"MABC" (space) message & send to 7575

پانی، سستی بجلی اور سواں ڈیم

اوورسیز پاکستانی‘ جنہیں ایئر پورٹ پر دیکھتے ہی سب بھوکے بھیڑیوں کی طرح انہیں کاٹ کھانے کیلئے ان کی جانب لپکتے ہیں اور جنہیں ایئر پورٹ سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اس قدر رنجیدہ اور پریشان کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سینوں میں سجائے سہانے سپنوں کی کرچیاں اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہوئے چھٹی کے چند دن بمشکل وطن میں گزار کر جلدی سے باہر واپس جانے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اوور سیز پاکستانی‘ جنہیں ہم ووٹ کا حق دینے کے قابل نہیں سمجھتے لیکن ان کے بھیجے گئے زرمبادلہ کو اپنے بدن میں دوڑنے والے خون کا واحد ذریعہ سمجھ کر موج مستیاں کرتے رہتے ہیں‘ ان کے دل اپنے مادرِ وطن کی حالت کو دیکھ کر اسی طرح کٹتے اور دکھتے رہتے ہیں جیسے والدین کو کسی موذی مرض کا شکار دیکھ کر اولاد کو اپنے دل میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ جب بجلی کے بے تحاشا بل پر لوگوں کو واویلا کرتے دیکھتے ہیں‘ جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو بجلی کی جا بجا لوڈشیڈنگ کے سبب روتے اور بلکتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ کئی کئی گھنٹے گرمی کے قہر اور حبس میں لوگوں کو کراہتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کا دل بھی اسی طرح بے چین ہوتا ہے جیسے یہ تکالیف محسوس کرنے والے افراد کا ہوتا ہے۔ مہنگی بجلی اور ضرورت سے بڑھ کر بجلی موجود ہونے کے دعووں کے باوجود کوئی بھی عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے منصوبوں پر غور کرنے اور ان پر توجہ دینے کوتیار نہیں ہوتا۔ اوور سیز پاکستانیوں میں سے ایک انجینئر انعام الرحمن ہیں‘ جو عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن دل ہر وقت دوسرے اوور سیز پاکستانیوں کی طرح‘ وطن عزیزکے ساتھ دھڑکتا اور اس کی بہاریں دیکھنے کو تڑپتا رہتا ہے۔
انجینئرصاحب کے بقول پاکستان میں سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بہترین مقام پوٹھوہار میں وادیٔ سواں ہے جہاں 38 سے 48 ملین ایکڑ فٹ پانی سما سکتا ہے جو تربیلا، کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیم کے پانی کے مجموعی ذخیروں سے آٹھ گنا تک زیادہ ہے۔ ان کی ریسرچ سٹڈی کے مطابق تلہ گنگ اور ڈھلیاں کے درمیان ڈھوک پٹھان کے قریب منگلا ڈیم جتنی بڑی دیوار تعمیر کرکے یہ آبی ذخیرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے جس سے پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ تربیلا سے سرنگوں اور غازی بروتھا جیسی معمولی ڈھلوان کی نہر سے پانی منتقل کیا جائے گا چونکہ اس ڈیم سے کوئی نہر نہیں نکل سکتی‘ اس لیے آپ اسے تربیلا کی توسیع کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان میںجولائی تا ستمبر ہر صوبہ جتنا چاہے اپنے حصے کے پانی کا رخ تربیلا سے اپنے آبی ذخیروں کی طرف موڑ سکتا ہے۔ اس سے ایک طرف وادیٔ پشاور میں سیلابی پانی کا نکاس ہر ممکن حد تک بہتر ہو جائے گا اور دوسری طرف زیریں پنجاب اور سندھ میں انتہائی درجے کے سیلابوں کا مسئلہ بھی ہمیشہ کیلئے حل ہو جائے گا۔ اسی طرح بلوچستان میں ناڑی بولان، خیبر پختونخوا میں وارسک سے اوپر، سندھ میں بھٹ شاہ گیس فیلڈ کے قریب، دریائے ناڑا پر ساون کے مقام پر اور پنجاب میں روہتاس کے قریب ذخیرۂ آب کے بڑے بڑے منصوبے بن سکتے ہیں جو علا قائی سیلابوں کا رخ موڑنے کے ساتھ ساتھ آ بپاشی اور پن بجلی کی پیداوار میں مدد دے سکیں گے۔ ہائی وارسک ڈیم کی جھیل کو بارہ میل دور‘ منڈا ڈیم سے سپل وے سرنگ کے ذریعے جوڑا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ان ذیلی منصوبوں کا مجموعی حجم بہ آسانی چالیس ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ سکتا ہے‘ یوں صوبوں کے حسبِ ضرورت محفوظ علاقائی آبی ذخیرے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ انجینئر صاحب کے مطابق یہ کوئی ہوائی منصوبے نہیں ہیں بلکہ 1960ء میں ورلڈ بینک نے اس منصوبے پر ابتدائی فزیبلٹی رپورٹ تیار کی تھی جو آج بھی واپڈا کے ریکارڈ میں موجود ہو گی؛ تاہم موجودہ حالات کے تناظر میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ان منصوبوں کو قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ 6 دہائیوں قبل تربیلا سے آبی سرنگوں کا بنانا بہت مہنگا اور کٹھن کام تھا مگر آج جدید ترین تکنیک اور علوم کی وجہ سے یہ کچھ بھی مشکل نہیں رہ گیا۔ انجینئر صاحب کا دعویٰ ہے کہ اگر ہمت کی جائے تو صرف سات بلین ڈالر کی لاگت سے مجوزہ ''سواں ڈیم‘‘ سے پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی اگلے چار سالوں میں بہ آسانی حاصل ہو سکے گی۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات اور اس کے ڈیزائن اور سائز کو سامنے رکھا جائے تو یہ درست ہے کہ اس منصوبے پر بھاری اخراجات آئیں گے لیکن اس کے باوجود یہ بھاشا ڈیم کی لاگت سے نصف میں تیار ہو جائے گا۔
