دیہات اور قصبات میں رہنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ اپنے اپنے علاقوں کے وڈیرے‘ چوہدری اور جاگیردار ایک دوسرے کے مخالفین پر اس قسم کے مقدمات درج کراتے تھے کہ عقل دنگ رہ ہی جاتی تھی۔ انتہائی لغو قسم کے الزامات پر مبنی مقدمات درج کرانے والوں کو ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ اس معاشرے کی اخلاقیات اس قسم کے الزامات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی۔انہیں سوچنا چاہیے کہ اس قسم کے مقدمات پر معاشرے میں ان کے بارے لوگ کیا کچھ کہتے ہوں گے۔ یہ'' شرفا‘‘ جب رات کی تاریکی میں مقدموں میں استعمال کئے جانے والے کرداروں کو اپنے ہاں دعوتیں دیتے ہیں اور ان سے سودے بازی کرتے ہیں تو یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہ جاتا۔ ان مقدمات کے اندراج کیلئے مبینہ طور پر مقامی پولیس کی پہلے سے ہی جیبیں اور مٹھیاں اس قدر گرم کر دی جاتیں تھیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی پر جھوٹے اور پہلے سے طے کیے گئے ایسے مقدمات قائم کر رہے ہیں جن کی دنیاوی عدالت کے علاوہ باری تعالیٰ کے دربار میں بھی زبردست سزا ہے۔ آج کل بھی ہر راہ چلتے پر اُسی نوعیت کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور اب ہر ایک یہی سوچ کر ادھر ادھر دیکھتا رہتا ہے کہ کہیں وہ بھی ان کی گرفت میں نہ آ جائے۔ اس خوف سے لوگ آج کل اپنے خاندان کے شجرے کھنگالنا شروع ہو گئے ہیں کہ کہیں ان کے خاندان کی کسی تیسری یا ساتویں پشت میں تو کوئی ایسا نام نہ ہو جس کی پاداش میں وہ دھر لیے جائیں۔
حکمرانوں نے اس وڈیرہ شاہی اور چوہدراہٹ کی عادات سے مجبور ہو کر ایسے لوگوں کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کر دیا ہے جن کی شہرت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ معاشرتی اقدار اور طور طریقوں کو کہیں دور پھینک آئے ہیں اور دھڑا دھڑ مخالفین پر مقدمات کی قطاریں لگاتے جا رہے ہیں اور اب آگے بڑھتے ہوئے ایسے افسران پر بھی مقدمات قائم کرائے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے فرائض منصبی ملک و قوم کے مفادات کیلئے انجام دیے۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پنجاب میں تو یہ ایک عام رواج بن گیا تھا بلکہ سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اِن مقدمات میں استعمال ہونے والے کردار پولیس کی بھی گڈ بکس میں شمار ہونے لگے۔
مقامی وڈیرے‘ سرمایہ دار‘ جاگیردار یا جرائم پیشہ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا ایک دوسرے کے خلاف مقدمات کی پیروی سے روکنے کیلئے ایسے ہی کرداروں کو استعمال میں لاتے تھے بلکہ پھر ہونے یہ لگا کہ اگر کوئی پولیس افسر مقامی بدمعاش‘ جاگیردار‘ قبضہ گروپ اور انتخابی دھڑے بندیوں کے چوہدری ٹائپ لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے انکار کر دیتا‘ ان کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف عام یا سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات کے اندراج سے انکار کردیتا تو اس کے خلاف بھی اسی خصلت کے لوگوں کو استعمال میں لاتے ہوئے اعلیٰ پولیس افسران کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا کہ فلاں تھانیدار یا ایس ایچ او نے تھانے میں میرے ساتھ یہ زیادتی کی ہے یا اس نے مجھ سے دست درازی کی کوشش کی ہے یا چادر اور چار دیواری کی حرمت کو پامال کیا ہے۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ یہ تو عام مشاہدے میں آتا رہا ہے اور آج کل بھی پولیس کو بلیک میل کرنے کیلئے ایسی ہی حرکتیں کی جاتی ہیں۔ پھر جب ذرائع ابلاغ کا دور شروع ہوا تو اس سلسلے میں مختلف لوگوں کو کسی نہ کسی طریقے سے استعمال کرتے ہوئے یا اپنے ساتھ ملاتے ہوئے الزامات کی کہانیاں شائع کی جانے لگیں تاکہ بات ضلعی و صوبائی سطح پر بیٹھے ہوئے افسران تک بھی پہنچ جائے۔
