یہ کیسا تضاد ہے کہ ایک جانب 29 مئی کو مانسہرہ کے جلسے میں وزیر ا عظم شہباز شریف غریب عوام کو ایک بار پھر خوشخبریاں سنا رہے تھے کہ وہ اپنے کپڑے بیچ کرآٹے پر سبسڈی دیں گے تو دوسری جانب تحریک انصاف کی مخاصمت میں گلگت بلتستان کو خوراک کی مد میںدی جانے والی سبسڈی میں کمی کرتے ہوئے اسے 4 ارب کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رقم نہیں جس سے ملک چلایا جا سکے‘ اس لیے ہم نے گلگت بلتستان کیلئے خوراک کی سبسڈی میں کمی کر دی ہے۔ اس سے قبل قوم سے اپنے خطاب میں شہباز شریف صاحب نے یوٹیلیٹی سٹورز پر سستے آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا مگر اب وفاقی وزارتِ خزانہ کی جانب سے صوبائی سیکرٹری خزانہ کے نام جاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ فنانس ڈویژن نے گلگت بلتستان کے آئندہ مالی سال کیلئے غیر ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے جس کے مطابق آئندہ مالی سال کیلئے جی بی کو گرانٹ اِن ایڈ کی مد میں 45 ارب روپے دیے جائیں گے جبکہ گندم پر سبسڈی کی مد میں 4 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے تحریک انصاف کے دور میں جی بی کیلئے گندم سبسڈی کی مد میں سالانہ 8 ارب روپے مختص کیے جاتے تھے۔اب جو گندم سبسڈی کو نصف کیا گیا ہے‘ اس سے گلگت بلتستان میں گندم کی فی بوری قیمت دُگنی ہو جائے گی اور قیمت13 سو کے بجائے 26 سو روپے کی ہو جائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ستر کی دہائی میں جی بی کیلئے گندم پر سبسڈی دینا شروع کی تھی جو ہر دور میں جاری رہی مگر اب پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے اس سبسڈی کو نصف کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کے وزیر زراعت کاظم میثم کے مطابق شہباز شریف حکومت نے گندم سبسڈی میں ہی چار ارب روپے کی کمی نہیں کی بلکہ ترقیاتی بجٹ میں بھی آٹھ ارب کی کٹوتی کی گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گندم سبسڈی میں کمی یا ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کا فیصلہ فوری طور واپس نہ لیا تو حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔
قوم سے خطاب میں شہباز شریف صاحب نے پی ٹی آئی حکومت اور سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پٹرول سستا کر کے آنے والی حکومت کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائیں۔سوال یہ ہے کہ کیا آپ کو اور آپ کے مدد گاروں کو‘ وزارتِ توانائی، وزارتِ خزانہ اوردیگر اداروں میں بیٹھے آپ کے حامیوں کو متعلقہ سرکاری کاغذات اور فائلوں میں موجود سمریوں کو دیکھنے کا وقت نہیں ملا تھا؟ کیا آپ کے منظورِ نظر افسروں نے آپ کواونچ نیچ سے آگاہ نہیں کیا تھا؟ جب عمران خان بحیثیت وزیر اعظم تیل کی قیمتوں میں دس روپے کمی کا اعلان کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ان کی حکومت تیل کی مد میں عوام کودیے جانے اس ریلیف کو جون تک جاری رکھے گی تو کیا آصف زرداری اور شریف برادران سمیت پی ڈی ایم کے انتہائی زیرک، تجربہ کار اور گھاگ سیاستدانوں میں سے کسی کو بھی اس کاا داراک نہیں تھا؟ جب آپ یہ سب جانتے تھے تو پھر اس پر شکوہ محل‘جسے اب آپ شیشے کے گھر سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے‘ میں داخل ہونے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاطر ایک دوسرے کو دھکے کیوں دے رہے تھے‘ اس شیشے کے محل کے دروازے کیوں توڑے جا رہے تھے؟
حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور گلگت‘ بلتستان کے عوام کو دی جانے والی سبسڈی‘ بالخصوص گندم کے لیے دی جانے والی سبسڈی میں کمی کے فیصلے کو فوراً واپس لے۔ اگر وہ نہیں جانتی یا اسے کسی نے خبر نہیں دی تو وزارتِ خارجہ یا دیگر اداروں کو چاہئے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بھارتی پنجاب کی انتخابی مہم میں کی جانے والی وہ تقریر حکومتی زعما کو سنا دیں جس میں انتہا پسند بھارتی وزیراعظم نے گلگت‘ بلتستان کو خصوصی طور پر اپنے نشانے پر رکھا تھا۔ جہاں دشمن کئی برسوں سے شر انگیزی میں مصروف ہو‘ اس خطے کے لوگوں کو خوراک کی مد میں دی جانے والی سبسڈی میں کٹوتی کر کے اور آٹے کو دو گنا تک مہنگا کر کے کیا آپ وہاں کی نوجوان نسل کو مشتعل نہیں کر رہے؟
کچی آ بادیوں اور پسماندہ علاقے کی بوڑھیوں کی طرح اس وقت مسلم لیگ نواز اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں کے اراکین سمیت معاونین اور ترجمانون کی فوج ظفر موج میڈیا چینلوں پر انتہائی پھولپن سے صبح شام ایک ہی رٹ لگائے جا رہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اس وجہ سے کرنا پڑا کہ عمران خان حکومت آئی ایم ایف سے قیمتیں بڑھانے کا وعدہ کر کے گئی تھی۔ چلئے ایک لمحے کیلئے آپ کا یہ عذر تسلیم کر لیتے ہیں‘ تو کیا اس سے یہ مراد لیا جائے کہ آپ کو ملکی معیشت کا سرے سے کچھ علم نہیں تھا۔ پھر آپ نے اس سمندر میں چھلانگ کیوں لگائی؟ آپ نے تو گزشتہ کئی ماہ سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ اگر ہماری حکومت ہوتی تو تحریک انصاف کے برعکس تیل کی قیمتوں کو 70 روپے فی لٹر پر لے آتے۔ آپ دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ہمارے پاس ایک انتہائی تجربہ کار ٹیم موجود ہے‘ یہ تو نالائقوں کا ٹولہ ہے جو قوم کو مہنگائی کی چکی میں پیس رہا ہے۔ اب آپ ہر چیز پر سابق حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ کسی ملک کے وزرا اور وہ افراد‘ جنہیں قومی خزانے سمیت نظمِ حکومت چلانے کا چارج دیا گیا ہو‘ وہ ملک کو سنوانے کیلئے اپنے تجربے اور ذہانت کو کام میں لاتے ہیں‘ تہمتیں اور الزام تراشیاں کرنے کی روش نہیں اپناتے۔
اگر آپ ملکی حالات اور خزانے کی صورتحال سے بے خبر تھے تو پھر عمران خان کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کر کے ملک کو بند گلی میں کیوں دھکیلا۔ جب حکومت کی مقررہ مدت میں لگ بھگ سوا سال کا عرصہ رہ گیا تھا تو پھر عدم اعتماد کا ڈول کیوں ڈالا گیا؟ ایک جانب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لٹر کا اضافہ‘ اوپر سے گلگت‘ بلتستان کے عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھیننے کیلئے چار ارب روپے کی کٹوتی‘ کیا یہ غریب دشمنی نہیں؟ تیل اور ڈیزل میں تیس روپے فی لٹر اضافے کا نتیجہ یقینا کرایوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا، جس سے گلگت اور ہنزہ کا واحد ذریعۂ آمدن یعنی سیاحت کا شعبہ بھی متاثر ہو گا، جبکہ ان کو ملنے والا آٹا بھی دو گنا تک مہنگا کر دیا گیا ہے۔ کل جب رجیم چینج کی تاریخ لکھی جائے گی تو مؤرخ لکھے گا کہ رجیم چینج کے کرداروں کو کچھ بھی علم نہ تھا کہ وہ تخت طائوس پرکیوں بیٹھے ہیں۔ جب عمرا ن خان قوم کو بتا رہے تھے کہ ان کی حکومت نے تیل کی قیمتوں کو جون تک باندھ دیا ہے اور ان میں مزید کمی اس طرح کی جائے گی کہ روس سے تیل خریدا جائے گا جو عام مارکیٹ کے مقابلے میں تیس فیصد تک کم قیمت پر ملے گا جس سے ہمیں تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ چند ماہ بعد ان میں مزید کمی ہو جائے گی کیونکہ وہ گندم جو امریکا یا یوکرین سے زیادہ قیمت پر لینا پڑتی ہے‘ وہ بھی ہمیں روس سے عام مارکیٹ سے تیس فیصد کم نرخوں پر مہیا ہو گی‘ جس سے زرِ مبادلہ کی بچت ہو گی اور اس رقم کو ہم قوم کو ریلیف دینے میں استعمال کریں گے۔ اندازہ کیجئے کہ روس سے تیل اور گندم کی خریداری میں تیس فیصد کمی سے کس کو فائدہ ہونا تھا۔ کیا روس سے معاشی معاملات بڑھانے سے کچھ طاقتوں کے مفادات پر ضرب لگ رہی تھی؟
جب پی ڈی ایم کے تمام گھاگ اور تجربہ کار سیاستدان جانتے تھے کہ وہ امریکا کی ناراضی مول لے کر روس کے ساتھ معاملت نہیں کریں گے اور تیل کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کی وجہ سے ان کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا تو پھر اس ہرے بھرے گلستان کو کیوں اجاڑا گیا؟ ملک و قوم کی پوشاک درست حالت میں تھی‘ اگر اس میں چند شکنیں تھیں تو ان کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے اس لباس کو تار تار کیوں کیا گیا؟ جب پی ٹی آئی حکومت جلد انتخابات پر راضی ہو گئی تھی تو پھر چند ماہ مزید انتظار کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر اتنی جلدی کیا تھی؟ کیا آپ اپنے خلاف زیر سماعت مقدمات کو سمیٹنے کیلئے بے تاب ہوئے جا رہے تھے؟ اگر ملک کی معیشت ڈوبتی ہے یا اس ملک پر مزید کئی گنا غیر ملکی قرضہ لاد دیا جاتا ہے تو ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے تاریخ آپ کو کن الفاظ میں یاد رکھے گی؟ خدارا ملک و قوم پر کچھ رحم کھائیں۔ یہ ہم سب کا وطن ہے‘ چاند ماری کا میدان نہیں۔