اگر ملک میں پانی کے حصول کے ذرائع کی بات کریں توایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان کا قریباً آدھا پانی ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے پگھلتے برف زاروں سے حاصل ہوتا ہے جبکہ باقی نصف بارشوں سے‘ جن کا جوبن صرف برسات کے دنوں میں ہوتا ہے‘ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح سال کے استعمال کا لگ بھگ تین چوتھائی پانی جولائی سے ستمبر تک کے عرصے میں ہمارے دریائوں سے گزرتا ہے جب ایک طرف پہاڑوں کی برف پگھلتی ہے اور دوسری طرف برسات کا سیزن ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بارشوں کی ذرا سی شدت سیلابی صورت حال اختیار کر لیتی ہے اور پانی چاروں صوبوں میں تباہی مچاتا ہوا بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو قطعاً غلط نہ ہو گا کہ پاکستان بننے سے اب تک‘ نااہلی اور وطن کے مفادات سے لاتعلقی کی وجہ سے‘ سال بھر میں سمندر میں گرنے والے پانی کی اوسط قیمت ''70 کھرب روپے‘‘ سے زائد ہے جو ملک کے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ ہر سال آنے والے سیلاب سے ہونے والا قیمتی جان و مال کا نقصان الگ ہے۔ اگر ہم اپنے دریائوں کی طغیانی پر ہی قابو پا لیں تو ایک طرف عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے اور دوسری طرف اضافی پانی ذخیرہ کر کے ملک و قوم کیلئے سستی بجلی کے علاوہ زراعت میں خود کفالت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے جس سے زمین کی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور سستا اناج ملک کے اندر ہی پیدا ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ تربیلا سے اوپر مجوزہ نئے پن بجلی گھروں کی کارکردگی بھی بڑھ جائے گی اور تربیلا ڈیم کا کردار برسات میں پانی موڑنے اور سیلاب روکنے تک اور بہتے پانی سے بجلی بنانے تک محدود ہو جائے گا جس سے اس کی عمر میں بھی اضافہ ہو گا جبکہ پانی ذخیرہ کرنے کی اگلے سو سال تک کی تمام ذمہ داری پوٹھوہار کا خطہ ادا کرے گا۔ علاوہ ازیں دریائے سندھ کے بہائو میں موجودہ رکاوٹ بھی ختم ہو جائے گی اور تربیلا میں رکنے والی گار (سلٹ) بہائو کے ساتھ ٹھٹھہ اور بدین تک پہنچنا شروع ہو جائے گی جس سے سمندر کا رسائو اور پیش قدمی رک جائے گی۔ سندھ ڈیلٹا کیلئے چھ سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی کا مختص کوٹہ پورے سال کے دوران دستیاب ہو گا۔ بعض آبی ماہرین تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سواں ڈیم کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی بھی درکار نہیں بلکہ یہ ارزاں اور کچھ پرانی مشینیں استعمال کرتے ہوئے پوری مہارت سے چار سے پانچ سال میں تعمیر ہو سکتا ہے۔
اس تمام منصوبے کی تفصیلات پڑھنے کے بعد یہ یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے بھرپور طریقے سے نواز رکھا ہے۔ بہترین دماغ اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی کسی بھی شعبے میں کمی نہیں۔ اگر کمی ہے تو درست فیصلہ کرنے والوں کی کمی ہے۔ اس ملک کے وسائل کو اپنے خاندانوں کے بجائے خلقِ خدا کے استعمال میں لانے والوں کی کمی ہے۔ پاکستان کے چاروں طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکرادا کرنے کے علاوہ اور کوئی خیال ذہن میں نہیں آتا کہ اس نے پاکستان کے محدود جغرافیے میں فطرت کے ہر رنگ‘ ہر موسم کا جہاں آباد کر رکھا ہے۔ دیکھا جائے تو کشمیر کی وادیوں سے دشت خاران تک، روہی سے پنجاب کے زرخیز میدانوں تک، پوٹھوہار کے پتھریلے جمال سے کیچ کے بیابانوں تک، مہران کے جنگل بیلوں سے تھر کے ٹیلوں تک، بدین کی مسحور کن ڈھانڈوں سے سوات اور کالام کے برف زاروں تک، قراقرم کی سنگلاخ برف پوش چوٹیوں سے مکران کے ساحلوں تک ہمارے وطن کے اتنے موسم ہیں کہ دنیا میں کہیں اور یہ اکٹھے مل ہی نہیں سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں