اس وقت ملک کے سیاسی ایوان میں ''انڈی شیل‘‘ کا خوف چھایا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کو اس خوف نے اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ بڑے بڑے طاقتور وں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ ہر وقت یہی دھڑکا لگا ہوا ہے کہ نجانے آج شام یا کل کسی وقت‘ کون سی نئی لیک سامنے آ جائے، جس میں نجانے ان کے خلاف کیا کچھ نکل آئے۔ سب کو یہی پریشانی لاحق ہے کہ نئی لیکس میں کوئی ایسی بات نہ ہوجس سے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ افسوس کہ انڈی شیل کی آڈیو اور وڈیو لیکس کے خوف میں ہم اپنا چین اور آرام گنوا بیٹھے ہیں مگر اُس عدالت کا خوف نہیں کرتے، اس کی وجہ سے اپنی راتوں کی نیند نہیں اڑاتے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ ''اور اعمال کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی تو تم گناہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں لکھا ہو گا اس سے ڈر رہے ہوں گے۔ اور کہیں گے: ہائے شامت! یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو‘ کوئی بات بھی نہیں مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو جو عمل کیے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا‘‘۔ (الکہف: 49)یہ وہ عدالت ہے‘ جس میں پیشی اٹل ہے، جس سے فرار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ فرمایا: ''اُس دن انسان کہے گا کہ کہاں ہے بھاگنے کی جگہ۔ کہیں نہیں‘ کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس روز تمہارے پروردگار ہی کے پاس تمہیں جا ٹھہرنا ہے۔ اس دن انسان کو جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ہوں گے‘ سب بتا دیے جائیں گے۔ بلکہ (ہر) انسان آپ اپنا گواہ ہے۔ اگرچہ عذر و معذرت کرتا رہے۔ (القیامہ: 10 تا 15) اگرچہ اس دن ہر شخص اپنے اعمال پر خود ہی گواہ ہوگا اور اس کے لیے اپنے کسی فعل سے انکار کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہو گی، اس کے باوجود فرمایا: '' ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ) لانے والا ہو گا اور ایک گواہی دینے والا‘‘۔ (ق: 21)۔ اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے ذاتی فائدے یا حاکم کی خوشنودی کیلئے کمزور کے مقابلے میں طاقتور کا ساتھ دینے اور انصاف سے انحراف کرنے والے اس عدالت میں کیا جواز پیش کریں گے جس کی پیشی کے ایک ایک منظر اور ایک ایک سوال کا پہلے سے بتا دیا گیا ہے؟ وہ سورۃ المائدہ میں روزِ جزا کے مالک کا یہ ارشاد کیوں بھلا بیٹھے ہیں '' اور گناہ اور زیا دتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار نہ بنو اور ہمیشہ اللہ (کے عذاب) سے ڈرتے رہو کیونکہ اللہ کا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘ (آیت: 2) آج ہمیں انڈی شیل کا ذرا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں لیکن اس دن ہم اپنی زندگی کی ساری ''لیکس‘‘ کو کیسے برداشت کریں گے؟
رب العالمین کی خلق کی گئی کائنات میں انسان کو دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کی خصوصی تلقین کی گئی ہے۔ میدانِ عرفات میں رحمۃ للعالمین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کے آخری خطبے کا وہ فرمان یاد کیجیے کہ تم میں سے کسی کو رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی دوسرے پر فوقیت نہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کسی قسم کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک وہی بلند درجے پر فائز ہیں جو پرہیز گار ہیں۔ رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کا واضح فرمان ہے کہ تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا جبکہ کمزوروں کو سزا دی جاتی۔ مزید فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کرتا۔ ''سخت اور کڑا احتساب‘‘ ہی اسلام کے نظامِ انصاف کی اصل بنیاد ہے اور اسے ہی معاشرے کی بقا کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ آج کے مغربی معاشروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو وہاں بھی انصاف کا سخت معیار نظر آتا ہے۔ وہاں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی طاقتور یا مالدار شخص محض اپنے عہدے یا دولت کی بنا پر نظامِ انصاف کو جل دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جس کسی نے ملکی وسائل اور خزانے کو لوٹا ہو‘ اسے انصاف کے کڑے کٹہرے میں لا کر دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی اور ان کے دو ساتھیوں کو بدعنوانی کے الزام پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سرکوزی کا جرم یہ تھا کہ اپنی سیاسی پارٹی میں مجرمانہ تفتیش کے بارے میں معلومات دینے کے بدلے ایک مجسٹریٹ کو اس نے رشوت کے طور پر ایک بڑی نوکری کی پیشکش کی تھی۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ کو بھی رشوت لینے کے الزام میں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ 70 سالہ ایہود اولمرٹ کو 9سال پرانے مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ اس پر یہ الزام تھا کہ شہر کے قلب میں ایک متنازع رہائشی پروجیکٹ میں تیزی لانے کے لیے اس نے رشوت لی تھی۔اس وقت وہ یروشلم کا مئیر تھا۔ بعد ازاں وہ اسرائیل کا وزیراعظم بنا اور اپنے ملک کے لیے کئی خدمات بھی سرانجام دیں مگر چند افراد کو نوازنے کا مقدمہ اس کے گلے کی پھانس بنا رہا۔ کرپشن کے انہی الزامات کے نتیجے میں نہ صرف اسے وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا بلکہ ان الزامات کی وجہ سے اس کا سیاسی کیریئر بھی ختم ہو گیا۔ابھی حال ہی میں ملائیشیا کی ایک اعلیٰ عدالت نے نہ صرف سابق ملائیشین وزیر اعظم نجیب رزاق بلکہ ان کی اہلیہ کو بھی مالی بدعنوانی کے ایک کیس میں سزا سنائی ہے۔ جج نے فوری طور پر نجیب رزاق کو جیل بھی بھجوا دیا۔ تجزیہ کاروں کے بعد 12 سال قید کی سزا کے بعد نجیب رزاق کا سیاسی کیریئر بھی ختم سمجھیے۔ ملکِ عزیز میں ایسی کوئی ایک مثال بھی ہو تو بتا دیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو سوچیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
وزیر یا وزیر اعلیٰ یا وزیراعظم کی کرسی ہو یا چیف سیکرٹری اور آئی جی کا آفس، منصف کی مسند ہو یا سفیر کا دفتر، تھانیدار کا تھانہ ہو یا کسی کمشنر اور سیکرٹری کا دفتر ،کسی تحصیلدار اور پٹواری کا پٹوار خانہ ہو یا بجلی‘ گیس اورپانی کے محکموں کے ایکسیئن کا دفتر‘ ہر کسی کو اپنی کارگاہ میں ہر فائل اور ہر کیس کو اس کا اصل میرٹ دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ سرکاری اور ریاستی کاموں میں کسی بھی قسم کی ذاتی پسند یا نا پسند کو ترجیح دی جائے گی تو اس انسان یا گروہ سے اس کی پرسش ضرور ہو گی ‘ اس جہان میں نہ سہی‘ دوسرے جہان میں۔ مگر ایک دن اس سے پورا پورا حساب ضرور لیا جائے گا۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث شریف ہے کہ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا کہ روزِ محشر ہربنی آدم کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر پانچ سوالات کے جوابات دینا ہوں گے۔ ہر کسی کو یہ بتانا پڑے گا کہ (1) اس نے دنیا میں اپنی زندگی کس طرح گزاری (2) اپنی جوانی کو کیسے بسر کیا (3) اس نے دولت کن ذرائع‘ کن طریقوں سے اکٹھی کی اور (4) کس طرح اس دولت کو خرچ کیا اور (5) اس کے پاس جو علم تھا اسے کس طرح استعمال کیا؟ یقینا خدا کے علم سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور اس کے کیمرے کی ایک آنکھ سب کچھ دیکھ رہی اور ریکارڈ کر رہی ہے۔ بعض افراد دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ اگر میری آمدن میرے اثاثوں سے میل نہیں کھاتی تو کسی کو کیا؟ اب تو یہ قانون سازی بھی کر دی گئی ہے کہ نیب کسی بھی فرد سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ اس نے اپنی قلیل آمدن میں اتنے کثیر اثاثے کیسے بنا لیے بلکہ اب یہ ثابت کرنا کہ فلاں شخص نے ناجائز آمدن سے اثاثے بنائے ہیں‘ نیب کا کام ہے اور نیب اس تفتیش میں کسی سرکاری ادارے سے مدد بھی نہیں لے سکتا۔ کیا کسی اسلامی معاشرے اور مغربی ملک کے قانون میں اس منطق کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اگر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ سے ایک عام انسان سب کے سامنے یہ پوچھ سکتا ہے کہ انہوں نے جو کرتا زیب تن کیا ہوا ہے‘ وہ کیسے بنا ہے‘ تو کسی صدر‘ وزیر اعظم یا صاحبِ مسند کی کیا حیثیت ہے؟
روزِ محشر اس سوال کا بھی جواب دینا پڑے گا کہ جب زمین پر تمہیں صاحبِ اختیار بنایا گیا تھا، اس وقت جو بندہ تمہارے پاس انصاف کے حصول کے لیے آیا تھا‘ کیا تم نے اس کی فریاد رسی کی؟ کیا انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا؟ آج جو قانون بدل کر‘ مختلف حیلوں‘ حربوں سے بچ نکلتے ہیں‘ انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اُس عدالت میں‘ جہاں بالآخر ہر انسان کو ایک دن پیش ہونا ہے‘ ان کا عذر کیا ہو گا؟ انڈی شیل سے ڈرنے والے کیا اس عدالت اور اس کی جوابدہی سے بھی اتنے ہی خوفزدہ ہیں؟