"MABC" (space) message & send to 7575

ایک وہ خط تھا‘ ایک یہ خط ہے

1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک اپنے زوروں پر تھی کہ ایک دن صبح سویرے ہی راولپنڈی صدر میں چار‘ چار پانچ پانچ کر کے لوگ ادھر ادھر سے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں پیپلز پارٹی کے ورکروں کے علاوہ سادہ لباس میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ جب ایک ہزار سے زائد لوگ وہاں جمع ہو گئے تو یکدم کہیں سے ایک ٹولی نے وہاں پہنچتے ہی بھٹو کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیے۔ اتنے میں اچانک بغیر ہوٹرز کے‘ تین چار بڑی بڑی گاڑیاں اور جیپیں وہاں پہنچ گئیں۔ ایک جیپ کے پائیدان پر جب گاڑی سے نکلنے والے شخص نے قدم رکھا تو لوگ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے سامنے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کھڑے تھے جنہوں نے وہاں کھڑے لوگوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینا شروع کر دیا۔ ''جئے بھٹو‘‘ کے نعروں کی گونج میں انہوںنے تقریر شروع کی اور جب دیکھا کہ مجمع پوری طرح چارج ہو گیا ہے تو اپنے کوٹ کی جیب سے انہوں نے ایک خط نکالا اور ہوا میں لہراتے ہوئے سب کو دکھانا شروع کر دیا۔ اس وقت سرکاری ٹی وی کے علاوہ کسی دوسرے ٹی وی چینل یا الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہیں تھا؛ تاہم اس شام کو اپنی نشریات میں پی ٹی وی نے اس ایونٹ کی کوریج نشر کی۔ ذوالفقار علی بھٹو دھواںدھار تقریرکرنے کے بعد وہاں سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے ہوا میں لہرائے گئے خط کی کئی دن تک دھوم مچی رہی جس کے متعلق انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ''سفید ہاتھی‘‘ میری جان لینا چاہتا ہے۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں‘ سوائے مولانا غلام غوث ہزاروی کے‘ پیپلز پارٹی کی مخالف تھیں‘ لہٰذا سب نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اس خط میں کچھ نہیں‘ یہ صرف ایک سادہ سفید کاغذ اور بھٹو کا سیاسی ڈرامہ تھا۔ اس وقت اس خط کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا لیکن بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جوکچھ ہوا‘ وقت اور حالات نے اس خط اور اس کے مندرجات اور بھٹو کے بیان کے ایک ایک حرف کی تصدیق کر دی۔
اتوار 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں وزیراعظم عمران خان نے جب اپنی جیب سے نکال کر ایک خط ہوا میں لہرایا تو سب کو بھٹو والا واقعہ یاد آیا۔ مضحکہ خیزی دیکھئے کہ آج بھٹو کی وارث ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی بھی عمران خان کے لہرائے گئے خط کا مذاق اڑا رہی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے اس خط کو بھٹو کی کاپی قرار دیا۔ کچھ نے اسے بے بنیاد بتایا۔ اپوزیشن نے اسے ڈرامے بازی کہا اور احسن اقبال نے یہاں تک کہا کہ عمران خان نے جو کاغذ لہرایا وہ شاید گیس کا بل تھا۔ غرض آج بھی اسی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بیشتر افراد اس بات کو لے کر ٹھٹھہ اڑا رہے ہیں کہ آج کے دور میں خط کون لکھتا ہے؟ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ آفیشل مراسلوں کا رواج ختم نہیں ہوا۔ دوسری جانب ''سفید ہاتھی‘‘ کی اس قدر مانگ ہے کہ اس کے شائقین نے مارکیٹ میں اس کی ''دلچسپی کی اشیا‘‘ کی خریداری کیلئے اپنے ہنر دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ ہر جانب ہاہاکار مچی ہوئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک اتحادی جماعت دن کو حکومت اور رات کو اپوزیشن کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کراتی ہے۔ ایک جماعت حکومت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہے تو دوسری جماعت اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے کے لیے درخواست جمع کرا دیتی ہے۔ ایک کے کچھ ارکان حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہیں تو کچھ اپوزیشن کی صفوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق چند روز قبل سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ اب کوئی بھی اپنی قیمت لگوانے کو تیار نہیں‘ اس لیے اِسی تعداد پر انحصار کرنا ہو گا۔ 'منیجر‘ خاموش ہوا تو 'کنٹرولر‘ نے جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ 'مال ہمارا ہے، آپ کو کیا پروا ہے؟ قیمت کو دو گنا کر دو‘۔ اب مارکیٹ میں نرخ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جنہوں نے پہلے سودا کیا وہ پچھتا رہے ہیں کہ مزید وقت کیوں نہیں لیا، اب وہ رو رہے ہیں جو شروع میں پندرہ‘ بیس میں بک گئے۔ قسمت کی دیوی نئے والوں پر مہربان ہے اور ان پر خزانوں کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ سفید ہاتھی ان کی جان کا دشمن بن چکا ہے۔ وہ ہاتھی مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے بھی پوری طرح باخبر ہے‘ اس نے اگر اپنی آنکھیںمیچ رکھی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیکھ نہیں رہا‘ اسے خریدی جانے والی ہر کھجور کا پورا پورا علم ہے کہ کتنے میں معاملات طے ہو رہے ہیں۔ اس وقت وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اسے شکست نہ ہو اور انکار کی جرأت کرنے والے کو اٹھا کر باہر پٹخ دے تاکہ باقی سب عبرت پکڑیں۔ اس کی جانب سے ہر حال میں ''کسی بھی قیمت پر‘‘ کے اعلان کے بعد بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خریداری میں 'پھڑیے‘ بھی شامل ہو تے جا رہے ہیں جو معاملات طے کروانے کی اپنی علیحدہ قیمت وصول کر رہے ہیں۔ ان پھڑیوں نے اتنی تعداد میں سودے کر لیے ہیں کہ ان کے پاس رکھنے کو جگہ نہیں رہی لیکن قابل فروخت ہیں کہ جھولیاں پھیلائے قطار میں کھڑے ہیں۔ آج جس قسم کی منڈی دیکھنے کو مل رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے وہ بندر والی کہانی یاد آ رہی ہے۔ ایک بستی‘ جہاں بندروں کی بہت بہتات تھی‘ میں ایک دن ایک تاجر نے آکر اپنا خیمہ گاڑا اور ا گلے دن اپنے ملازمین کے ذریعے دور‘ نزدیک کی آبادیوں میں اعلانات کرا دیے کہ اسے بندروں کی بہت بڑی تعداد درکار ہے‘ سو جو بھی بندر پکڑ کر لائے گا اسے ایک سو روپیہ فی بندر دیا جائے گا۔ اردگرد دیہات میں یہ اعلان جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ لوگوں نے بندر پکڑنا شروع کر دیے۔ تاجر کے کارندے لوگوں کو فی بندر ایک سو روپیہ ادا کر دیتے، اس طرح تاجر کے پاس بندروں کی بہت بڑی تعداد جمع ہو گئی جنہیںگائوں کے باہر‘ ایک پہاڑ کی اوٹ میں‘ جہاں تاجر نے اپنا خیمہ لگایا تھا‘ وہاں رکھے ایک بڑے پنجرے میں بند کر دیا جاتا۔ تعداد جب چار‘ پانچ سو تک پہنچ گئی تو علاقے میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے بندر ناپید ہونے لگے۔ جب نئے پکڑے جانے والے بندروں کی تعداد کافی کم ہو گئی تو تاجر نے اعلان کیا کہ اب ہر بندر کی قیمت سو روپے کے بجائے دو سو روپے ہو گی، جب قیمت بڑھی تو لوگ ایک نئے جذبے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سب کام چھوڑ کر بندروں کے شکارکیلئے دور دور تک جانے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی دور دور سے شکاری بندر پکڑنے کیلئے آنے لگے۔ لوگ خوشی خوشی اس کام میں لگے ہوئے تھے کیونکہ انہیں قیمت فوری طور پر مل جاتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بندر اردگرد کے سبھی علاقوں میں ناپید ہو گئے۔ بندروں کو پکڑنے کیلئے گھروں سے نکلنے والے صبح سے شام تک ٹھوکریں کھانے کے بعد خالی ہاتھ واپس آنے لگے۔ یہ صورتحال دیکھ کر تاجر نے اعلان کرا دیا کہ اب وہ ہر بندر کے پانچ سو روپے دے گا، اس کے بعد دو‘ تین تک جب کوئی بندر نہیں پکڑا گیا تو تاجر کو کسی کام سے شہر جانا پڑا، لیکن جاتے ہوئے وہ اپنے کارندوں کو بھاری رقم دے کر گیا اور کہنے لگا کہ وہ بڑے ٹرک لینے شہر جا رہا ہے اور کل صبح تک واپس آ جائے گا؛ اگر اس دوران کوئی بندر آئے تو اسے ایک ہزار روپے میں خرید لینا۔ تاجر کے جانے کے بعد ایک کارندے نے گائوں کے لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ سیٹھ کے پاس کوئی حساب کتاب نہیں کہ کتنے بندرخریدے جا چکے ہیں‘ میرے پاس جتنے بندر موجود ہیں‘ وہ سب میں سات سو روپے فی بندر کے حساب سے آپ لوگوں کو دے دیتا ہوں‘ سیٹھ کے واپس آنے کے بعد یہی بندر اسے ایک ہزار روپے میں بیچ دینا‘ اس طرح گھر بیٹھے تین سو روپے فی بندر منافع مل جائے گا۔ یہ سنتے ہی وہ کارندہ گائوں کے لوگوں کو لے کر پہاڑ کے دامن میں چلا گیا جہاں بندروں کو رکھا گیا تھا۔ گائوں والوں نے خوشی خوشی سات سو روپے فی بندر کے حساب سے تمام بندر خرید لیے۔ انہیں کہا گیا کہ کل صبح آپ نے پہنچ جانا ہے تاکہ ایک ہزار روپے فی بندر کے حساب سے بندر سیٹھ کو بیچ دیے جائیں۔ بستی والے ساری رات بندروں پر پہرہ دیتے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے تاکہ صبح جب تاجر واپس آئے تو ایک ہزار روپے کے حساب سے تمام بندر اسے بیچ کر اپنی جیبیں بھر لیں۔ اگلی صبح جب وہ بندروں کی فوج لے کر تاجر کے خیمے کے پاس پہنچے تو ان کے ہوش اڑ گئے کہ وہاں نہ توکوئی خیمہ تھا، نہ تاجر اور نہ ہی اس کے کارندوں کا کوئی نام و نشان تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں