"MABC" (space) message & send to 7575

خزانہ بھرنے والے

خدا نہ کرے اگر کسی وقت‘ کسی بھی لمحے اوور سیز پاکستانی کسی وجہ سے صرف ایک ماہ کیلئے اپنے عزیزوں اور فیملی کو بھیجے جانے والے ڈالرز یا کسی بھی شکل میں غیر ملکی کرنسی بھیجنے سے ہاتھ کھینچ لیں تو اندازہ کیجئے کہ کیا ہو گا۔ ایسی صورت میں ملک کی معیشت اور دنیا میں ہماری پوزیشن کس قدر کمزور اور نازک ہو سکتی ہے‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اوور سیز پاکستانی وطن کی محبت سے سرشار اپنی سالہا سال کی محنت سے کمائی ہوئی دولت سے پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی کوشش کرتے ہیں مگر یہاں انہیں جن تلخ حالات اور مشکلات کا شکار ہونا پڑتا ہے‘ اس سے وہ آئندہ کیلئے سرمایہ کاری سے توبہ تو کرتے ہی ہیں‘ ساتھ ہی ساتھ پاکستان سے واپس جا کر وہ خود پر بیتی داستان اس درد بھرے انداز میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو سناتے ہیں کہ اس سے دوسرے لوگ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری تو دور کی بات‘ یہاں واپس آنے کے خیال سے بھی توبہ کر لیتے ہیں۔
قریب ایک دہائی کی بات ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کی ''گڈ گورننس‘‘ کے گن گائے جاتے تھے۔ انہی دنوں ایک اوور سیز پاکستانی نے‘ جو کئی سال سے امریکا اور جاپان میں کاروبار کر رہا تھا‘ شیخو پورہ میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچا۔ جونہی اس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ایک شاندار پلازہ بنایا اور اس میں ایک ریسٹورنٹ کا آغاز کیا تو اسے ایک پرچی بھیجی گئی جس میں لکھا تھا: فوری طور پر پانچ لاکھ روپیہ ادا کریں اور آپ کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ جب بھی ہمارے آدمی آپ کے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کیلئے آئیں‘ ان کا خصوصی خیال رکھا جائے‘ وہ جو بھی کہیں‘ ان کی فرمائش کو پورا کرنا ہو گا اور ان سے کبھی بھی‘ کسی بھی قسم کی کوئی رقم مانگنے کی غلطی نہ کرنا ورنہ انجام بہت برا ہو گا۔ اگر اس ریسٹورنٹ کو چلانا چاہتے ہو تو خاموشی سے ہمارے ہر حکم کی تعمیل کرنا ہو گی‘ دوسری صورت میں تمہیں اور تمہارے اس ریسٹورنٹ اور پلازے کو جلا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا جائے گا۔ یہ بھتہ پرچی شیخوپورہ کے ایک پلازے اور جدید ترین ریسٹورنٹ کے مالک‘ جس کا بزنس امریکا اور جاپان میں پھیلا ہوا تھا‘ کو ملی تو وہ پریشان ہو گیا۔
پلازے کا مالک آبائی طور پر شیخوپورہ کا رہائشی تھا اور وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنے کیلئے دو ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کرتے ہوئے اس نے شیخوپورہ میں ایک خوبصورت اور نفیس قسم کا ریسٹورنٹ تعمیر کیا تھا۔ جب پہلی دفعہ بھتہ ادائیگی کا خط موصول ہوا تو اس نے اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب میں گورننس کی صورتحال باقی ملک کی نسبت بہتر ہے جبکہ شہباز شریف حکومت سرمایہ کاری کیلئے اوور سیز پاکستانیوں اور غیر ملکی کمپنیوں کو پنجاب میں نئی صنعتیں لگانے اور کاروباری دفاتر کھولنے کی دھڑا دھڑ ترغیبات دے رہی تھی لیکن چند دن بعد جب بھتہ پرچی خوفناک قسم کی دھمکیوں کے ساتھ دوبارہ ملی تو کچھ پریشانی لاحق ہوئی۔ اس شخص نے مقامی پولیس کو با قاعدہ آگاہ کر تے ہوئے مقامی تھانے میں بھتہ پرچی پھینکنے والے گروپ کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دی جس پر متعلقہ پولیس نے نامزد تین افراد کو‘ جو ریسٹورنٹ میں بیٹھے غنڈہ گردی اور سینہ زوری سے مفت کے کھانے اڑا رہے تھے‘ گرفتار کر لیا۔
بھتہ خور گروپ کے سربراہ کو جونہی ایف آئی آر اور اپنے آدمیوں کی گرفتاری کی خبر ہوئی تو اس نے آئو دیکھا نہ تائو‘ ریسٹورنٹ پر دن دہاڑے دھاوا بول دیا۔ سامان کی توڑ پھوڑ کے علاوہ اس شخص کو بھی مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھتہ گروپ کا سرغنہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کو لے کر تھانے میں گیا اور اپنے آدمیوں کو تھانے سے چھڑوا کر واپس ریسٹورنٹ میں آیا اور زخموں سے چور اس شخص کو کہنے لگا کہ دیکھ لو! یہی وہ لوگ ہیں جنہیں تم نے گرفتار کرایا تھا۔ اگر ہم چاہیں تو یہاں کا کوئی ڈاکٹر تمہارے زخموں کاعلاج کرنے کی ہمت بھی نہ کرے۔ ابھی تو ہم نے تمہاری تھوڑی سی مرمت کی ہے‘ اب تمہاری ہڈیاں توڑیں گے۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو ہمارے ہر حکم کی تعمیل کرتے جائو ورنہ تمہارا یہ ریسٹورنٹ جلا کر راکھ کر دیں گے۔ یہ دھمکیاں سن کر وہ شخص‘ جو پہلے ہی جان کنی کی حالت میں تھا‘ سن ہو کر رہ گیا۔ وہ جان چکا تھا کہ اب پولیس بھی کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ ان مقامی غنڈوں کو کچھ اعلیٰ افسران کی حمایت حاصل تھی۔ اعلیٰ افسران کی حمایت بھی شاید اس وجہ سے حاصل تھی کہ اس گروپ کو ایک مقامی اور انتہائی بااثر سیاستدان کی مکمل اور بھر پور اشیرباد حاصل تھی۔
پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے چند بلین ڈالر قرض لینے کی خاطر‘ ایک ایک ڈالر کے بدلے ان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایک‘ دو بلین ڈالر قرض دینے سے پہلے اس قدر سخت شرائط سامنے رکھی جاتی ہیں کہ پوری پاکستانی قوم کو لمحہ لمحہ دانتوں پسینہ آ تا رہتا ہے۔ اپنی اقتصادی پالیسیوں کو ان کے پاس گروی رکھنا تو ایک طرف‘ ان کے کہنے پر کئی خارجہ معاملات تک کو دائو پر لگا دیا جاتا ہے۔ اپنے ملک کے عوام پر بھاری ٹیکسز لگانا پڑتے ہیں۔ پانی‘ بجلی اور گیس کو مہنگا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے محسن اوور سیز پاکستانی‘ جو ہر مہینے دو بلین ڈالر سے بھی زیادہ زرمبادلہ اپنے وطن بھیجتے ہیں‘ انہیں اپنے ملک کے سفارت خانوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں، انہیں بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ دینے کے بجائے ان کی بات سننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ یہی پاکستانی جب وطن واپسی پر ایئر پورٹس پر اترتے ہیں تو انہیں امیگریشن سے کسٹم تک جگہ جگہ توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کس قدر تضاد ہے کہ قرض مع سود وصول کرنے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے جب ایئر پورٹ پر پہنچتے ہیں تو ان کے سو سو نخرے اٹھائے جاتے ہیں‘ ان کے دروازوں پر ہاتھ جوڑے گھنٹوں بیٹھ کر ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ان کی چاپلوسی کی جاتی ہے لیکن ہر مہینے دو بلین ڈالر بھیجنے والے اوور سیز کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ہے۔ ایک‘ دو بلین ڈالر قرض دینے والے آئی ایم ایف کے چھوٹے سے چھوٹے افسر کے پاکستان میں سو سو نخرے اٹھائے جاتے ہیں‘ اسے ریاستی سربراہ کے لیول کا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس کے راستوں میں لوگ ہاتھ باندھے اور آنکھیں بچھائے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں لیکن جب دو بلین ڈالر وطن بھیجنے والے ہم وطن پاکستان واپس آتے ہیں تو مقامی سیاستدانوں سے پولیس تک‘ ہر کوئی ان کے جان و مال کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس بات کو اب چند سال بیت چکے ہیں لیکن جس دکھ‘ کرب اور آنسوئوں سے ان صاحب کو گزرنا پڑا، جس طرح وہ پاکستان سے بھاگے وہ ایک طویل اور الم ناک داستان ہے۔ نہ صرف اپنی بلکہ اپنی فیملی کی جان کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنا سب کچھ اونے پونے داموں بیچ کر راتوں رات یہاں سے جانا پڑا۔ امریکا جانے والے جہاز میں سوار ہونے تک انہیں کس دکھ اور اذیت سے گزرنا پڑا‘ وہ آج بھی یہ سب کچھ نہیں بھولے۔ جب وہ جہاز میں بیٹھ کر اپنی سیٹ بیلٹ باندھ کر شیشے سے باہر دیکھ رہے تھے تو ان کا دل مسلسل رو رہا تھا اور جیسے ہی جہاز نے ٹیک آف کیا تو انہوں نے اپنی نم آنکھوں سے وطن کی مٹی کو دیکھتے ہوئے مدھم سی آواز سے کہا ''اے وطن میں تمہیں سنوارنے کیلئے اپنے برسوں کے کمائے ہوئے دو ملین ڈالر ساتھ لایا تھا مگر اب سب کچھ گنوا کر خالی ہاتھ واپس جا رہا ہوں‘‘۔
یہ محض ایک شخص کی کہانی نہیں ہے۔ یہاں قدم قدم پر ایسی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ہر دوسرے اوور سیز کی یہی کہانی ہے۔ جو کوئی ایئر پورٹ پر پہنچا‘ کسی کو کسٹم تو کسی کو امیگریشن عملے نے لوٹ لیا۔ جو ان سے بچ کر آگے نکلا وہ کبھی ڈاکوئوں کی وارداتوں کا نشانہ بنا اور کبھی اپنوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوا۔ جس کسی نے یہاں پیسہ لگانے کا سوچا‘ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا کہ وہ پھر وطن واپسی کے خیال سے بھی کانپنے لگا۔ کاش کبھی ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بجائے ان خزانہ بھرنے والوں پر بھی متوجہ ہوں۔ انہیں بھی ایسی سہولتیں فراہم کریں کہ وہ اپنے سرمائے کے ساتھ مادرِ وطن کی طرف کھنچے چلے آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں