''نیب کے دانت نکال دیے گئے ہیں‘‘۔ ان نعروں کی گونج میں ایک جانب مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے والوں کے گروہ آ جا رہے تھے تو دوسری جانب لاہور کی ایک مارکیٹ میں دھماکا سا ہوا اور ایک دکان کی بجلی بند ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ میٹر جل گیا ہے۔ عید سر پر تھی سو صارف اسی وقت متعلقہ دفتر پہنچا۔ وہاں اس کی شکایت سننے کے بعد اسے بتایا گیا کہ اس وقت نئے میٹر دستیاب نہیں ہیں، آپ درخواست دے دیں‘ جیسے ہی نئے میٹرز آئیں گے‘ آپ کا میٹر تبدیل کر دیا جائے گا۔ دو‘ تین بڑے افسران کے پاس بھی اس شخص نے اپنی فریاد پہنچائی مگر ہر جگہ یہی جواب ملتا رہا کہ آپ درخواست دے دیں‘ جلد ہی میٹر تبدیل کر دیں گے۔ مصروف مارکیٹ کی دکانداری اور شدید گرمی کا موسم۔ آخر کار ایک اہلکار نے سمجھایا کہ منت سماجت سے یہ کام نہیں ہونے والا‘ اگر خرچہ پانی دو تو تمہارا میٹر ابھی لگا دیں گے۔ بالآخر معاملہ 30 ہزار روپے میں طے پا گیا اور اسی دن شام کو اہلکار آئے اور نیا میٹر لگا گئے۔
یہ کسی ایک دکاندار یا کسی ایک شخص کی داستان نہیں۔ آج‘ کل اور گزشتہ کئی برسوں‘ کئی دہائیوں سے یہ ہر اس پاکستانی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے‘ جو اپنے جائز کام کیلئے بھی رشوت دینے پر مجبور ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ کسی کو یہ ڈر اور خوف ہی نہیں کہ کوئی اس کی باز پرس بھی کر سکتا ہے۔ اینٹی کرپشن، ایف آئی اے یا دیگر محکموں کے اہلکار کبھی کبھار کسی کو اس کی کسی گستاخی کی سزا دینے یا اپنی سالانہ کارکردگی کا گراف بڑھانے کے لیے کوئی کارروائی کر لیں تو وہ الگ بات ہے وگرنہ کسے معلوم نہیں کہ کس محکمے میں کس کام کا کتنا ریٹ مقرر ہے۔ شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ بنوانے سے لے کر گھر‘ مکان کا نقشہ پاس کروانے تک‘ ہر چیز کا ایک ریٹ مقرر ہے۔ اگر آپ یہ نذرانہ جو کہیں چائے پانی کے نام سے تو کہیں مٹھائی کے نام پر لیا جا رہا ہے‘ دینے سے انکار کریں تو ممکن ہی نہیں کہ آپ کی فائل آگے بڑھ سکے۔ پانچ‘ سات سال پہلے ایک صاحب نے اپنی فیکٹری کے لیے گیس کے میٹر کی درخواست دی تو معاملہ ''مٹھائی‘‘ پر آ کر رک گیا۔ وہ سیاسی اثر و رسوخ والے صاحب تھے‘ انہوں نے فوری طور پر اس وقت کے وفاقی وزیر پٹرولیم سے رابطہ کیا اور سارا قصہ ان کے گوش گزار کیا۔ وزیر صاحب نے متعلقہ محکمے کے اعلیٰ افسران کی سرزنش کرتے ہوئے فوری طور پر رولز کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا مگر میٹر نہ لگ سکا۔ پھر دوبارہ انہیں بتایا گیا تو بولے کہ آپ کو سسٹم کا پتا ہے‘ اگر نذرانہ نہیں دیں گے تو کام نہیں ہو گا۔ میں نے خود اپنا میٹر بھی نذرانہ دے کر لگوایا ہے۔ اگر کام کا مزید حرج نہیں چاہتے تو جو طریقہ چلا آ رہا ہے‘ فوری طور پر اس کے ذریعے معاملہ نمٹائیں۔ اور پھر ''مٹھائی‘‘ دینے کے بعد ہی ان کا میٹر لگ پایا تھا۔
حالات اس نہج تک ایک دن میں نہیں آئے۔ کسی بھی سرکاری ادارے کے ماتحت ملازمین کو اگر یہ یقین ہوتا کہ کرپشن کی انہیں بدترین سزا ملے گی‘ ان کے افسران کو یہ خوف ہوتا کہ ماتحت عملے کی کرپشن میں انہیں حصہ دار سمجھا جائے گا تو انہیں ہر صارف اور ہر سائل کو آفس کے باہر ہی سے دھتکارنے کی عادت ہوتی؟ کسی بھی سرکاری کام یا گیس، پانی اور بجلی کے میٹر لگانے والوں سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات تک اگر احتساب کا خوف ہوتا تو کسی بھی جگہ میٹر ختم ہونے کے بہانے نہ بنائے جاتے۔ کسی بھی عوامی بھلائی سے متعلقہ اداروں کے صارفین کو اگر یقین ہو کہ حکومتی اہلکاروں کو رشوت دینے یا سفارش کے بجائے ان کے کام میرٹ پر ہوں گے تو وہ رشوت کے بجائے پورا ٹیکس دیں اور اگر انہیں پکڑے جانے اور احتساب کا خوف ہو تو وہ بجلی و گیس چوری جیسے اقدامات سے بھی دور رہیں مگر سب کو پتا ہے کہ ایسے دھندے اوپر سے نیچے تک‘ سب کی ملی بھگت اور اشیرباد سے ہوتے ہیں۔ اہلکاروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفرز بھی اقربا پروری اور پسند و ناپسند یا حصہ بقدر جثہ دینے کے بجائے صرف قابلیت اور اہلیت پر کیے جائیں تو تمام کرپٹ اہلکار ر شوت اور کمیشن کا ڈھیر لگانے سے قبل سو د فعہ سوچیں۔ جب مجھے اور آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ اب سب کچھ میرٹ پر ہو گا‘ قانون کا ڈنڈا سب پر برابر برسے گا تو پھر نہ تو روز روز بجلی، گیس و پانی کے میٹر خراب ہوں گے‘ نہ میٹر ختم ہونے کی باتیں کی جائیں گی اور نہ ہی صاحب کے دفاتر کے باہر سائل دھکے کھاتے نظر آئیں گے!
عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے اور دورانِ اقتدار بھی ہر میڈیا ٹاک، پریس کانفرنس اور جلسوں میں کرپشن کے خلاف واضح موقف اپناتے نظر آتے تھے۔ اب رجیم چینج کے بعد وفاقی وزرا کے بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ خان صاحب کے اقتدار کا خاتمہ ان کے اسی نعرے اور ضد کی وجہ سے ہوا۔ انہیں بار بار کہا گیا بلکہ بہت سے حلقوں نے پیغامات بھجوائے کہ اس موضوع کو اب ختم کر کے اپوزیشن سے بات چیت کر کے سیاسی استحکام کو بڑھایا جائے لیکن وہ این آر او نہ دینے کے موقف پر ڈٹے رہے اور پھر اسی موقف اور چند دوسری وجوہات کی بنا پر اقتدار سے باہر کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب ترمیمی بل کے ذریعے نیب اور احتساب کے قانون کو بے اثر کر دیا گیا ہے۔ اب نیب قوانین کو بالکل بے ضرر بنا دیا گیا ہے۔ ملزمان کو باعزت رہا کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اب نہ تو کسی کو کوئی یہ پوچھ سکے گا کہ اپنی تنخواہ سے میل نہ کھانے والے اثاثے اس نے کیسے بنائے اور نہ ہی کسی سے لوٹ مار کر کے اندرون و بیرونِ ملک پراپرٹیز بنانے پر پوچھ گچھ ہو سکے گی بلکہ وہ تمام افراد جنہوں نے اپنے کے بجائے اپنی فیملی اور رشتہ داروں کے ناموں پر جائیدادیں بنا رکھی ہیں‘ اب ان سب کو کلین چٹ دی جائے گی۔ عوام کو عزت کی روٹی اور روزگار چاہئے، انہیں صاف پانی اور سستا و جلد انصاف چاہئے، ملک بھر کے ہسپتالوں میں صحت کی بہتر سہولتوں سمیت بچوں کیلئے معیاری تعلیم چاہئے، سرکاری دفاتر میں عزتِ نفس کا تحفظ چاہئے، انہیں بجلی‘ پانی اور گیس کے بوگس بل نہ بھجوائے جائیں، ان پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے نت نئے حربے نہ آزمائے جائیں، انہیں کہیں آنے جانے کیلئے کسٹم و امیگریشن جیسے محکموں کی چال بازیوں سے بچایا جائے۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیلئے عورتوں اور بوڑھوں کو شدید سردیوں اور آگ برساتی گرمیوں میں ایجنٹوں سے مک مکا نہ کرنے پر گھنٹوں قطاروں میں نہ لگنا پڑے۔ کسانوں کو جعلی ادویات اور مہنگی بجلی، بیج اور کھاد کی قلت سے بچایا جائے۔
وفاقی وزرا فرما رہے ہیں کہ کئی ملکوں میں پاکستان سے زیادہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود وہ ترقی کر رہے ہیں۔ ایسے میں عرض ہے کہ جتنی چاہے کرپشن ہو‘ بس اتنا خیال رہے کہ اس لوٹ مار کے بدلے متوسط و نچلے طبقے اور سفید پوش حضرات کے گھروں‘ پلاٹوں اور زمینوں پر قبضے نہ کیے جائیں۔ انہیں فصلوں کیلئے پانی اور پٹواری کے رگڑے سے بچایا جائے۔ سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی بات کریں تو صرف لاہور‘ کراچی جیسے بڑے شہروں کے سکولوں کی بات نہ کریں بلکہ ان بچوں کا سوچیں جو نیم شہری اور دیہی علا قوں میں خانہ بدوشوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، تھانوں اور متعلقہ دفاتر میں غریب کی عزت تو دور‘ اس پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ہی کچھ کمی کرا دیں۔ عمران خان کونجانے کیوں یہ ضد تھی کہ کرپشن ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کرپشن کرنے والے کو اس بات کا پختہ یقین ہو جائے کہ اسے کسی بھی سفارش اور دبائو کی پروا کیے بغیر پکڑ لیا جائے گا‘ اسے نہ صرف سزا ہو کر رہے گی بلکہ کرپشن سے بنائی جانے والی تمام جائیداد بھی بحق سرکار ضبط کر لی جائے گی تو کون سا محکمہ یا کون سا اہلکار کرپشن کی ہمت کرے گا۔ اگر آج ہم فیصلہ کر لیں کہ کرپشن پر بیس‘ تیس سال کی سزا‘ بغیر کسی تفریق کے ہو گی تو پھر کوئی بھی چائے پانی اور مٹھائی کے نام پر عوام کے جائز کاموں میں رخنہ نہیں ڈالے گا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ سرکار کے بنائے جانے والے پلوں، عمارات اور ہر قسم کے پروجیکٹس کے اخراجات نصف ہو جانے سے ملکی خزانہ خالی نہیں رہے گا لیکن اس کیلئے کرپشن کے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