کینیڈا میں ایک لاکھ دس ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کیلئے2020ء میں اعلان کیے گئے ریفرنڈم میں حصہ لیتے ہوئے اپنے ووٹ کاسٹ کیے ہیں۔ اس ریفرنڈم کے لیے پورے کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کے افراد صبح سات بجے ہی سے قطاریں بنا کر کھڑے ہو گئے تھے جن میں خواتین اور بوڑھے افراد کی سب سے زیادہ تعداد چونکا دینے والی بات تھی۔پولنگ بوتھ چونکہ محدود تعداد میں تھے اس لیے کئی افراد پولنگ کا وقت ختم ہونے کے سبب ووٹ نہ ڈال سکے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے پانچ کلو میٹر تک طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں اور لوگ خالصتان کے حق میں ووٹ ڈال کر بھارت سے نفرت اور آزادی کے حصول کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ بھارت نے اپنی پوری کوشش کی اور سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ ریفرنڈم رکوانے کے بھر پورجتن کیے لیکن کینیڈین حکومت نے ریفرنڈم روکنے سے صاف انکار کر دیا۔
خالصتان پر ریفرنڈمز کا آغاز گزشتہ برس 31 اکتوبر کو لندن سے ہوا تھا جس کے بعد برطانیہ کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ سوئٹزرلینڈ اور اٹلی میں بھی ووٹنگ کرائی گئی۔ان ریفرنڈمز میں اب تک بھارت سے باہر مقیم ساڑھے 4 لاکھ سے زائد سکھ حصہ لے چکے ہیں۔ دنیا بھر میں سکھوں نے جس طرح اس ریفرنڈم میں حصہ لیا ہے وہ سب کیلئے حیران کن ہے۔ خالصتان ریفرنڈم کے شرکا نے اقوام متحدہ سے سکھوں کو بھارت سے آزادی دلانے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ان ریفرنڈمز کا انعقاد کرنے والی تنظیم ''سکھ فار جسٹس‘‘ کے رہنما گرپتونت سنگھ کا کہنا ہے کہ سکھوں کی اتنی بڑی تعداد کے ریفرنڈم میں حصہ لینے سے بھارت کو سکھوں کی سوچ کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ سکھ کمیونٹی کے اندر دبی ہوئی نفرت کی چنگاریوں کو ہوا دینے میں بھارت نے ریاستی طور پر بے شمار اقدامات کیے ہیں جبکہ انتہا پسند ہندو بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ حالیہ دنوں میں ٹی ٹونٹی ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے میچ میں ایک سکھ کھلاڑی سے کیچ چھوٹنے پر جس طرح اس کے خلاف خالصتانی ہونے کی نفرت انگیز مہم چلائی گئی‘ اس سے ایسے جذبات میں مزید شدت آئی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی ساری زندگی اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیتے گزر جائے گی اور نریندر مودی کے بھارت میں یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر اقلیتوں بالخصوص سکھوں کو اسی سلوک کا سامنا ہے۔
2018ء میں بھارت کے معروف سابق کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے پاکستان آئے تو اس موقع پر ان کی پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ایوانِ صدر میں ملاقات ہوئی۔ جہاں سابق سکھ کرکٹر نے کرتار پور راہداری کھولنے کی درخواست کی تو جنرل باجوہ صاحب کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ پاکستان سکھوں کے مذہبی مقام کے تقدس اور اہمیت کے پیش نظر اس درخواست سے پہلے ہی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے یوم پیدائش پر 29 جون سے کرتار پور راہداری کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ الگ بات کہ نریندر مودی سرکار کی ہٹ دھرمی اور سکھوں کے مذہبی جذبات کو نظر انداز کرنے کی روش کے سبب پاکستان کی اس پیشکش کو رد کر دیا گیا جس کے بعد اگلے سال بابا گرو نانک کے 550ویں یومِ پیدائش کے موقع پر 2019ء میں اس راہداری کا باقاعدہ افتتاح ہوا مگر بھارت نے اس پر انتہائی تھڑدلی کامظاہرہ کیا اور اس راہداری کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں۔
نریندر مودی اور امیت شاہ کی شکل میں انتہا پسند ہندو ذہنیت کے ہاتھوں لاحق خطرات کو بھانپتے ہوئے‘ 1990کی دہائی کے اوائل میں دب جانے والی خالصتان تحریک نے ایک بار پھر زور پکڑا ہے۔ ''پیس فار سکھ‘‘ نامی ایک تنظیم نے خالصتان موومنٹ کے تحت ''ریفرنڈم ٹونٹی ٹونٹی‘‘ کے لیے رجسٹریشن کا آغاز کیا اور پہلے یہ ریفرنڈم 2020ء میں ہونا تھا مگر پھر کورونا کے سبب اس کا انعقاد ملتوی کر دیا گیا اور اکتوبر 2021ء میں لندن میں پہلے ریفرنڈم کا انعقاد ہوا اور اتوار کے روز کینیڈا میں ریفرنڈم ہوا۔ کینیڈا میں ہوئے ریفرنڈم کے سامنے آنے والے نتائج نے دنیا بھر کو چونکا کر رکھ دیا ہے اور اس سلسلے میں ہونے والی ایک تقریب سے خالصتان موومنٹ کے لیڈر گوپال سنگھ چاولہ نے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ با باجی گرونانک کے خالصوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بادشاہت کیلئے آگ اور بارود کا ایندھن نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت میں بسنے والے سکھوں نے انتہاپسند ہندوئوں کا آلہ کاربن کر مسلمانوں کے قتل عام اور ان کی املاک کی لوٹ مار سے انکار کر دیا ہے جس کے سبب مہاسبھائی ہندوئوں نے سکھوں کے ساتھ گھٹیا سلوک شروع کر رکھا ہے بلکہ اب تو چندی گڑھ اور ہریانہ میں بھی انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کی دکانوں کا بھی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ گوپال سنگھ چاولہ کا کہنا تھا کہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور گرو نانک جی کے بھگتوں کا خون اتنا سستا اور غیر اہم نہیں کہ سکھوں کی نئی نسلیں گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی اور ہزاروں سکھوں کے قتلِ عام کو فراموش کر دیں۔
پنجاب کے سکھوں سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو کتنی محبت ہے‘ اس کا اندازہ کرنے کیلئے جنرل ہر بخش سنگھ کی کتاب کو سامنے رکھنا ہو گا۔ لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ ستمبر65ء کی جنگ میں بھارت کی آرمی کے لاہور اور قصور سیکٹر زکے کمانڈر تھے۔ اپنی کتاب ''War Despatches‘‘ میں وہ لکھتے ہیں ''دورانِ جنگ ایک شام انہیں انڈین آرمی چیف جنرل چودھری کا ایک سیکرٹ پیغام ملا کہ تم فوری طور پر اپنی فوجوں کو دریائے بیاس سے پیچھے لے آئوکیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر پاکستانی فوج دہلی کی جانب بڑھناشروع ہو جائے گی‘ اس طرح ہم پاکستانی فوج کو امرتسر اور اس کے نواحی علاقوں کی آبادیوں میں گھیر لیں گے۔ جنرل ہر بخش لکھتے ہیں کہ یہ پیغام سن کر چند لمحے تو اس پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں۔ ہربخش سنگھ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے بھارتی فوج کو پسپائی کا کوئی حکم نہ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بحیثیت ویسٹرن کمانڈراس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں اپنی فوجیں لاہور اور کھیم کرن سے ہٹا کر بیاس سے پیچھے لے آتا تو اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم سکھوں کا مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل مخالف فوج کے رحم و کرم پر ہوتا۔ سکھ قوم اور فوجیوں میں یہ سوچ غم و غصے میں تبدیل ہورہی تھی کہ کیا ہندو برہمن نے سکھوں کو صرف لال قلعے کی حفاظت کیلئے رکھا ہوا ہے؟ جنرل ہربخش سنگھ کی یہ کتاب سکھ طبقات میں خاص طور پر بہت شوق سے پڑھی جاتی ہے اور انڈین بٹالینز میں فرائض سر انجام دینے والے سکھ فوجی یہ سوچنا شروع ہو گئے ہیں کہ انہیں اوران کے خاندانوں کو مستقبل میں ہونے والی کسی بھی جنگ کا اسی طرح ایندھن بننا ہو گا؟ چند برس ہوئے خالصتانی لیڈر پروفیسر گرجیت سنگھ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سکھ حاضرین سے سوال پوچھا تھا ''کیا اسرائیل بیت المقدس کے اندر جنگی ریڈار نصب کرتا ہے؟ کیا ویٹی کن سٹی میں کسی جگہ پرکوئی حساس نوعیت کا جنگی اڈا بنا ہوا ہے ؟ کیا بھارت بھر میں رام، سیتا اور وشنو سمیت بڑے بڑے مندروں کے اندر یا ان سے ملحقہ جگہوں پر ریڈار سٹیشن قائم ہیں؟ پروفیسر گرجیت سنگھ نے سکھوں سے کہا: اگر جنرل ہربخش سنگھ لاہور قصور سیکٹرز سے انڈین فوج کو بیاس سے پیچھے کے علاقے میں ڈِپلائے کر دیتا توپورے پنجاب کی تباہی اور بربادی تو لازم تھی ہی‘ جنگ کا میدان بننا تھا امرتسر کا علاقہ جہاں گولڈن ٹیمپل موجود ہے۔ ستمبر1965ء کی جنگ میں بھارتی فوج کی جانب سے امرتسر میں سکھوں کی متبرک عبادت گاہ سے ملحقہ علاقے میں ایک اہم فضائی ریڈار سٹیشن اسی لیے قائم کیاگیاتھا تاکہ اگر پاکستانی فضائیہ اس کو نشانہ بنائے تو اس کے ساتھ گولڈن ٹیمپل کو بھی نقصان پہنچے اور پھر سکھوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ کو بھڑکایا جا سکے۔ پروفیسر گرجیت سنگھ سے دوبارہ سوال کیا کہ انڈین ایئر فورس اور بھارت کی توپوں سے بچائو کیلئے کیا پاکستان نے ننکانہ صاحب، حسن ابدال، رنجیت سنگھ کی مڑھی یا کرتار پور کے علاقے میں عسکری تنصیبات قائم کیں؟ پاکستان نے سکھوں کے مذہبی تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔اس کے برعکس بھارت نے گولڈن ٹیمپل جیسے حساس ترین علاقے میں ریڈار سٹیشن نصب کیاتاکہ یہاں سے پاکستانی ایئر فورس پر نظر رکھی جا سکے۔
بھارت کے اس ریڈار سٹیشن کی وجہ سے پاکستان ایئر فورس کو کافی دقت کا سامنا تھا، بالآخر گیارہ ستمبر کی سہ پہر پاکستانی فضائیہ نے امرتسر کے اس ریڈار سٹیشن کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کی وجہ سے کئی اہم اہداف کا حصول مشکل ہو رہا تھا۔ اب اس سٹیشن کی تباہی کے سوا پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ سرگودھا کے فضائی ہیڈ کوارٹر سے اس مشن پر جانے والے سیبر 86 طیاروں کے ہوا بازوں‘ ونگ کمانڈر انور شمیم، سکواڈرن لیڈر منیر احمد، فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی اور اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری کو خصوصی طور پر حکم جاری ہوا کہ اگر اس حملے کے دوران تمہیں ذرا سا بھی شک ہو کہ اس سے گولڈن ٹیمپل کی کسی ایک دیوارپر ذرا سی خراش بھی آ سکتی ہے تو اپنے مشن کو فوری طور پر ادھورا چھوڑ کر واپس آ جانا۔ اس سٹیشن پر تعینات بھارت کے فوجی اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ جب پاکستان ایئر فورس نے امرتسر کا فضائی ریڈار سٹیشن تباہ کیا تھا تو اس قدر مہارت سے اسے تباہ کیا کہ امرتسرکا کوئی ایک شہری بھی اس حملے میں ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔ گولڈن ٹیمپل سے ملحقہ گنجان آبادی میں قائم اس بھارتی ریڈار سٹیشن کو نشانہ بنانے والے آپریشن میں شامل سکواڈرن لیڈر منیر احمد جب اپنے نشانے کی جانب لپکے تو انہیں شک ہو اکہ ان کی گولہ باری سے سکھوں کے مقدس مقام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، چند لمحوں کے اسی شش و پنج میں انہیں دشمن کی طیارہ شکن گنوں نے نشانہ بنایا اور وہ شہید ہو گئے۔