"MABC" (space) message & send to 7575

چادر کہاں‘ پائوں کہاں

ظاہری نمود و نمائش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جنون نے ہمارا معاشرہ اور گھریلو زندگیاں تباہ کر کے رکھ دی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب کچھ دکھاوا اور جھوٹ ہے‘ کوئی بھی اس راہ سے واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہم سب کیوں پریشان رہتے ہیں؟ جس سے بھی بات کیجئے‘ وہ اپنے مالی حالات کے سبب روتا ہوا دکھائی دے گا۔ اب تو جو حالات ہیں‘ اس میں غریب اور امیر کا بھی کوئی فرق نہیں رہا۔ ہاں! وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جن کے پاس کروڑوں بلکہ اربوں روپے اس طرح سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں کہ انہیں اپنی اس بے پناہ دولت کے استعمال کا کبھی موقع ہی نہیں ملتا۔ امرا اور رئوسا کی تو اپنی دنیا ہوتی ہے لیکن ہمارے متوسط اور نچلے طبقے کی جو حالت ہو چکی ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ جو افراد دفاتر سے ایڈوانس یا دوستو ں سے قرض لیے ہوئے ہیں‘ انہیں کمر سیدھی کرنے کی بھی مہلت نہیں ملتی اور وہ ہمیشہ اس بوجھ تلے دبے ہی رہتے ہیں۔ کبھی کوئی چادر اوپر اٹھاتا ہے تو کبھی قمیص کا دامن لٹکانا پڑتا ہے تاکہ برہنگی رشتہ داروں، اہلِ محلہ اور دوستوں سے پوشیدہ رہے۔
نام کا نواب بننے کے چکر میں ہم اپنی حالت ان نوابوں جیسی کر چکے ہیں جو قیامِ پاکستان سے قبل اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد ہندوستان میں اپنی بچی کچھی جائیدایں بیچ کر نوابین کا بھرم باقی رکھتے رہے۔ کریڈٹ کارڈز کے ٹرینڈ نے بھی متوسط طبقے کو 'نواب‘ بنا دیا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو ہم اپنی کمائی سے پہلے ہی خرچ کرتے چلے جاتے ہیں۔ پلاسٹک کا یہ سٹیٹس سمبل کارڈ درحقیقت وہ ساہوکار بن چکا ہے جس کے ہم ہمہ وقت مقروض رہتے ہیں۔ اگر نچلے طبقے کے لوگ سمارٹ فون کے بجائے عام فون استعمال کریں تو کیا اس کی ہمارے معاشرے میں ممانعت ہے؟ اگر ہمارے پاس سمارٹ فون نہ ہو اور اس کی جگہ عام سا کوئی موبائل فون ہو تو کیا معاشرہ ہمیں دھتکار دے گا؟ کیا ہمارے ملک میں آئینی اور قانونی طور پر یہ پابندی عائد ہو چکی ہے کہ جس کے پاس سمارٹ فون نہیں ہو گا اس پر توہینِ معاشرہ کی فردِ جرم عائد کر دی جائے گی؟ آج کل سوشل میڈیا پر جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اور سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کے ''جرم‘‘ میں بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘ اس سے بچنے کیلئے بہتر یہی ہے کہ سمارٹ فون بیچ کر عام سا بٹنوں والا فون استعمال کیا جائے۔ اس سے گھر میں بھی سکون ہو گا اورکسی کو یہ فون رکھنے پر‘ حبیب جالب کے بقول ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ جیسی صورتحال سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا۔
بات ایک سمارٹ فون پر ختم نہیں ہوتی بلکہ گھر کے جتنے افراد ہیں‘ ہر ایک کے پاس سمارٹ فون ہوتا ہے اور ہر کسی کے پاس مہنگے سے مہنگا فون ہوتا ہے۔ مہنگے سمارٹ فون حاصل کرنے کیلئے بچوں کے اپنے والدین کے ساتھ جو جھگڑے اور جو ناراضیاں ہوتی ہیں‘ ان کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ سوچئے کہ اگر گھر میں پانچ لوگ ہیں اور ہر ایک کے پاس چالیس ہزار مالیت تک کا سمارٹ فون ہو تو کم ازکم دو لاکھ روپے تو ان موبائل فون ہی پر خرچ کیے گئے ہوں گے۔ ان کیلئے نچلے طبقے کے افراد نے یا تو قرض لیا ہوگا یا اپنی جمع پونجی‘ جو بچا بچا کر رکھی ہو گی‘ کو ضائع کیا گیا ہو گا۔ اس میں کوئی شک والی بات اب نہیں رہ گئی کہ ایک اوسط گھرانہ بھی اپنے موبائل فونز کی بدولت اب ''لکھ پتی‘‘ کہلا سکتا ہے۔ معاملہ سمارٹ فون تک ہی رہتا تو بھی بات تھی‘ اس کے ماہانہ اخراجات اور انٹرنیٹ پیکیج اس کے علاوہ ہیں۔ اب گرمیوں اور سردیوں کی تعطیلات ہوتے ہی بچوں کا اصرار بڑھ جاتا ہے کہ انہیں کسی 'ہل سٹیشن‘ پر لے کر جایا جائے۔ جیسے جیسے تعطیلات گزرتی جاتی ہیں ان کے کزنز، ہم جماعت اور دوست وغیرہ انہیں بتاتے ہیں کہ وہ فلاں جگہ جا رہے ہیں یا وہ ہنزہ‘ سکردو‘ ناران‘ سوات یا مری میں اتنے دن گزار کر واپس آئے ہیں۔ کچھ تو دبئی یا لندن وغیرہ کا حوالہ دے کر اور دوسروں کو نفسیاتی مریض بناتے ہوئے مزے لے لے کر اپنی سیر کے واقعات اور اپنی تصاویر شیئر کرتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے بچے سکول اور رشتہ داروں میں شرمندگی سے بچنے کیلئے یہ کہنے کے بجائے کہ ہم تو کہیں گئے ہی نہیں یا ماں باپ ہمیں کہیں لے کر ہی نہیں گئے‘ والدین کی جان کو آ جاتے ہیں اور اُنہیں اپنے بچوں کا سکول میں اور فیملی میں سٹیٹس بحال رکھنے کیلئے نجانے کتنے جتنوں سے بچوں کو کسی 'ہل سٹیشن‘ پر لے کر جانا پڑتا ہے۔ اس کیلئے لیا گیا ایڈوانس یا قرض کئی ماہ تک نچلے خاندانوں کا وہ حشر کرتا ہے کہ صرف والدین ہی جانتے ہیں۔ نتیجہ اس سٹیٹس کا یہ نکلتا ہے کہ روزمرہ اشیا کے آئے روز ختم ہونے کی وجہ سے والدین کی آپس کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔
کسی بھی سوسائٹی یا کالونی میں رہنے والوں کے لیے آن لائن کھانا یا فاسٹ فوڈ منگوانا ایک معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہ عادت معاشرے میں اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ ریسٹورنٹس میں کھانا کھانا بھی اب سٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے۔ یہ نچلے ہی نہیں بلکہ متوسط گھرانوں پر بھی ایک بوجھ ہے۔ اب اس کے اثرات اور نتائج جیب اور ماہانہ اخراجات میں اضافے پر ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ بازاری کھانے انسانی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی فیس اور ادویات کا خرچ الگ سے پریشان کرتا ہے۔ سادہ غذا انسانی صحت کیلئے ایک تحفہ ہے اور علاج بھی‘ جس سے ہم بہت دور ہو گئے ہیں۔ اب ہماری اکثر بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ فاسٹ فوڈز اور بازاری کھانے ہیں۔ کل تک ہمیں بیوٹی پارلرز، نت نئے سیلونز اور برانڈز کے پیچھے بھاگنے کی نہ تو عادت تھی اور نہ ہی یہ سوچ تھی لیکن اب یہ ہو چکا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ لباس ہم نے برانڈڈ ہی پہننے ہیں اور اس کیلئے بھی ایسے برانڈز کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کے نام فخر سے لیے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ‘ پارٹیوں یا فیملی کی کسی بھی غمی خوشی میں جانے کیلئے نیا سوٹ اور نیا برانڈ لازماً پہننا ہو گا۔ اگر کبھی بیگم صاحبہ کو سمجھایا جائے کہ دو ماہ پہلے والا سوٹ پہن لیا جائے تو جواب ملے گا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اس کے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے؟ اگر پرانا پہنا ہوا سوٹ دیکھ لیا تو بھابھیاں‘ نندیں اور دوسرے رشتہ دار آپ کے متعلق ہی باتیں کریں گے کہ اپنی بیوی کو نیا سوٹ بھی نہیں لے کر دے سکتا ۔اس بیچاری کی تو قسمت ہی پھوٹ گئی ہے۔ صرف لباس ہی نہیں بلکہ جوتے بھی برانڈڈ ہی ہونے چاہئیں۔
اگر میں آپ کو یہ بتائوں کہ میں نے اپنے بچوں کی سالگرہ کا سوچنا تو دور کی بات‘ جب تک ان کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی شادیاں نہیں ہو گئیں‘ کوئی معمولی سا فنکشن بھی نہیں کیا‘ کبھی کوئی کیک نہیں کاٹا تو آپ شاید مجھے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھیں کیونکہ اب اپنے چاروں جانب نظریں دوڑا لیجئے، کسی بھی درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ سے لے کر اچھے سے اچھے ہوٹل میں چلے جائیے۔ آپ کو ہر جگہ بچوں کی‘ اپنی یا بیگم صاحبہ کی سالگرہ تقریبات اور کیک کٹتے دکھائی دیں گے۔ کیا یہ اضافی مالی بوجھ نہیں ہے؟ کیا یہ دولت کا ضیاع نہیں ہے؟ شادی بیاہ کی رسومات اور ان پر اٹھنے والے بے تحاشا اخراجات کی تو بات ہی نہ کریں۔ ایسے مواقع پر لگتا ہے کہ دولت کی وہ چمک دمک دکھانا مقصود ہے کہ دیکھنے والے اپنے دل اور جیب پکڑ کر رہ جائیں۔ اسے پنجابی میں ''جھوٹی چودھراہٹ‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر بے تحاشا خرچ ان کے حوالے سے تو سمجھ آتا ہے جنہوں نے ان اخراجات کا ایک ایک پیسہ ہم جیسوں کی جیبوں سے نکالنا ہوتا ہے‘ یہ چاہے کسی بڑی چین کا مالک ہو یا کوئی صنعتکار یا تاجر یا کسی شاپنگ مال کا دکاندار یا کسی محکمے کا وزیر ہو یا مال پانی والی سیٹ کا سرکاری افسر۔ ان کو کیا فرق پڑتا ہے؟ اگر رب کریم نے اپنی آخری کتاب میں اپنے بندے سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ ''یہ جو تم پر تکلیفیں اور مصائب ہیں تو یہ سب تمہارے اپنے ہی اعمال کے سبب ہیں‘‘ تو کسی عقل مند نے اپنے تجربات کے نچوڑ کے بعد یہ نصیحت بھی کی ہے کہ ہمیشہ ''اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں‘‘ مگر اب ایسی نصیحتوں کو درخورِ اعتنا کون سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چادر کہیں ہوتی ہے اور پائوں کہیں اور ہم رونا رو رہے ہوتے ہیں حالات کی تلخی اور سنگینی کا۔ یقینا حالات کی تلخی کا انکار نہیں مگر ہم اپنے طرزِ زندگی سے اس تلخی کو کسی قدر کم تو کر ہی سکتے ہیں، اس پر مگر ہم آمادہ نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں