ملک کی سیاست جس ڈھب سے چل رہی یا چلائی جا رہی ہے‘ ہر محب وطن پاکستانی اس پر فکر مند ہے۔ ایک بحران ٹلتا ہے تو دوسرا سر اٹھانے لگتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ایک بحران ختم ہوتا ہے تو جان بوجھ کر اور اپنی کوششوں سے دوسرا بحران کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ ایک دائرے کا سفر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس وقت باخبر حلقوں میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ حکومت نے انتخابی دوڑ سے عمران خان کو نااہل کرنے یا کرانے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ ہر روز زہر افشانی کرتی وزرا کی پریس کانفرنسز اس خدشے کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ لیکن کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟ یہ تو اب سب پر واضح ہو چکا ہے کہ حکومتی اتحاد میں کوئی ایسا رہنما یا کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جو اس وقت عمران خان کا مقابلہ کر سکے۔ عمران خان کی ہر روز بڑھتی مقبولیت سے خوفزدہ طبقہ لیلائے اقتدار کو ہم نشین رکھنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا ارادہ کر چکا ہے۔ میں اپنی معلومات کی بنا پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسے ہی اس کاا علان ہو گا ‘اوور سیز پاکستانی چند ماہ کیلئے اپنی رقوم روک لیں گے۔ اس وقت اوورسیز پاکستانیوں میں موجودہ حکومت کے حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گو کہ یہ انتہائی اقدام ہو گا جس کا نقصان حکومت سے زیادہ ملک کو پہنچے گا لیکن جب حکومت ہی ملک کے درپے ہو جائے اور ہر وہ اقدام کرنے پر مصر ہو جس کا نقصان ملک کو پہنچنے کا اندیشہ ہو تو کسی اور سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے؟ اوورسیز کے معاملے میں حکومت کی جانب سے جس عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی کی ترجیحات میں اوورسیز دور دور تک موجود نہیں ہیں۔ پہلے اوور سیز کو ان کے ووٹنگ کے بنیادی حق سے محروم کیا گیا، پھر الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے میں انہیں غیرملکی قرار دے کر ان کی حب الوطنی کو مشکوک بنایا گیا۔ (اطلاعات ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو قانونی نوٹس ارسال کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق ختم کرنا ملکی قانون کی خلاف وزری ہے۔ الیکشن کمیشن نے دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو نان پاکستانی ڈکلیئر کیاجس سے دہری شہریت رکھنے والے افراد کی توہین ہوئی) اب اوورسیز پاکستانیوں کی تحریک انصاف کو فنڈنگ کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف پر پابندی اور عمران خان کی انتخابی سیاست کو ختم کرنے کا اقدام کیا جا رہا ہے لیکن شاید حکومت کو ادراک ہی نہیں کہ اس اقدام پر اوورسیز کی جانب سے ایسا ری ایکشن آئے گا کہ ملکی معیشت زمین بوس ہو جائے گی اور پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے قرض پیکیج بھی بے بس ثابت ہوں گے۔ اس نازک ترین معاشی صورتحال میں حکومت کی جانب سے جس طرح انتشار کی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ عمران خان کے بغیر اگلی حکومت میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی خاندان کے درمیان تقسیم کا فارمولا بھی بنایا جارہا ہے۔ چند دنوں سے رائیونڈ اور اسلام آباد میں واقع ایک گھر کی راہداریوں اور محفوظ و مضبوط کمروں سے ایسی سرگوشیاں مسلسل بلند ہو رہی ہیں کہ دیگر پارٹیوں کے فنڈنگ کیس میں نہ تو اکائونٹس کی چھان بین ہو گی اور نہ ہی انہیں تفتیش کے لیے بلایا جائے گا اور اس طرح اگلے عام انتخابات سے قبل ہی میدان سے عمران خان کو باہر کر دیا جائے گا۔
انسان تہذیب کے خواہ کتنے ہی مراحل طے کر جائے‘ یہ حقیقت ہے کہ اس کے آباد کیے گئے معاشروں میں جنگل کا قانون کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ کمزوروں کی زندگیوں کو آسان تر بنانے کی کوششیں کسی مثالی معاشرے میں تو شاید ممکن ہوں مگر معروضی حقائق کی جس دنیا میں ہم رہتے ہیں‘ وہاں ان کا گزر بھی کہیں نظر نہیں آ تا۔ حکومتی رویوں اور عزائم سے یوں لگتا ہے کہ جیسے مقابل عمران خان کی ذات نہیں بلکہ کوئی دشمن ریاست ہے جسے نیست و نابود کرنے کیلئے ہر ممکن حربہ اپنایا جا رہا ہے۔ کسی فرد‘ گروہ یا قوم میں اجتماعی طور پر بھی کوئی کمزوری ہو سکتی ہے مگر رائج قوانین کی جانبداری یا کمزور کے مقابل کسی قوت کی پذیرائی جنگل کے قانون کی آبیاری کرتی ہے۔17 جون 2014ء کو وزیر اعظم پاکستان کی رہائش گاہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر نما کیمپ آفس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر چودہ افراد کو قانون اور اختیارات کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور جنگل کا قانون یہ ہے کہ بزور طاقت کمزوروں کے بہائے گئے لہو کی داد رسی کے بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔ ورثا انصاف اور قانون کی دہلیز پر اپنی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی بھی نامزد ملزم کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی دکھائی دے رہی ہو؟
نیوز لیکس کی بات کریں تو ملک و قوم کوایسے سنگین الزامات عائد کیے گئے کہ عالمی سطح پر ملک اور ریاستی اداروں کی بدنامی ہوئی مگر مجال ہے کہ اصل ذمہ داروں کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہو۔ اٹارنی جنرل صاحب ابھی حال ہی میں لندن جا کر میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار سے طویل ملاقاتیں کر کے آئے ہیں۔ ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اٹارنی جنرل کی لندن یاترا کی خبریں شائع و نشر کی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ملکی عدالتوں میں طبی بنیادوں پر علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے اور چند ہفتوں بعد واپس آنے کا حلف نامہ جمع کرانے والے شخص سے ملک کا وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور اٹارنی جنرل جیسے اہم عہدیدار کیوں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔پنجاب سمیت کسی بھی صوبے کی پولیس کا ریکارڈاٹھا کر دیکھ لیں۔ کسی بھی عزت دار شہری کے گھر میں دیواریں پھلانگ کر گھسنے اور اس کے گھر کے دروازے توڑنے والے اہلکار یہی کہتے ملیں گے کہ اطلاع ملی تھی کہ اس گھر‘ دفتریا چار دیواری میں اشتہاری پناہ لیے ہوا تھا لیکن اگر اشرافیہ کا کوئی نمائندہ کسی سنگین مقدمے میں اشتہاری قرار دے دیا جائے تو نہ صرف وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ میں آ کر ووٹ ڈالنے کے لیے اس کو راستہ فراہم کیا جاتاہے بلکہ وزیراعظم سمیت پوری کابینہ کو وہ اپنی رہائش گاہ پر بھی طلب کر سکتا ہے۔ مزے کی بات دیکھیے کہ پہلے کچھ مخصوص کرداروں کو ایف آئی اے میں ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور پھر ایک اہم سیاسی کیس کی تفتیش انہیں سونپ دی جاتی ہے۔ جس کی آگ اگلتی توپیں کبھی خاموش نہ ہوتی ہوں‘ اس وزیر کے ماتحت اداروں سے عدل و انصاف کی توقع وابستہ کی جا سکتی ہے؟ تیز رفتاری کا عالم دیکھئے کہ ایک دن کیس سپرد کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اگلے ہی دن سابق سپیکر قومی اسمبلی کو تفتیش کیلئے طلب کر لیا جاتا ہے اور پھر وزیر موصوف ٹی وی پر آ کر فرماتے ہیں کہ اداروں کے ساتھ تعاون نہ کرنے یا پیش نہ ہونے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ پوری قوم کو علم ہو چکا ہے کہ حکومت کے عزائم کیا ہیں‘ اگر حکومت فیصلہ کر ہی چکی ہے تو پھر اتنا تردد کیوں؟ صاف صاف ایگزیکٹو آرڈر صادر کر دیا جائے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری کے احکامات بھی تیار ہو چکے ہیں مگر پولیس اور ریاستی اداروں کے کچھ باضمیر افسران کے پس و پیش پر حکومت اب کسی نئی حکمتِ عملی پر غور کر رہی ہے۔ راقم کئی ایسے افسران کو برسوں سے جانتا ہے جو انتہائی شریف اور انکساری سے بات کرنے والے ہیں۔ یہ ان کی عادت ہی نہیں کہ حکومت کے کہنے پر کوئی غیر قانونی اقدام کریں یا حکومت کی خوشنودی کے خواہاں ہوں۔ بے شمار افسران ہیں کہ جن کی ایمانداری کسی شک و شبہ سے با لا تر ہے اور اپنے سابقہ ریکارڈ کو گہنانے کے بجائے جو قانون و انصاف کے ہمراہ کھڑے ہوں گے مگر حکومت بہرطور اپنے راستے سے کانٹا چننا چاہتی ہے۔ ہر روز درجن بھر وفاقی وزرا کی یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسز کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ پہلے ہی ایک گرائونڈ بنا دی جائے اور ایسے کیسز‘ جن کا حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے‘ کو بنیا دبنا کر عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