شہباز گل کی بے جواز گرفتاری اور مبینہ تشدد کے خلاف جب آواز اٹھائی جاتی ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ کیا عمران خان کے دورِ حکومت میں سیاسی لیڈران اور میڈیا ورکرز کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا؟ کیا ایک غلط کام دوسرے غلط کام کا جواز ہو سکتا ہے؟ اگر بات چل ہی نکلی ہے تو پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام سمیت کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے سمیت کسی میڈیا ورکر کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو آج کل ہو رہا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں‘ 25 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی کال پر لانگ مارچ کے لیے نکلنے والوں کے ساتھ پنجاب اور کراچی میں کیا سلوک ہوا تھا؟ کیا عمران خان کے دور میں اس طرح کسی کی کھال ادھیڑی گئی جس طرح 25 مئی کو سابق صدر‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے اور سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان کی ادھیڑی گئی تھی۔ ایک قومی سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا کہ عمر ایوب کو ہسپتال میں ایڈمٹ رہنا پڑا۔ آج کل شہباز گل کے حوالے سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں‘ کیا ویسا سلوک پی ٹی آئی کے دور میں کسی پر ہوا؟ بزرگ خاتون ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی پر جس طرح وحشیانہ انداز سے لاٹھیاں برسائی گئیں‘ کیا وہ منظر کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟ ان لوگوں سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا تھا؟ کون نہیں جانتا کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی بہو‘ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید سمیت پی ٹی آئی کے حامیوں اور رہنمائوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ جو کچھ موجودہ حکومت اپنے ان چار ماہ میں کر چکی ہے‘ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کے چار سالوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ سیاسی رہنمائوں کے جسم پر برسائے گئے ڈنڈوں کے نشانات وہ کالک ہے جو موجودہ حکومتی سیٹ اَپ نے بلاجواز طور پر اپنے منہ پر مل لی ہے اور جو تمام عمر اس کا پیچھا کرتی رہے گی۔ افسوس یہ ہے کہ عمر ایوب پر ڈنڈے برسانے والوں کے خلاف ابھی تک معمولی سی کارروائی بھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ سینٹرل پنجاب میں چہروں کو ڈھاٹے اور نقاب سے ڈھانپنے والے ''گلو بٹوں‘‘ نے تحریک انصاف کے ورکروں بالخصوص خواتین پر جو بے پناہ تشدد کیا‘ ان کی بسوں‘ ویگنوں اور گاڑیوں کو پولیس کے ساتھ مل کر لاٹھیوں کے ساتھ تہس نہس کیا‘ انہیں ابھی تک کسی نے پوچھا بھی نہیں اور مخالف سیاسی رہنمائوں کے خلاف پرچے پر پرچے درج کیے جا رہے ہیں۔ جس طرح کسی بادشاہ کی سواری سے پہلے ہٹو بچو کی صدائیں لگائی جاتی تھیں‘ اسی طرح گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے بعد میڈیا سے تشہیر کرائی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈھول بجا کر انہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ بچ جائو‘ ہم آپ کو گرفتار کرنے کیلئے آپ کے گھروں میں آ رہے ہیں۔ نجانے حکت و تدبر سے عاری یہ کون شہ دماغ ہیں جو حکومت کو غلط مشورے دے رہے ہیں۔
اتوار اور سوموار کی درمیانی شب جو کچھ ملک بھر میں ہوا‘ جو بے یقینی اور خوف و سراسیمگی کی فضا پورے ملک پر چھائی رہی وہ کس کے مفاد میں تھی؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ''گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ محترم سعد رفیق، مریم اورنگ زیب صاحبہ، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور پانچ‘ چھ دیگر وفاقی وزرا نے اب ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ خان صاحب گرفتاری کے ڈر سے بھاگ گئے۔ کئی چینلز پر حکومت نے یہ خبر بھی چلوائی جو سرے سے غلط ثابت ہوئی اور خان صاحب بنی گالا کی اپنی رہائش گاہ سے ہی باہر نکلے۔ خان صاحب گھر سے باہر نکل کر کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ بات اگر بزدلی اور ڈرپوکی کی ہے تو کیا کسی ملزم‘ جس کے وارنٹ نکل چکے ہوں‘ کی طاقت دیکھ کر پولیس اس سے مرعوب ہو جاتی ہے‘ اس کی گرفتاری کا ارادہ ترک کر دیتی ہے؟ بھرپور ریاستی مشینری کے علاوہ پوری اسلام آباد پولیس‘ جو سندھ پولیس کی معاونت بھی حاصل کر سکتی ہے‘ اس کے علاوہ دیگر سکیورٹی فورسز کی کم و بیش دس سے پندرہ ہزار کی افرادی قوت! اس کے باوجود اگر ایک شخص کو گرفتار کرنے میں آپ کی ہمت اور طاقت جواب دے جاتی ہے تو پھر تسلیم کر لیں کہ آپ کی عملداری اسلام آباد کے چند تھانوں تک ہی محدود ہے۔ پھر یہ ساری ریہرسل کیوں؟ بزدلی کے طعنے دینے والے وزرا خود آگے بڑھ کر‘ تمام فورسز کی کمان کرتے ہوئے کے پی ہائوس یا بنی گالا جا کر اپنے ملزم کو گرفتار کیوں نہیں کر لیتے؟
کسی چینل پر ایک صاحب سامنے بیٹھے شخص سے پوچھ رہے تھے کہ بتائو عمران خان نے اب تک کون سا اچھا کام کیا ہے؟ اگر کوئی مجھ سے یہ سوال پوچھتا تو میرا جواب ہوتا کہ عمران خان نے 25 مئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے اور تصادم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے واپسی کا حکم دے کر ملک کی وحدت اور سالمیت کو مقدم رکھ کر وہ کام کیا جو کسی ملک کے بڑے سے بڑے رہنما نے آج تک نہیں کیا۔ اگر کسی کی یادداشت سے پچیس مئی کو پل پر کھڑے اہلکاروں کی جانب سے خواتین پر زائد المیعاد آنسو گیس کے تاک تاک کر پھینکے گئے سینکڑوں شیلز کے مناظر محو نہیں ہوئے تو سوچیں کہ نہتی خواتین پر بندوق تاننے والے اہلکاروں، نہتی خواتین کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے والوں کے خلاف ابھرنے والے شدید غصے کے باوجود خان صاحب نے صبر و تحمل اور آئین و قانون کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ہزاروں افراد اس وقت‘ اور گزشتہ رات بھی‘ عمران خان کی جانب بڑھنے والے ہر قدم کو روکنے کے لیے آمادہ و تیار اور اس بات کا عزم کیے ہوئے تھے کہ وہ اپنے جسم میں موجود خون کا آخری قطرہ بہا کر بھی اپنے چیئرمین کا تحفظ کریں گے۔ اگر ان بپھرے ہوئے لوگوں کو ذرا سا اشتعال دلا دیا جائے تو حالات کچھ کے کچھ ہو سکتے ہیں مگر یہ عمران خان کی برداشت اور ان کا صبر ہی ہے جو ملک کی وحدت کو کمزور نہیں ہونے دے رہا۔ گزشتہ دنوں خود خان صاحب نے بھی کہا کہ ان کے پاس اتنی عوامی طاقت ہے کہ کسی بھی وقت اسلام آباد کو بند کر سکتے ہیں مگر اسے وہ انتہائی اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ آخری حربے کے طور پر ہو گا۔ آج جسے غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے پر زور لگایا جا رہا ہے‘ اس نے اپنی سیاست اور ملک کی وحدت کو مقدم رکھ کر ثابت کیا کہ وہ ایک سچا اور کھرا محب وطن ہے۔
آج عوام کی غالب اکثریت‘ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ جو سوچ رہی ہے‘ جس غصے اور نفرت سے کھول رہی ہے‘ اس کا اندازہ شاید حکومت کو ہو ہی نہیں پا رہا یا شاید وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے عوامی سطح پر یہ رائے تقویت پکڑ رہی ہے کہ ملک میں جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں‘ جس طرح سیاسی تفریق کو ہوا دی جا رہی ہے‘ یہ سب کچھ جان بوجھ کر اور کسی پلاننگ اور منصوبہ نما سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو شاید ملکی حالات کے سنگین ہونے کی کوئی پروا نہیں‘ وہ تو سرد‘ آرام دہ اور بے آواز کمروں میں بیٹھے ہیں اور عوام کے ذہنوں میں پکنے والے اس لاوے سے مکمل بے خبر ہیں جو کسی بھی وقت آتش فشاں کی طرح پھٹ کر باہر آ سکتا ہے اور ہر شے کو خاکستر کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیاسی و سماجی ماہرین ایک نئی سوچ، ایک سماجی انقلاب کی پیش گوئی کر رہے ہیں جو محرومیوں، بے بسی اور بھوک سے روتے بلکتے لوگوں میں انتقامی جذبات کی صورت میں نمو پا رہا ہے۔ آزادی کی تلاش میں بے مایہ لوگ دھوپ اور چھائوں کی پروا کیے بغیر گروہ در گروہ‘ دیوانہ وار جب کسی ان دیکھی منزل کی جانب بڑھتے ہیں تو ان کے ارادے اور ان کی بے خوفی ان کی سوچ اور امنگوں کے دھارے بدل دیتی ہے۔ پھر راہ کی کوئی رکاوٹ‘ دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ بعض طبقے شعوری بیداری کی اس لہر کو قیامِ پاکستان کی تحریک سے مشابہ قرار دے رہے ہیں جب ہندو بنیا اپنی تمام چالبازیوں اور انگریز سرکار تمام تر قوت اور صلاحیت کے باوجود اس بہتے ہوئے لاوے کو نہ روک سکی تھی اور نہ ہی تمام تر عیاری‘ مکاری، پروپیگنڈے اور دھن دولت کی بارش کے باوجود اس بپھرتے ہوئے سمندر کی راہ میں بند باندھ پائی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں کہ جوان خون بہت گرم ہوتا ہے اور ظالمانہ نظام کے خلاف بغاوت میں ایک بے قرار نشہ۔