"MABC" (space) message & send to 7575

عدم اعتماد کا رسک

مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ان کے پاس وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی یقینی کامیابی کیلئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی عددی اکثریت ابھی تک نہیں ہے۔ اگر کوئی مطلوبہ اراکین کے پورے ہونے کا انہیں یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے تو بھی انہیں اس پر بھروسہ نہیں ہے۔ اسی لیے انہیں سب کے سامنے کہنا پڑا کہ عدم اعتماد کا رسک لینا ہی پڑے گا۔ میری نظر میں ''رسک‘‘ کے لفظ کا استعمال ہی اس لیے کیا گیا کہ وہ ابھی تک اراکین کی تلاش میں ہیں، یعنی اپوزیشن کے پھینکے گئے جال میں مطلوبہ مچھلیاں ابھی تک نہیں آ سکی ہیں۔ اگر مسلم لیگ نواز کے پاس مطلوبہ اراکینِ اسمبلی موجود ہوتے تو یقین جانیے کہ اب تک پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کے اراکین اسمبلی کی رونمائی کراتے ہوئے جاتی امرا سے ماڈل ٹائون اور اسلا م آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ تک نجانے کتنی پُرہجوم پریس کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہوتیں۔ وہ گروپ‘ جو 2019ء سے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے دعوے کر رہا ہے‘ ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ ''نئے‘‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا راگ الاپنے میں دن رات ایک کر رہا ہوتا۔ جاتی امرا اور ماڈل ٹائون میں دیگیں پکنا شروع ہو چکی ہوتیں جو کسی دور میں مرحوم چودھری ظہور الٰہی کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھیں۔ اپوزیشن کی ہر میٹنگ اور ہر اجلاس چودھری صاحب کی رہائش گاہ پر ہی ہوا کرتا تھا کیونکہ دوسرے لوگ میڈیا اور سیاسی کارکنوں سمیت بڑے لیڈران کے ہمراہ آنے والوں کے ناز نخرے برداشت کرنے سے گھبراتے تھے جبکہ چودھری صاحب کے گھر اور ڈیرے پر ہر قسم کا لنگر چل رہا ہوتا تھا۔ یہ روایت اب بھی چودھری برادران میں نظر آتی ہے کہ ان کے گھروں اور ڈیروں پر آنے والوں میں ووٹرز اور سپورٹرز کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ان کی اپنے ملازمین کو سختی سے ہدایت ہے کہ اگر ان کے گھر میں داخل ہونے والے شخص کو چائے‘ پانی اور ''روٹی شوٹی‘‘ کا نہ پوچھا گیا تو ایسے منتظم کو اسی وقت چھٹی دے دی جائے گی۔ یہی روایت اب جہانگیر خان ترین کے ہاں بھی نظر آ رہی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ جہانگیر ترین ہی تھے جنہوں نے بنی گالا میں تحریک انصاف کے ہمدردوں اور دور دراز سے آنے والے کارکنوں کو ٹھنڈا پانی اور چائے وغیرہ فراہم کرنے کی روایت ڈالی تھی‘ ورنہ اس سے قبل تو کسی کو پانی کا سادہ گلاس بھی نہیں ملتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان اپوزیشن جماعتوں کی توپوں اور گولہ باری کا سب سے زیادہ نشانہ بنے رہے کیونکہ سب جانتے تھے کہ یہی وہ دو ''مجرم‘‘ ہیں جو عمران خان کی سیاست کو پنجاب کے طور طریقوں کے مطابق چلا رہے ہیں‘ ورنہ پہلے تو تحریک انصاف کے دفاتر میں کسی کو بیٹھنے کی جگہ بھی بڑی مشکل سے ہی ملتی تھی۔
اگر موجودہ سیاسی منظر نامے کی بات کریں تو مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کی امیدوں کا تمام مرکز اس وقت جہانگیر خان ترین ہی ہیں۔ اس وقت وہ ملکی سیاست کا وہ دُلہا بن چکے ہیں جس کی مہندی سے لے کر ولیمے تک‘ ہر کوئی اس کے دستر خوان سے مستفید ہونے کو بے قرار ہے۔ انہوں نے بھی اپنے دروازے ہر کسی کے لیے وا کر رکھے ہیں کیونکہ یہی اصل سیاست ہے۔ اگر ان کے گھر اور ڈیرے پر سوالیوں کا ہجوم نہیں ہو گا تو ان کی سیاست کس کام کی؟ یہی وہ بات ہے جو مونس الٰہی نے ایک تقریب میں وزیراعظم صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہی کہ وہ سیاست دان ہیں‘ ان کا گھر ایک قدیم سیاسی گھرانہ ہے جہاں ہر کسی نے آنا جانا ہوتا ہے۔ یقین جانیے اگر سیاستدانوں کے گھروں میں آنا جانا ختم ہو جائے تو کوئی انہیں اس قابل ہی نہ سمجھے کہ ان کے دروازے پر اپنی بڑی بڑی گاڑی کھڑی کر کے اندر آنے کی اجا زت مانگے۔
اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اس سے اچھا موقع دوبارہ شاید کبھی نہیں ملے گا کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ ہوشربا اضافے کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی چھلانگ لگانے کو پر تول رہی ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت نہایت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کے کارکنوں کا جذبہ اور ولولہ بھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اگر کوئی منڈی بہا ئوالدین کے جلسے کا حوالہ دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہو گی کیونکہ حکمرانوں کیلئے اپنے جلسوں کا میدان بھرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا۔ اس حوالے سے 1970ء کے انتخابات سے پہلے پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں کی سیریز کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اب عمران خان وہ ہیرو نہیں رہے اور ان کی مقبولیت کا بھی وہ عالم نہیں رہا کہ کئی کئی گھنٹے سخت دھوپ میں لوگ ان کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اب پولنگ سٹیشنوں پر کئی کئی گھنٹے کھڑے رہنے والی فیملیوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے۔ دوست بے اعتنائی کی وجہ سے روٹھ چکے ہیں اور اردگرد جمع افراد اپنے مفادات کی تکمیل کی وجہ سے ساتھ کھڑے ہیں اور چند رہ جانے والے مخلص ساتھیوں کو دھکے دینے میں مصروف ہیں۔
اس وقت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا اپوزیشن کی بھی مجبوری بن چکی ہے کیونکہ حکومت کے اپنے بوجھ سے گرنے کا راگ اگر ناکام ہو گیا تو اس کا اثر اگلے انتخابات میں بھی پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو یہ رسک اب لینا ہی پڑے گا‘ چاہے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئے‘ وزیراعظم کے خلاف آئے یا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ملک کے اندر اور باہر سے‘ کسی مضبوط اشارے کی اسی طرح منتظر ہیں جس طرح کا اشارہ 1996ء میں امریکن انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ برائے سائوتھ ایشیا مسز رافیل نے مری میں میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ایک پُرتعیش لنچ کے بعد دیا تھا‘ اور جس کے بعد میاں صاحب نے چند صحافیوں کو بلا کر انہیں حکومت آنے کے بعد چھ ماہ تک خاموش رہنے کا کہا تھا۔ وہ سب میاںصاحب کی باتوں پر حیران رہ گئے مگر بعد میں کراچی میں میر مرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل اور سردار فاروق لغاری کی جانب سے بحیثیتِ صدر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے توڑے جانے سے کچھ کچھ کہانی سمجھ میں آنے لگی۔
کچھ افراد بغلیں بجا رہے ہیں کہ ایک اہم ملکی شخصیت کے دورۂ امریکا کے دوران واشنگٹن اور پنٹاگون میں ہونے والے اجلاسوں کے بعد ان کی خواہشات کی تکمیل ہو جائے گی۔ انہیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ نئے امریکی صدر نے ابھی تک وزیراعظم عمران خان سے فون پر بات کرنا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ ان کو پسند نہیں کرتے اور ان کے ''انکار‘‘ پر وہ انہیں سزا دینے کو بے تاب ہیں۔ گویا اپوزیشن کی سبھی جماعتوں کو اس بات پر ڈھارس مل رہی ہے کہ صدر جو بائیڈن پاکستانی قیادت سے بات کرنا تو کجا‘ فون پر ہیلو ہائے کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ امریکی صدر کی اس روش کی وجہ محض ایک شخصیت نہیں ہو سکتی بلکہ چین سمیت ترکی اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور ملکی خارجہ پالیسی کے نئے خدوخال اس مسئلے کی اصل وجہ ہیں۔ ''Absolutely Not‘‘ کی شکل میں امریکا پر پہلی بار برسنے والا تازیانہ بھی اس کی وجہ ہو سکتا ہے جس کی اسے توقع بھی نہیں تھی۔
ایک بات تسلیم شدہ ہے کہ اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا جو تجربہ مسلم لیگ کے پاس ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی آصف زرداری یا مولانا فضل الرحمن کے پاس نہیں ہو گا۔ اراکین اسمبلی سے بات کرتے ہوئے‘ ان کی وفاداریوں کا سودا کرتے ہوئے ان کے دل کے اندر کی آواز تک کا انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا بھائو کیا ہو گا اور یہ کب تک ان کے ساتھ چل سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں