کمال دیکھئے کہ پی ڈی ایم سرکار نے بیرونِ ملک سے موصول کوئی بھی شہادت قابلِ قبول تصور کرنے کے حوالے سے نیب قانون شق 21 ختم کر دی ہے جس سے درجنوں کیسز غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے۔ ایک اہم ترمیم جو نیب آرڈیننس میں تجویز کی گئی‘ بہت حیران کن ہے۔ اس کے مطابق نیب قوانین کے ترمیمی بل کا اطلاق جنوری 1985ء کے قوانین کے تحت ہو گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیب کا ادارہ 1999ء میں قائم ہوا تھا اور یہ قوانین اس وقت بنائے گئے تھے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم جماعتوں نے اقتدار ملتے ہی ایسی ترامیم کرا لی ہیں کہ ان کے اپنے دور میں ایک دوسرے کے خلاف قائم کردہ 90 فیصد سے زائد مقدمات ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس دوران قومی خزانے کی 12 کھرب روپے سے زائد رقم‘ جو ہضم کر لی گئی‘ کا احتساب کون کرے گا؟
ترمیمی بل میں ایک سے بڑھ کر ایک شقیں منظور کی گئی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ نیب لاء کے سیکشن چار میں کی گئی ترمیم کے ذریعے وفاقی اور صوبائی کابینہ، ایکنک یا کسی بھی ریگو لیٹری اتھارٹی کی جانب سے کیے گئے فیصلوں اور ٹھیکوں کو نیب کے دائرۂ اختیار سے باہر کھینچ لیا گیا ہے یعنی کرپشن کے لیے بظاہر میدان صاف کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم میں پخ یہ لگائی گئی ہے کہ ''مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں‘‘ وفاقی یا صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔ اب اس کا تعین کون کرے گا کہ کسی غلط فیصلے سے کوئی مالی فائدہ پہنچا یا نہیں؟ کون نہیں جانتا کہ ٹیکس رعایت اور سبسڈی کے نام پر کیے گئے اکثر فیصلوں کے نام پر ملک میں کیا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ ایک اور ترمیم ملاحظہ کیجیے؛ کہا گیا ہے ''چیئرمین نیب کی ریٹائرمنٹ پر ڈپٹی چیئرمین قائم مقام سربراہ ہوں گے جبکہ ڈپٹی چیئرمین کی عدم موجودگی میں ادارے کے کسی بھی سینئر افسر کو قائم مقام چیئرمین کا چارج ملے گا‘‘ یعنی چیئرمین کی غیر حاضری کی صورت میں اختیارات اس طرح تقسیم کر دیے ہیں کہ حکومت اگر چاہے گی تو یہ اختیارات کسی بھی سینئر افسر کے حوالے کر دے گی۔ نیب کے سیکشن پانچ میں کی جانے والی ترمیم کے بعد‘ نیب اور ملکی دولت کو لوٹنے والوںکو سزا نہیں دی جائے گی بلکہ ان کی خدمت کیلئے سرکاری اہلکاروں کو تعینات کیا جایا کرے گا۔ من مانی نیب ترامیم کے ذریعے اثاثہ جات کی تشریح کو بھی یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم سے قبل کسی بھی ملزم کے ڈائریکٹ‘ اِن ڈائریکٹ طور پر‘ اپنے نام، اہلیہ کے نام یا ملزم کے اہل خانہ اور ملازمین کے نام موجود جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کو اسی کے اثاثہ جات میں متصور کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ترمیم کر دی گئی ہے کہ اگر ملکی خزانے اور غربت کی مارے عوام کے ٹیکسوں اور دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور ساہوکاروں سے لیے گئے قرضوں کو چند ہزار افراد مل کر آپس میں بانٹنے کے بعد اسے کسی بے نامی، فالودے والے، پاپڑ والے، پنکچر والے یا کسی منشی اور چپڑاسی کے نام کر دیتے ہیں تو ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو سکے گی۔ صرف وہی اکائونٹس اور وہی جائیدادیں دیکھی جائیں گی جو ان کے اپنے نام پر ہوں گی۔ اس ترمیم کو غور سے پڑھئے تو صاف پتا چل جاتا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ کس کو پہنچا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
عمران خان گزشتہ تین برسوں سے ہر فورم پر واویلا کیے جا رہے تھے کہ ان سے ''این آر او ٹو‘‘ مانگا جا رہا ہے بلکہ کئی مرتبہ تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے سیا ست دانوں پر ہاتھ ہولا رکھیں اور انہیں ادھر‘ ادھر آنے جانے کی چھٹی دے دیں‘ اب ان سب افراد نے‘ جو اس وقت نیب کے ملزمان ہیں‘ از خود نیب قوانین میں ایسی ترامیم کر لی ہیں جن سے ان کے دامن پر کرپشن کیسز کی کوئی چھینٹ بھی باقی نہیں رہے گی۔ حالیہ ترامیم میں وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات کو بھی نیب کے دائرۂ اختیار سے نکال دیا گیا ہے جبکہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے یا سکیم میں بے قاعدگی بھی نیب کے دائرۂ اختیار میں نہیں آئے گی۔ اگر کوئی موٹر ویز اور بڑی شاہراہوں کا رخ اپنے علاقے‘ اپنی زمینوں کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس جواز کی بنا پر کہ اس سے کسی مالی فائدے کے ثبوت نہیں ملے‘ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ حالیہ ترامیم کے مطابق نیب گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب کورٹ میں پیش کرنے پابند ہوگا، کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہو سکے گی جبکہ نیب 6 ماہ کی حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا اور کسی بھی گرفتاری سے پہلے ہی تمام ثبوتوں کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی جبکہ ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کرکے 14دن کر دی گئی ہے۔ اگر نیب کیس ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے یا ریفرنس جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو متعلقہ نیب افسر کو پانچ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ اس سے بڑی سکھا شاہی اور کیا ہو سکتی ہے؟ ایسے قوانین کرپشن زدہ معاشروں میں ہی بن سکتے ہیں‘ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہ ترمیم بھی منظور کی گئی ہے کہ چیئرمین نیب کسی بھی ملزم کو سلطانی گواہ بننے کے وعدے پر معافی دینے کا اختیار رکھتے ہوں گے۔ ملزم کیس سے متعلق شواہد اور مکمل حقائق فراہم کرے گا جبکہ چیئرمین کو انکوائری اور انویسٹی گیشن یا دورانِ ٹرائل معافی دینے کا مکمل اختیار ہو گا۔ آج کی نسل یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ اگر یہ ملک چند سیاسی گھرانوں کا ہے تو پھر اسے بائیس کروڑ عوام کا ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ ان چند گھرانوں کو کیا مکمل چھٹی ہے کہ ملک و قوم کو وہ جس طرح چاہیں‘ لوٹیں؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ وہ لوگ جو خود ملزم ہوں اور کیسز بھگت رہے ہوں‘ وہ انہی قوانین میں ترمیم کر دیں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جیلوں میں قید مجرم ہی جیل کا ضابطہ اور قوانین تشکیل دیں؟ کیا ایسے گروہ سے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اگر تمام قانون سازی ایک مخصوص ٹولے کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرنی ہے تو پھر ''مٹی کے یہ بندے‘‘ کیوں ہیں؟ اس گھر کو آگ اس میں جلنے والے چراغ ہی نے آگ لگائی ہے‘ کسی اور سے کیا شکوہ۔ عمران خان کو نکالتے وقت شاید ان سب نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو چاہو کرو‘ جتنا لوٹنا ہے لوٹ لو‘ گزشتہ تیس چالیس برسوں کی کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ بھی پوری کر لو‘ اب کی بار کوئی پوچھنے والا‘ کوئی ٹوکنے والا نہیں ہو گا۔ جس طرح کا چاہتے ہو قانون بنا لو‘ وہ قانون جس سے پکڑ ہو سکتی ہے‘ جس سے لوٹی دولت کے انبار واپس لیے جا سکتے ہیں‘ ان تمام کو فوری طور پر ختم کر دو۔
وہ لوگ‘ چند ہفتے قبل تک جو فردِ جرم عائد کیے جانے کے حوالے سے عدالتوں کا چکر لگا رہے تھے‘ اب خود اپنی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ غفلت کے مارے ہم انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنی بساط کے مطابق ایک تدبیر کر سکتے ہیں اپنی تقدیر کے فیصلوں کو نہیں ٹال سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے قوانین اٹل ہیں۔ انسان جو کچھ بھی کرے گا‘ جلد یا بدیر اس کا صلہ اسے مل کر رہے گا۔ شریعت میں اسی لیے سب سے زیادہ لوٹ مار، کرپشن، ناجائز منافع خوری، رشوت اور ایسی دوسری کمائیوں سے منع کیا گیا ہے اور انہیںجہنم کی آگ قرار دیا گیا ہے جو ہم اپنے پیٹ میں بھر رہے ہوتے ہیں۔ ججز بحالی تحریک میں اعتزاز احسن کی ایک نظم خاصی مشہور ہوئی تھی جس میں ایک مثالی ریاست کا خواب دکھایا گیا تھا۔ ''ریا ست ہو گی ماں کے جیسی‘‘، کیا دھرتی ماں کو لوٹنے کھسوٹنے والوں کو کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے؟ جو کوئی بھی آج یہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ محفوظ ہو گیا ہے، اب کوئی اس سے لوٹ مار اور کرپشن کا پیسہ نہیں نکلوا سکتا، بس اتنا یاد رکھ لے کہ یہ پاکستان اپنی ابتدا سے اب تک‘ شہیدوں کا وطن ہے۔ اس پر قربان ہونے والی لاکھوں مائوں، بہنوں، بیٹیوں، نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ یہ سب لا الہ الا اﷲ پر قربان ہوئے اور خدا کی عدالت میں چوری‘ ڈاکے‘ لوٹ مار‘ قبضہ گیری‘ کرپشن‘ کمیشن اور کسی بھی دیگر ناجائز طریقے سے غریب اور بے بس عوام کی دولت لوٹنے والوں کے لیے کوئی معافی نہیں ہے۔ شاید وہ اس دنیا کے قانون سے بچ نکلیں مگر وہاں ان کے لیے فردِ جرم تیار ہو رہی ہے۔