1980ء کی دہائی میں پی ٹی وی سے ایک ڈرامہ 'شب دیگ‘ نشر کیا گیا تھا‘ جس کے ایک سین میں دکھایا گیا کہ انکل کیوں (مستانہ مرحوم) اپنے ایک دوست (کاکا منّا) کی تیمارداری کیلئے ہسپتال میں جاتے ہیں۔ جاتے ہوئے وہ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے اپنے اس غریب دوست کو ایک بند لفافہ دیتے ہوئے یہ تاکید کرتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد ہی اسے کھولا جائے۔ کاکا منّا نے انکل کیوں کے جانے کے بعد اس لفافے کو کھول کر دیکھا تو اس میں کچھ کرنسی نوٹ اور ساتھ ایک خط تھا، جس میں لکھا تھا ''کاش کبھی کوئی ایسا دن بھی آئے‘ کوئی حکمران یہ نیکی کرنے کا بھی سوچے کہ غریب اور لاچار کو بیماری کی صورت میں اگر ہسپتال جانا پڑ جائے تو اس کے پاس کوئی ایسا وسیلہ ہو‘ کوئی ایسا لفافہ ہو جو اس کی بیماری پر اٹھنے والے اخراجات کو آسان کر دے‘‘۔اس ڈرامے کو آن ایئر ہوئے آج چار دہائیاں ہونے کو ہیں اور خدا کی قدرت دیکھئے کہ ہیلتھ کارڈ کی صورت میں وزیراعظم عمران خان نے غریب‘ لاچار اور کم وسائل رکھنے والے شہریوںکے لیے ''انکل کیوں‘‘ کے خط کی صورت میں دی گئی تجویز کو حقیقت کا رنگ دیا ہے۔
اُسے ریٹائر ہوئے دس برس ہو چکے ہیں‘ بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں جو سب اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ اسے ہر وقت ایک ہی غم کھائے جاتا کہ عمر کے اس حصے میں اگر اسے یا اس کی بیگم کو امراضِ قلب یا ایسی ہی کوئی مہلک مہنگی بیماری لگ گئی تو وہ کیا کرے گا؟ کسی پرائیویٹ ہسپتال کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ بچے بھی اکثر آنکھیں چراتے ہوئے تاکید کرتے رہتے کہ کولیسٹرول کو بڑھنے نہ دیجئے گا‘ خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو بہت پریشانی ہو گی۔ باتوں باتوں میں وہ جتا بھی دیتے کہ ہمارے پاس اتنا کچھ ہے بھی نہیں کہ مہنگا علاج افورڈ کر سکیں۔ ان کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی کیونکہ ان کے اپنے گھر بار کے سلسلے ان کی کم تنخواہوں اور وسائل پر بوجھ بنتے جا رہے تھے۔ خاتونِ خانہ اپنی بیماری کا بتاتی ہی نہیں تھی کہ اس کے بچوں کے پیسے ضائع ہوں گے اور وہ اندر ہی اندر اپنی بیماری اور تکالیف کو چھپائے رکھتی۔ اپنی بیماری کے بجائے ہر وقت اسے بھی یہی غم کھائے جاتا کہ اگر اس کے کسی بچے یا پوتا‘ پوتی یا کسی نواسے کو کچھ ہو گیا تو ان کا علاج کیسے کرائیںگے کیونکہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی فیسیں سن کر اس بے چاری کی تو جان ہی ہوا ہو جاتی‘ لیکن آج وہ پریشان نہیں۔ اب کسی قسم کا دکھ اور پریشانی اسے لاحق نہیں۔ اب اس کی راتیں اِس فکر سے جاگ جاگ کر نہیں گزرتیں کہ کسی خطرناک بیماری کی صورت میں وہ کہاں جائیں گے‘ بھاری علاج اور ہسپتالوں کے بھاری بل کہاں سے ادا کریں گے۔ یہ دکھ اور فکر نئے پاکستان نے سمیٹ لیے ہیں۔ آج ان کے پاس دس لاکھ روپے تک علاج کی سہولت موجود ہے ۔یہ کوئی معمولی تحفہ نہیں!
پاکستان کو وجود میں آئے 75 برس ہونے کو ہیں‘ اس قسم کی سہولت اور یہ آسرا اس سے پہلے کہاں دیکھنے کو ملتا تھا؟ آج وزیراعظم نے نئے پاکستان کی صورت میں دس لاکھ روپے تک علاج کی سہولت ہر گھر کو مہیا کر دی ہے۔ اگر کسی کو یہ نیا پاکستان نظر نہیں آ رہا تو پھر اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ اب نئے پاکستان کی وجہ سے بوڑھے والدین اور ان کے بچے اس فکر سے آزاد ہو چکے ہیں کہ کسی ناگہانی بیماری کی صورت میں مہنگا علاج کہاں سے کرائیں گے۔ اس سہولت کے مخالفین کی جانب سے اعتراضات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ کہیں عوام ان کی چالوں اور پھینکے گئے جالوں سے آزاد ہونے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ وہ ایسی ایسی تاویلیں دے رہے ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ ایسا کہنے والے اور ان کے سیاسی لیڈران سے کوئی پوچھے کہ دنیا جانتی ہے کہ آپ کے تقسیم کردہ لیپ ٹاپس مارکیٹ میں پندرہ سے بیس ہزار روپے تک میں بکتے دیکھے گئے تھے‘ اس وقت آپ نے اس برائی اور کرپشن کو کیوں نہیں روکا؟ بے نظیر انکم سپورٹ سکیم میں پچیس ہزار سے زائد ایسے جعلی اکائونٹس ثانیہ نشتر کی ٹیم نے ڈھونڈ نکالے تھے جن کے ذریعے سیاسی لیڈران اور کارکنوں کے علاوہ سولہ سے بیس گریڈ تک کے افسران بشمول اپنی بیگمات یتیموں اور بیوائوں کیلئے مخصوص رقوم ہڑپ کر رہے تھے۔
مخالفین پی ٹی آئی حکومت سے یہ پوچھنے میں دن رات ایک کیے رہتے ہیں کہ کہاں ہے نیا پاکستان؟ کیا ان حضرات کو ہیلتھ کارڈ کی سہولت نظر نہیں آتی؟ مسلم لیگ نواز کی اول سے آخر تک لیڈرشپ ہو یا بلاول بھٹو سمیت ان کی پارٹی کے جیالے‘ مولانا فضل الرحمن ہوں یا محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی‘ سب کی تقاریر، پریس کانفرنسز اور میڈیا سے بات چیت کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ کدھر ہے نیا پاکستان؟ کہاں ہیں پچاس لاکھ گھر اور کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں؟ اس سوالوں کا بہترین انداز میں جواب دیا جا سکتا ہے لیکن افسوس کہ حکمران جماعت کی میڈیا ٹیم نے کبھی ان سوالات کا جواب دینے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ یوں لگتا ہے کہ ان میں سے کسی نے اس پر ریسرچ بھی نہیں کی۔ اس و قت ملک بھر میں ٹیکسٹائل سے منسلک 23 مختلف شعبوں کے سینکڑوں پلانٹس چوبیس‘ چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں اور اس سے لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے نئے مواقع ہی پیدا نہیں ہوئے بلکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹس سے تجارتی خسارے کو کم کرنے اور ملکی معیشت کو سہارا دینے کی سعی بھی کی گئی ہے۔ اس وقت ٹیکسٹائل ایکسپورٹس ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، مگر اپوزیشن جماعتوں کو درست اور ترنت جواب دینے کے بجائے میڈیا ٹیم کے چہیتے الٹا حکمران جماعت کی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کاش حکومتی ترجمان اپنے بیانات میں دنیا جہاں کے قلابے ملانے کے بجائے مخالفین کو عوامی زبان اور پراثر طریقوں سے اس طرح جواب دیں کہ سننے والے عام آدمی کا ذہن بھی ایک لمحے کیلئے یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ وہ بالکل سچ ہے۔ پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے طعنے دینے والوں کو مؤثر جواب دیتے ہوئے اعداد و شمار اس طرح سامنے رکھیں کہ عام آدمی بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ یہ ثبوت جھٹلائے نہیں جا سکتے، لیکن پی ٹی آئی کے 'گھس بیٹھئے‘ اور نت نئے میڈیا منیجرز کی فوج ظفر موج کو اپوزیشن کو جواب دینے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ حکمران جماعت کی عمران خان سے وفاداری اور خلوص کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ جیسے ہی میڈیا منیجرز کو کسی ایسے شخص یا لکھاری سے متعلق پتا چلتا ہے جو گزشتہ پچیس برسوں سے عمران خان کے نظریات کا حامی ہے‘ اس سے یہ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ وہ گزشتہ پچیس برسوں سے ان کے حق میں ادا کیے گئے اپنے بیانات پر توبہ کرنے لگتا ہے۔ اگر ان مشیروں کا پی ٹی آئی کی حمایت میں قلم اٹھانے والوں سے کبھی سامنا ہو جائے تو اس سے یہ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ وہ شخص اس ہتک آمیر سلوک سے آگ بگولہ انتقامی طور پر تحریک انصاف پر پل پڑتا ہے۔ اس قسم کے واقعات آئے روز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ان کے دوستوں اور ہمدردوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے۔ پُرخلوص کارکنوں اور طمع و لالچ سے بے نیاز پارٹی کا دفاع کرنے والوں کے بجائے اب وہی لوگ حکمران جماعت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جنہیں سرکاری سطح پر منافع بخش عہدے دیے گئے ہیں۔
حکومت مخالفین اس وقت خوش ہیں کہ ان کا راستہ صاف ہو چکا ہے‘ پی ٹی آئی اپنے ہی بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے مگر ایک لمحے کو سوچیں اگر وزیراعظم عمران خان نے ہیلتھ کارڈ کے بعد بجلی اور گیس کے ہوشربا بلوں سے تنگ عوام کا احساس کرتے ہوئے 'نئے پاکستان‘ کے نام پر 35 ہزار روپے سے کم ماہانہ تنخواہ اور آمدنی والوں کیلئے ''یوٹیلیٹی بلز کارڈ‘‘ متعارف کرا دیے تو کیا ہو گا؟ یقین جانیے 2023ء کے انتخابات میں اپوزیشن کے پاس کوئی مدعا‘ کوئی ایجنڈا ہی نہ رہے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ادارہ یا کوئی شخصیت وزیراعظم صاحب تک یہ تجویز پہنچانے کی سعادت حاصل کرے گی؟