ایک دوسرے کے مخالفین اور اُن کے سپورٹرز پر ایسے ایسے شرمناک الزامات کی بارش کرائی جاتی کہ سننے اور دیکھنے والے انگلیاں منہ میں لے لیتے۔ ان الزامات میں سب سے شرمناک پہلو یہ ہوتا تھا کہ کبھی درج کرائی گئی ایف آئی آرز میں مخالفین کی باپردہ اور باعزت خواتین کے ناموں کا بھی اندراج کرایا جاتا تاکہ اپنے مخالف کی بہو‘ بیٹیوں‘ ماں یا بہن کو بھی تھانوں اور عدالتوں سمیت جیلوں کی ہوا کھلاکر ذلیل و خوار کیا جائے۔پولیس کے بعض لوگوں کے لیے ہو سکتا ہے یہ ایک عام سی بات ہوگی کیونکہ انہیں اپنی سروس میں اس قسم کے نہ جانے کتنے مقدمات کی تفتیش سے گزرنا پڑا ہوگا جن میں دولت کے انبار لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو تھانوں میں بلایا جاتا ہے۔ اگر پولیس تھانوں کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مقدمات ایسے ملیں گے جن میں مشکوک کرداروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر جبری آبرو ریزی جیسے الزامات لگائے گئے ہوں گے۔ تھانوں اور عدالتوں میں یہ مقدمات گواہوں کے بیانات اور ملزمان کے وکلا کی جانب سے کی جانے والی جرح کی وجہ سے کہیں باعث شرم تو کہیں مضحکہ خیز بن جاتے۔ لیکن ان لوگوں کو جنہیں استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین سے جرح کیلئے کھڑا کیا جاتا ہے‘ اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں یا کیا سن رہے ہیں‘ انہیں صرف ملنے والے ان ہزاروں روپوں سے غرض ہوتی ہے۔
جب سے رجیم چینج ہوئی ہے ادارۂ احتساب کے سابق چیئرمین اور سابق ڈی جی پنجاب جیسے لوگوں کو بھی‘ جن کے بارے مشہور تھا کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے وہ کسی بڑی سی بڑی سفارش کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے‘ ان بااثر لوگوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے جو اپنی کرپشن اور کیے گئے اعمال کی وجہ سے نیب کے پاس زیر تفتیش رہے ہیں۔ یہ لوگ جیسے ہی طاقت میں آئے تو بڑی پلاننگ اور منصوبہ بندی سے ایسے ایسے حربے ان کے خلاف استعمال میں لانا شروع کر دیے جیسے ہمارے شہروں‘ قصبوں‘ دیہات اور دیہی سیاست میں ایک دوسرے کے مخالفین کیا کرتے تھے۔ ادارۂ احتساب کے سابق چیئرمین اور سابق ڈی جی پنجاب کو وہ ہزاروں مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں اور بزرگ دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں دیتے ہیں جن کی عمر بھر کی جمع پونجیاں جو برسوں سے ڈوبی ہوئی تھیں‘ ان دونوں کی محنت‘ جانفشانی اور ایمانداری کی بدولت واپس مل گئیں۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان کے خلاف بھی جھوٹے الزامات اور بیانات کی بھر مار کی گئی تو کبھی کسی سے ان کے خلاف کتاب لکھوائی گئی اور یہ بات تو ہر باخبر شخص جانتا ہے کہ یہ کتاب زبردستی لکھوائی گئی اور لکھنے والے کی انگریزی زبان میں معاونت کیلئے ایک مشہور صحافی اور اردو ترجمے کیلئے ایک عمر رسیدہ کالم نویس سے پوری پوری مدد لی گئی تاکہ جب قارئین کتاب پڑھیں تو جن لوگوں نے ان بزرگوار کی تحریریںپڑھ رکھی ہیں وہ بے ساختہ کہہ دیں کہ یہ اُن صاحب کی کتاب ہے۔ ملکی سیاست میں الزام تراشی کی اس روش کو ترک کیا جانا چاہیے کہ ایسے حربوں سے سیاست اور سیاستدان دونوں بدنام ہوتے ہیں۔ اگر سیاسی قائدین کو ملک میں جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا مقصود ہے تو انہیں افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا چاہیے۔