کو آن پہنچا ہے۔ اب مارچ اور اپریل کی نئی تاریخ دے کر یہ کہا جا رہا ہے کہ تمام ایشوز حل کر لیے گئے ہیں اور اب گئے کہ تب گئے‘ بس کسی بھی وقت حکومت کا تختہ الٹ کر وزیراعظم عمران خان کو بنی گالا بھجوا دیا جائے گا۔ (ویسے وزیراعظم صاحب اس وقت بھی ایوانِ وزیراعظم کے بجائے بنی گالا میں ہی مقیم ہیں)۔
دارالحکومت میں افواہ سازی کی طاقت کو کبھی بھی کمزور نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں افواہ سازی کی صنعت بڑی توانائی کے ساتھ کام کرتی ہے اور بات جب پاکستان جیسے ملک اور اس کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہو تو پھر سمجھئے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے کیونکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل افواہ کی صورت میں ایک اشارہ کہیں سے بلند کیا جاتا ہے تاکہ اس پر عوامی اورسرکاری ردعمل کے علا وہ مذکورہ فریقین اور ان کی کچن کیبنٹ کے تاثرات کاا ندازہ ہو سکے۔ چند مرتبہ تو یہ بھی دیکھا گیا ہے بلکہ اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چند بڑے ممالک کے سفارت کاروں کی جانب سے بھی ایسا خاص قسم کا ماحول بنا دیا جاتا ہے تاکہ جس فارمولے پر کام ہونے جا رہا ہے‘ اس کے حق اور مخالفت میں عوامی رائے عامہ اور جذبات کا تجزیہ کیا جا سکے۔
جب سیا سی حکومت کمزور ہو تو پھر افواہ سازی کی صنعت کافی پھلتی پھولتی ہے اور بڑی توانائی کے ساتھ کام کرتی ہے۔ حکومتی کمزوری سے ان افواہ ساز فیکٹریوں کی چنگاری شعلہ بن کر روشن ہو جاتی ہے اور پھر 'سب سے پہلے خبر دینے کا اعزاز‘ اپنے نام لکھوانے کی دوڑ میں کچھ اینکرز اور سینئر سیاستدانوں میں مقابلہ شروع ہونا ایک لازمی امر بن جاتا ہے۔ یہی صورت حال اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کو درپیش ہے۔ مہنگائی اور دو صوبوں میں ان کی ناقص کارکردگی اور میڈیا کی نااہل اور صرف نمبر ٹانکنے والی ٹیم کے علاوہ اس وقت تحریک انصاف کے دامن میں کچھ نہیں ہے۔ اپنے خاص وفاداروں کو چھوڑ کر گھس بیٹھئے لوگوں کو آگے لاکر اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ میڈیا کی گیم ان کے ہاتھ میں آ جائے گی تو یہ ان کی بھول ہے بلکہ اس سے الٹا اثر ہوا ہے کیونکہ وہ لوگ جو دودہائیوں سے بغیر کسی طمع اور لالچ کے عمران خان کا ان کے نظریے کی وجہ سے ساتھ دیتے چلے آ رہے تھے‘ نظر انداز کیے جانے کا احساس اب انہیں پارٹی سے کافی دور کر چکا ہے۔ اب ان تمام لکھاریوں کے دلوں میں وہ جذبہ نہیں اور مخالفین کے تیر و نشتر کا اُس رفتار سے مقابلہ کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں جو ماضی میں ان کا خاصہ رہی ہے اور جس کی بدولت تحریک انصاف سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی ایوانِ حکومت میں براجمان ہونے میں کامیاب ہوئی۔ حکومت کی بد قسمتی دیکھئے کہ ایک طرف اس کی کارکردگی خاصی بری رہی‘ دوسری جانب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوںکی یہ کامیابی سمجھ لیجئے کہ وہ اپنے میڈیا منیجرز کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں یہ بات انڈیلنے میں کامیاب ہوتی جا رہی ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں کرپشن کے تمام ریکارڈز توڑے جا رہے ہیں۔ ان کے خلاف آٹا، چینی، کھاد، گندم، ادویات اور پٹرول سکینڈلز اس خوبی اور تواتر سے اٹھائے جا رہے ہیں کہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اس کو سچ تسلیم کرنے میں اب کوئی جھجک یا رکاوٹ نہیں رہی۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں زیا دہ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کرپشن‘ طمع اور ہوس کے ساتھ نا اہلی بھی جڑ جائے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ غریب کسانوں کو فصلوں کیلئے کھاد اور دوسری اشیا بلیک مارکیٹ سے خریدنا پڑیں کیونکہ کرپشن‘ ہوس‘ ناجائز منافع خوری کے علاوہ حکومتی انتظام اور تقسیم کا نظام بھی ناقص تھا۔
دارالحکومت میں مائنس ون فارمولے کا چرخہ اس رفتار سے چل رہا ہے کہ منچلوں کا وہاں سے آنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا مبادا وہ ''تبدیلی‘‘ کے اس نظارے سے محروم ہو جائیں جب حکومت اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ایوانِ حکومت سے نکل کر افسردگی سے اپنے گھروں کی جانب عازمِ سفر ہو گی۔ اسلام آباد کے کسی پنج ستارہ ہوٹل کی ڈنر ٹیبل پر بیٹھ جائیں تو یہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ بات صرف مائنس ون فارمولے کی نہیں بلکہ اب مائنس تھری فائنل ہو رہاہے کیونکہ خبریں پھیل رہی ہیں کہ مائنس تھری فارمولا اعلیٰ ملکی و سیاسی قیا دت سے متعلق ہے۔ یہ وہی1993ء والی صورتحال بن رہی ہے جب دو متحارب شخصیات کو ایک ساتھ جانا پڑگیا تھا۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ اگر اپوزیشن چاہے توتھوڑی سے کوشش سے عدم اعتماد کوکامیاب کرانا اس کے لیے زیادہ مشکل کام نہیں لیکن اپوزیشن دو بیڑیوں پر پائوں رکھے ہوئے ہے۔ اس کی مثال سینیٹ میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے بل کی چیئرمین سینیٹ کے ووٹ سے منظوری ہے۔ سینیٹ کے قائد حزبِ اختلاف سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے نو اراکین نجانے کس وجہ سے اس اہم ترین موقع پر سینیٹ اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ ویسے یہ کوئی راز نہیں بلکہ وہ کھلی حقیقت ہے جو بتا رہی ہے کہ اپوزیشن طاقت کے ایوانوں میں کس طرح اپنا وجود بنائے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتساب کے نظام کو چند قدم آگے چلنے کے بعد روک دیا جاتا ہے۔
آج ہمارے ملک میںسیا ستدانوں کا ایک ٹولہ دکھاوے کے طور پر ایسی ایسی تقاریر کرتا ہے کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ان سے زیادہ انقلابی اور جمہوریت نواز کوئی نہیں۔ وہ صبح شام 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگا تے نہیں تھکتے لیکن ووٹ کی عزت سب نے سینیٹ کے اجلاس میں اس وقت دیکھ لی جب اجلاس میں اپنے لوگوں کو پھسلنے کا اشارہ کرتے ہوئے حکومتی بل کو ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کرا نے میں اہم کردار ادا کیا گیا۔ یہ بل کس کے کہنے پر منظور ہونے دیا گیا‘ سب جانتے ہیں۔ کچھ نام نہاد دانشور اداروں اور مقتدرہ کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے کیلئے ووٹ کی عزت اور جمہوریت کی شا ن میں قلابے ملاتے نہیں تھکتے وہ یہ ثابت کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں کہ ہماری پسماندگی کا سبب جمہوریت کا بار بار ڈی ریل ہونا ہے اور غیر سیاسی لوگوں کی اس نظام میں مداخلت ہے۔ اگر موقع ملے توایسے لوگوں کو لاطینی اور وسطی امریکا کی ریا ستوں کی طرف نظریں دوڑاکر دیکھ لینا چاہیے جہاں جمہوری اداروں کی طاقت اور سول حاکمیت کو مضبوط بنانے کے پیچھے مقتدرہ سے کئی سال کی گفت و شنید کا عمل شامل ہے۔