"MABC" (space) message & send to 7575

غلامی یا آزادی؟

بارش کون برساتا ہے؟ بچے کی صورت کون بناتا ہے؟ انسان کو خلق کون کرتا ہے؟ ہماری جان کون لیتا ہے؟ ہمیں دوبارہ زندہ کون کرے گا؟ رازق کون ہے؟ جنت اور دوزخ کا مالک کون ہے؟ یہ ساری کائنات‘ زمین و آسمان کس کے ہیں؟ کائنات کے خزانے کس کے تصرف میں ہیں؟ زمین و آسمان کی نعمتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ بحیثیت مسلمان جب ہمارا ایمان ہے کہ ایک پتا بھی ہمارے ربِ کریم کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا تو پھر امریکا کو دنیا کا اَن داتا بتا کر ہمیں اس کی چاکری پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ کیوں کہا جا رہا ہے کہ امریکا کے بغیر ہمارا دانہ پانی بند ہو جائے گا۔ شہباز شریف کیوں کہہ رہے ہیں کہ Beggars can't be Choosers؟ خواجہ آصف کا یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ ''امریکا چاہے تو ہمارے لیے معاشی مشکلات پیدا کر سکتا ہے‘ وہ چاہے تو ہمارے سارے وینٹی لیٹر بند کر دے‘ امریکا ہمارے لیے ایسی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے کہ ہمارے پاس تیل کا بل دینے کے لیے بھی پیسے نہ رہیں‘‘؟
جب ہمارا ایمان ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی خدائے واحد کا اختیار ہے تو پھر یہ لوگ ہمیں کیوں سبق دیتے ہیں کہ دنیاوی خوشحالی کی چابیاں امریکا کے پاس ہیں؟ اس آزاد قوم کو آزادی کے بجائے غلامی کا سبق کیوں دیا جا رہا ہے؟ پاکستان میں اب وہ ذات پات والی غلامی اور امیر اور غریب کا فرق آج کی نئی نسل کو در در پر جھکنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتا۔ اس کا مشاہدہ آپ نے دھرنوں کے دوران بھی کیا ہو گا کہ کیسے عام سے نو جوان جن کے گھروں کے بجلی کے میٹر بل کی عدم ادائیگی پر منقطع ہو چکے ہیں‘ جن کے پاس دو جوڑوں کے علاوہ دوسرا کوئی کپڑا نہیں‘ وہ بھی کئی کئی کروڑ کی گاڑیوں پر بیٹھے ہوئے طرم خانوں کو وہاں سے گزرنا تو بہت دور کی بات‘ ایک انچ راستہ دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ اب ان کا خوف ختم ہو چکا ہے‘ ان میں صدیوں کی غلامی کے جراثیم ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب نوجوان نسل پر کسی دوسرے کی بڑی گاڑی اور کئی کئی کنال کے محل کا رعب نہیں پڑتا۔ اس میں بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیوں والے کے ساتھ چلنے والے ہٹے کٹے بدمعاش نما گارڈز کی لمبی اور خوفناک بندوقوں اور کلاشنکوفوں کا ڈر نہیں رہا۔ اربابِ بست و کشاد سمجھ کیوں نہیں رہے کہ نئی جنریشن امریکا یا کسی اور ملک کی حاشیہ برداررہنا قبول نہیں کرے گی۔ پاکستان کی نوجوان نسل اور باشعور طبقہ جانتا ہے کہ ان کے بڑوں نے امریکا کے سامنے ہر وقت جو سر جھکائے رکھا تھا‘ آج انہیں اسی کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ اس سیاسی بندوبست کو قبول کرنے پر تیار نظر نہیں آتے، انہیں اس چوں چوں کے مربے کے خود پر مسلط کیے جانے کا دکھ ہے۔ آج کی نسل جان چکی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں عزت صرف اسی کی ہوتی ہے جس کے فیصلے کسی اور کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہوں۔ پاکستانی قوم لا الٰہ الا اﷲ کا حقیقی مفہوم سمجھ چکی ہے‘ اسے احساس ہو چکا ہے کہ اپنی لگام دوسروںکے ہاتھوں میں دینے والے کو انسان نہیں بلکہ کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے۔
آج اکیسویں صدی میں بھی سامراجی قوتیں یہی سمجھتی رہیں کہ تیسری دنیا کی موجودہ نسل بھی ان کے اشاروں پر ہی چلے گی مگر وہ یہ بھول گئیں کہ اب ان کے سامنے عمران خان کی شکل میں ایک ایسا لیڈر کھڑا ہے جس نے اس قوم کو لا الٰہ الا اﷲ کا سبق دے کر اﷲ رب العزت کے سوا‘باقی ہر قسم کے خوف سے قوم کو آزاد کر دیا ہے۔ وہ قوتیں یہی سمجھ رہی تھیں کہ باقی سیاسی لیڈرشپ کی طرح عمران خان بھی ان کی بے پناہ طاقت اور اثر و رسوخ سے ڈر اور سہم کر‘ دبک کر بیٹھ جائے گا لیکن ان کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب وطن عزیز کی نئی نسل‘ ہر گھر میں بیٹھی ہوئی مائیں اور بہنیں اپنے ملک پاکستان اور اس کے نظریے کی سربلندی کے لیے ایسے اٹھیں کہ تمام شہروں کی سڑکوں‘ چوراہوں اور چوکوں پر سراپا احتجاج ہو گئیں۔ سامراجی قوتیں بھول گئیں کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ اب لوگ اپنی عزت کرنے والوں ہی کی عزت کریں گے۔ اب آقا اور غلام والا وقت لد گیا ہے۔ اب حقیقی معنوں میں ایک آزاد ملک اور آزاد قوم سے ان کا سامنا ہو گا۔ اب ہم غلامی کی زنجیریں کاٹنے والے ہیں نہ کہ ان زنجیروں کو پوری قوم کی گردن میں ڈالنے والے۔
کون نہیں جانتا کہ آج سے تیس‘ چالیس برس پہلے کے ادوار میں ہمارے دیہات‘ قصبات اور چھوٹے بڑے شہروں میں رہنے والے بوڑھے‘ جوان اور خواتین اپنے علاقوں کے زمینداروں، امرا، سرکاری اہلکاروں اور بدمعاشوں کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنا تو دور کی بات‘ ان کے برابر بیٹھنے کی ہمت بھی نہیں کرتے تھے۔ جب کبھی انتخابات کا مرحلہ آتا تو قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں میں جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ ہر امیدوار اپنے پورے حلقہ انتخاب کے پولیس افسران اور محکمہ مال کے اہلکاروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے چودھریوں اور برادری کے بڑے یعنی بااثر لوگوں کے ڈیروں پر آتے اور وہیں پر پورے گائوں کا سودا کر کے چلے جاتے کیونکہ انہیں علم تھا کہ ان دیہات میں محنت مزدوری کرنے والے اور ہنرمند کاریگر‘ جنہیں بدقسمتی سے کمی کمین جیسے گھٹیا الفاظ سے پکارا جاتا‘ ان چودھریوں‘ وڈیروں اور سرداروں کی مرضی اور منشا کے بغیر کسی کو ووٹ دینا تو دور کی بات‘ اپنے بچوں کے رشتے تک نہیں کرتے۔ ان مقامی سرداروں کا کوئی مخالف اگر کبھی گائوں میں آنے کی ہمت کرتا تو خوف کے مارے اس شخص سے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ اس وقت بھی اٹھارہ‘ بیس برس کے نوجوانوں کو اپنے والدین کا ان سرداروں اور ڈیرے داروں سے اس طرح ڈرنا اور ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہنا اچھا نہیں لگتا تھا لیکن وہ سب اپنی مجبوریوں اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور ناراضی کے ڈر سے خاموش رہتے تھے لیکن یہ سوچتے ضرور تھے کہ کب اس غلامی سے آزاد ہوں گے۔
وقت گزرتا رہا اور یہ نوجوان نسل کہیں تعلیم‘ تو کہیں روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے لگی۔ لاہور‘ کراچی اور دوسرے بڑے شہروں کی آزاد فضائوں سے جب کبھی یہ لوگ اپنے گائوں جاتے اور اچھا اور صاف لباس پہن کر گلیوں‘ کھیتوں میں نکلتے تو انہیں مقامی وڈیروں‘ چودھریوں اور ان کے حامیوں کی تضحیک آمیز نگاہوں اور فقروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ انہیں روک روک کر یہ باور کرایا جاتا کہ تم کمہار کے بیٹے ہو‘ تم لوہار کے بھائی ہو‘ تمہارا دادا اور پڑدادا بھی ہمارا کمی تھا۔ مطلب یہ تھا کہ انہیں ذہن نشین کرا دیا جائے کہ تم شہر میں جتنا چاہے پڑھ لکھ لو‘ جہاں مرضی نوکری کر لو لیکن ہمارے سامنے تمہاری کوئی حیثیت‘ کوئی مقام نہیں‘ تم ہمارے کمی ہی رہو گے‘‘۔ چودھریوں، سرداروں اور ان کے خوشامدیوں کے اس قسم کے توہین آمیز الفاظ ان نوجوانوں کو تیر کی طرح لگتے۔ اگر کبھی وہ ان کو جواب دینے کا سوچتے تو ان کے اپنے والدین ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے کہ یہ ہمیں گائوں سے نکال دیں گے‘ ہماری جوان بچیاں ہیں‘ ان بدمعاشوں کے منہ نہ لگو۔
سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے اس ملک کے غریب مزدوروں‘ کسانوں اور ہاریوں سمیت نچلے طبقے کے نوجوانوں میں شخصی آزادی اور زمینداروں‘ ڈیرے داروں اور مقامی چودھریوں کی پہنائی ہوئی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا جذبہ پھونکا تھا جیسے ہی دیکھا کہ بھٹو مغرب کی غلامی سے نکلنے کی بھرپور کوششوں اور ایک الگ بلاک بنانے کی جدوجہد میں ہے تو اسے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا گیا اور پھر کسی کی مغرب کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہو سکی۔ کئی دہائیوں بعد اچانک عمران خان کی شکل میں پاکستان کے وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکا کے سامنے سر جھکانے کے بجائے ایک خوددار قوم کی پہچان بن کر سینہ تان کر کھڑا ہو گا تو اس گستاخی کی سزا دیتے ہوئے اسے کوئے اقتدار سے نکال باہر کیا گیا مگر اس نے جھکنے سے انکار کر دیا اور ملک و قوم کو غفلت سے بیدار کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ اب فیصلہ کن وقت آ گیا ہے جس میں آخری فتح یقینا حق کی ہو گی مگر یہ وقت یہ ضرور دکھا دے گا کہ اس معرکے میں کون کس طرف کھڑا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں