"MABC" (space) message & send to 7575

فیصلہ اور سرٹیفکیٹ

کسی کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ مجھے‘ آپ کو یا کسی بھی پاکستانی کو بلا تحقیق غیر ملکی قرار دے؟ اور وہ بھی کسی استعارے یا اشارے سے نہیں بلکہ ایک ایسے فیصلے کی آڑ میں‘ جس کا دنیا بھر میں انتظار کیا جا رہا تھا۔ الیکشن کمیشن کے تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر ہر روز نئی چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ کئی ایسی کمپنیاں اور ایسے افراد‘ جنہیں غیر ملکی قرار دیا گیا ہے‘ سوشل میڈیا پر نہ صرف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں بلکہ کچھ افراد نے اب الیکشن کمیشن اور الیکشن کمیشن کے اراکین کو نوٹس بھی بھجوا دیا ہے کہ وہ انہیں غیر ملکی قرار دینے پر معذرت کریں بصورتِ دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کا اس حوالے سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ اس نے نادرا کے ڈیٹا کی بنیاد پر ان افراد کو غیر ملکی قرار دیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ایک نیا سیکنڈل کھل جائے گا کیونکہ پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا نادرا کے ڈیٹا میں چھیڑخانی کی گئی یا الیکشن کمیشن کو ایسا ڈیٹا فراہم کیا گیا جس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو نقصان پہنچانا مقصود تھا۔ اگر واقعی نادرا نے ایسے افراد کو غیر ملکی قرار دیا تھا تو الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ نادرا کے ریکارڈ پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگیں گے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ چونکہ عمران خان نے غلط بیانِ حلفی الیکشن کمیشن میں داخل کرایا‘ لہٰذا وہ آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سرٹیفکیٹ کو بیانِ حلفی سے خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف‘ یہاں پر بجا طور پر یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے آڈیٹرز کی تیار کی گئی اکائونٹس شیٹ پر دستخط کر کے غلط بیانی کا ارتکاب کیا ہے تو جن پاکستانیوں کو ایک اہم ادارے نے 8 سالہ تحقیق کے بعد اپنے فیصلے میں غیر ملکی قرار دیا ہے‘ ان کی شہریت اور پاکستانیت کو مشکوک بنایا ہے‘ ان میں سے اگر ایک شخص بھی پاکستانی ثابت ہو جاتا ہے تو اس سرٹیفکیٹ کا ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا اس فیصلے پر دستخط کرنے والے ہر فرد پر اسی قانون اور ضابطے کا اطلاق ہو گا جس نے بیرونِ ملک مقیم‘ نائیکوپ کے حامل پاکستانیوں کی شہریت کو مشکوک بناتے ہوئے انہیں نہ صرف غیر ملکی قرار دیا بلکہ جن جن ممالک میں اور جن جن لوگوں کے درمیان وہ رہ رہے ہیں‘ انہیں نہ صرف ان میں بلکہ وہاں کے قانون نافذکرنے والے اداروں کی نظروں میں بھی مشکوک بنا دیا؟
سینئر وکلا اور چند سیاسی تجزیہ کاروں کا حالیہ فیصلے پر کہنا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کو پھر سے زندہ کر دیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ نکتہ نا قابلِ یقین تھا۔ چاہتا تھا کہ ان سے پوچھوں کہ جناب! یہ حذف کیا گیا آرٹیکل جب پارلیمنٹ سے منظور ہی نہیںہوا اور نہ سینیٹ سے پاس کرایا گیا ہے تو پھر آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ پر ہر وقت لٹکنے والی اس تلوار کو پھر سے بحال کر دیا گیا ہے؟ اعتزاز احسن جیسے سینئر قانون دان اور آئینی ماہر نے الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہیں بلکہ وہ زہر ہے جو سیاسی جماعتوں کے حلق میں اتار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ نواز یا پی پی پی سمیت کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے بارے میں دیے گئے فیصلے پر دیوانہ وار ناچ رہی ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس فیصلے کے ایک خالی صفحے پر اس کا نام بھی لکھا ہے‘ بس اسے ٹائپ کرنے کی دیر ہے۔ بہت سے افراد حکومت کی عمران خان کو سیاست سے آئوٹ کرنے اور تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی کاوشوں کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے ہیں کیونکہ اگر حکومت کے مشیروں نے 2002ء کے الیکشن ایکٹ کو پڑھ رکھا ہے تو انہیں بخوبی علم ہوگا کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کو اس فیصلے سے زیادہ نقصان پہنچنے والا نہیں۔ حکومت کے مشیروں کو چاہیے کہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شقوں 2، 6 اور 15کا دوبارہ جائزہ لیں۔ مذکورہ آرڈر کی شق 2 میں ''فارن ایڈڈ‘‘ پارٹی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اول: وہ پارٹی جو کسی دوسرے ملک کی حکومت یا سیاسی جماعت کے کہنے پر بنی ہو۔ دوم: کسی غیر ملک کی حکومت یا سیاسی جماعت سے وابستہ ہو۔ سوم: کسی جماعت نے کسی غیر ملکی حکومت، سیاسی جماعت یا غیر ملکی باشندے سے فنڈز لیے ہوں۔ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ چونکہ تحریک انصاف نے 34 غیر ملکیوں اور بیشتر غیر ملکی کمپنیوں سے پیسے لیے ہیں لہٰذا یہ ''فارن ایڈڈ پارٹی‘‘ ثابت ہو جاتی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے۔ شق 6 میں ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ اس فنڈنگ کو ضبط کرے جبکہ شق 15 میں لکھا ہے کہ جب وفاقی حکومت مطمئن ہو جائے کہ کوئی پارٹی فارن ایڈڈ ہے تو 15 یوم کے اندر سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجے اور اگر سپریم کورٹ حکومت کے ڈیکلریشن سے متفق ہو تو متعلقہ جماعت کو تحلیل کرنے کا حکم صادر کرے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے طور پر یہ تسلیم کر چکی ہے کہ تحریک انصاف فارن ایڈڈ پارٹی ہے اور اسی لیے اس نے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مذکورہ آرڈر میں اس جرم کی سزا بھی لکھی گئی ہے، شق 16 کے مطابق کالعدم ہونے والی پارٹی کے ممبرز چار سال کیلئے پارلیمانی سیاست سے نااہل ہو جائیں گے جبکہ شق 17 کے تحت مذکورہ جماعت سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے گا۔تجزیہ کاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اول تو ایسا سوچنا بھی محال ہے کہ تحریک انصاف کو کالعدم قرار دیا جائے گا‘ بالفرض حکومت کسی طور اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف کسی نئے نام اور نئے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں آ جائے گی۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی نشان تبدیل کر چکی ہیں۔ بھٹو صاحب کا انتخابی نشان تلوار تھا جبکہ بینظیر بھٹو تیر کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیتی تھیں۔ اسی طرح نواز شریف سائیکل کے انتخابی نشان پر بھی انتخاب لڑ چکے ہیں جو اس وقت قاف لیگ کا انتخابی نشان ہے۔ ابتدا میں تحریک انصاف کا انتخابی نشان چراغ ہوا کرتا تھا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف کالعدم قرار دیے جانے کے بعد نئے نام سے انتخابی سیاست میں آئی تو یہ حکومتی اتحاد کیلئے زیادہ مشکلات پیدا کرے گی جبکہ اس فیصلے سے کسی بھی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینا اور اس کی لیڈرشپ کو تاحیات نااہل کرانا زیادہ مسئلہ نہیں رہے گا۔ اس وقت تو حکومتی اتحاد اس فیصلے پر تالیاں بجا رہا ہے مگر اس کے آئینی ماہرین نجانے اسے کیوں نہیں بتا رہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے حنیف عباسی کی جانب سے عمران خان کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن میں کیا فیصلہ سنایا تھا۔ خود الیکشن کمیشن بھی مذکورہ کیس کو فارن فنڈنگ نہیں‘ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس قرار دے چکا ہے۔ بعض آئینی ماہرین نے اس فیصلے پر ایک سوال یہ بھی اٹھایا ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ عمران خان کے خلاف آئین کے آرٹیکل17 کی ذیلی دفعہ2 اور 3 کے تحت فیصلہ سنائے؟
اعتزاز احسن صاحب گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں اس کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ممنوعہ فنڈنگ اور فارن فنڈنگ میں بہت زیادہ فرق ہے اور یہ جو سنایا گیا فیصلہ ہے‘ اس کو فیصلے کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسے رپورٹ کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ بینکنگ قوانین کے تحت الیکشن کمیشن فیصلہ کر تا ہے اور فیصلہ کرنے سے پہلے بینکنگ ذرائع اور نادرا کے ڈیٹا کو استعمال ہی نہیں کیا جاتا۔ اس سے تو لگتا ہے کہ تحریک انصاف کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف اس کیس میں کسی کو بلا کر جرح بھی نہیں کی گئی۔ اس وقت تو مخالف سیاسی جماعتیں خوشی کے شادیانے بجا رہی ہیں مگر جلد انہیں علم ہو جائے گا کہ یہ فیصلہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اٹھاون ٹو بی سے کم خطرناک نہیں ہے کہ جلد یا بدیر تمام سیاسی جماعتیں اس فیصلے کی زد میں آ کر رہیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں