"MABC" (space) message & send to 7575

بغرضِ تفتیش روانہ ہوتا ہوں

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی پولیس افسر ٹویوٹا اور مرسیڈیز میں فرق ہی نہ جان سکے؟ پولیس وائرلیس یا کنٹرول روم سے اگر یہ کہا جائے کہ ایک مرسیڈیز بینز سپرنٹر چوری ہو گئی ہے جس میں ایک مغوی بچہ بھی ہے‘ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نیروبی ہو لاہور‘ کراچی یا دنیا کے کسی بھی علاقے کی پیشہ ور پولیس‘ وہ مرسیڈیز جیپ کے بجائے سامنے سے آنے والی ٹویوٹا گاڑی پر فائرنگ شروع کر دے؟ نیروبی پولیس کے بیان کے مطابق پولیس کو ایک گاڑی چوری کی اطلاع ملی جس میں ایک بچہ بھی موجود تھا‘ مگر چونکہ دونوں کے نمبر ملتے جلتے تھے‘ اس لیے کنفیوژن ہوئی۔ سب سے پہلی بات یہ کہ کیا ''نام نہاد‘‘ ناکے پر کھڑی پولیس کلر بلائنڈ تھی جو سفید اور کالے رنگ میں فرق ہی نہ کر سکی؟ نمبر دیکھنے کا مرحلہ تو بہت بعد کا ہے۔ ایسی کون سی پولیس ہے جو دور سے چلتی گاڑی کا نمبر دیکھ کر محض شک کی بنا پر اس پر فائرنگ کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ سب سے پہلے گاڑی کا ماڈل اور رنگ دیکھا جاتا ہے‘ اگر کوئی ملتی جلتی گاڑی نظر آئے تو اس کے بعد ہی اس کا رجسٹریشن نمبر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر گاڑی نہ روکی جائے یا گاڑی سے پولیس پر فائرنگ کی جائے تو ہی پولیس فائرنگ کر سکتی ہے مگر اس دوران بھی صرف گاڑی کے ٹائروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ڈرائیور کو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فائرنگ کی جائے اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے کسی شخص کو سر میں گولیاں مار دی جائیں؟
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر چلتی ہوئی گاڑی پر فائرنگ کی جائے تو گاڑی کی باڈی پر گولیوں کے نشانات ترچھے ہوں گے لیکن جس گاڑی کی باڈی نیروبی پولیس کی جانب سے دکھائی جا رہی ہے‘ اس پر دکھائی دینے والے گولیوں کے نشانات بالکل سیدھ میں ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پولیس کا یہ بیا ن بالکل غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے کہ جب گاڑی کو پولیس کے لگائے گئے ناکے پر رکنے کیلئے کہا گیا تو ڈرائیور نے روکنے کے بجائے گاڑ ی بھگا دی جس پر بعد ازاں پولیس کو فائرنگ کرنا پڑی۔ یہ منطق مان لی جائے کہ گاڑی ناکے پر رکنے کے بجائے تیزی سے بھگائی گئی تھی تو پھر گاڑی کی ونڈ سکرین پر بلٹ کے نشانات کہاں سے آ گئے؟ اور یہی وہ بلٹ تھی جس نے ارشد شریف کو سر پر ہِٹ کیا۔ گو کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سب کچھ بتا دے گی اور یہ اچھا اقدام ہے کہ مقامی سطح پر بھی پوسٹ مارٹم کرایا جا رہا ہے‘ محض کینیا کی پولیس پر بھروسہ نہیں کیا جا رہا۔ جب پوسٹ مارٹم رپورٹس سامنے آئیں گی‘ تب بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی۔ یہ بھی پتا چل جائے گا کہ سر کے جس حصے پر گولی چلائی گئی‘ وہ چلتی گاڑی پر فائرنگ میں کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق کینیا کے چیف پتھالوجسٹ ڈاکٹر Johansen Oduor‘ جنہوں نے ارشد شریف کی باڈی کا پوسٹ مارٹم کیا ہے‘ کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت کی وجہ سر اور کندھے سے بہنے والا خون ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ کو سامنے رکھ کر سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ جائے وقوعہ سے کچھ ہی فاصلے پر پولیس ٹریننگ کالج ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس کے اس کالج میں کوئی منی ہسپتال یا ایمبولینس نہ ہو جہاں زخمیوں کو فوری طور پر شفٹ کر دیا جاتا؟ ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ کینیا پولیس کی جانب سے ارشد شریف کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے۔ اسلام آباد کے بہترین ڈاکٹرز کی ٹیم جب ارشد شریف کی باڈی کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے لائے گی تو بہت سی باتیں سامنے آ جائیں گی جن سے پتا چل سکے گا کہ موت کی وجہ بننے والی گولی کتنے فاصلے سے چلائی گئی؟
ا ب چلتے ہیں چوری شدہ گاڑی اور اس میں موجود مغوی بچے کی کہانی کی طرف‘ جس کو وجہ بنا کر ''پہچان کی غلطی‘‘ کا جواز پیش کیا گیا اور جو مبینہ طور پر پاکستانی صحافی کی جان لینے کی ابتدا بنی۔ کہانی یوں ہے کہ ڈوگلس وینانا نامی ایک شخص‘ جس کی عمر چھبیس سال بتائی گئی ہے‘ نیروبی کے علاقے پنگانی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کراتا ہے کہ وہ شاپنگ کیلئے آیا تھا اور اس نے اپنی سپرنٹر مرسیڈیز پارکنگ میں کھڑی کی تھی لیکن جب وہ شاپنگ کے بعد واپس پارکنگ میں آیا تو نہ وہاں اس کی گاڑی موجود تھی اور نہ ہی اس کے بچے کا کوئی اتا پتا تھا جسے وہ اس گاڑی میں چھوڑ کر شاپنگ کیلئے گیا تھا۔ اب یہاں سے اگلا ڈرامہ شروع کیا جاتا ہے جس کو تجزیاتی حقائق پر پرکھا جائے تو اس میں کسی بھی قسم کا شک نہیں رہ جاتا کہ یہ گاڑی اور اس میں سوار بچے کی کہانی محض گمراہ کرنے اور ارشد شریف کے قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے سنائی جا رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب ایک ڈرامہ یا یہ وہ پلاٹ ہو جسے ارشد شریف کو گھیرنے کیلئے پلان کیا گیا۔ کینیا کے میڈیا کے مطابق وہ گاڑی جس کے متعلق پولیس نے وائرلیس چلا ئی کہ اسے بچے سمیت غائب کر دیا گیا ہے‘ حیران کن طور پر ایک پٹرول سٹیشن پر کھڑی پائی گئی جس پر پولیس کی ایک دوسری پارٹی نے اس گاڑی کو روک کر دیکھا تو اس میں وہی شکایت کنندہ ڈوگلس اپنے بیٹے ڈنکن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جگہ جائے وقوعہ سے لگ بھگ چالیس کلومیٹر دور تھی۔ بعض کینیائی صحافیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس نے یہ گاڑی اور ''مغوی‘‘ بچہ ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ سے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ''بازیاب‘‘ کر لیے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے تک پولیس کی ایک پارٹی کو یہ خبر ہی نہ مل سکی ہو؟ یاد رکھئے کہ اس قتل کی تفتیش کا ایک انتہائی اہم سراغ وہ شخص ہے جس کا نام ڈوگلس ہے اور جسے ابھی تک نیروبی پولیس نے شاملِ تفتیش بھی نہیں کیا۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ گاڑی چوری نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ بچہ ہی گاڑی کو چلا کر کچھ دور تک لے گیا تھا۔ اس بچے کو بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے پر ہلکی سی وارننگ بھی نہیں دی گئی۔ اسے بھی اگر شاملِ تفتیش کیا جائے تو پوری کہانی سامنے آ سکتی ہے۔ جب پولیس نے باپ بیٹے کو اگلی صبح عدالت میں پیش کیا تو وہاں کی ایک مقامی وکیل کے ذریعے ڈوگلس کی جانب سے گاڑی کی چوری کا کیس واپس لینے کی درخواست دے دی گئی۔ اب تک جو بھی پیش رفت سامنے آئی ہے‘ وہ انتہائی حیران کن بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک غلط شناخت کا کیس نہیں ہے۔ ایک ایسے کیس میں‘ جس پر پاکستان سے برطانیہ اور امریکہ سے اقوامِ متحدہ تک تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ پولیس اور مقامی انتظامیہ کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ حادثے کے وقت ارشد شریف کے پاس دو موبائل فون اور ایک لیپ ٹاپ تھا۔ شہید صحافی کی یہ تینوں اشیا اب کس کے پاس ہیں؟ ارشد شریف کا سامان کہاں ہے؟ سب سے اہم ان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون ہیں‘ جس کے قبضے میں بھی یہ تینوں اشیا موجود ہیںاس کا اس قتل سے گہرا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اصل معاملہ ہی دو موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کا تھا تو غلط نہیں ہو گا۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ سب چیزیں پاکستانی سفارتخانے کے پاس ہیں یا کینیا کی حکومت کے پاس؟ کیا پاکستان سے کوئی انہیں اپنی نگرانی میں لینے جا ئے گا؟ یہ سب اشیا مرحوم کی فیملی کو کیوں نہیں دی گئیں؟ نیروبی پولیس کے جنرل سروس یونٹ (GSU) کے جن چار افسران اور ان کے انچارج نے ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کی‘ ابھی تک ان سب کی کیس ہسٹری سامنے کیوں نہیں لائی گئی؟ ان کا فیملی بیک گرائونڈ‘ طرزِ زندگی اور پولیس سروس کا ریکارڈ کیوں نہیں میڈیا کے سامنے رکھا گیا؟ ان پولیس افسران کے اسلحے کو قبضے میں لے کر اس کا فرانزک کیوں نہیں کرایا گیا؟ ان کے موبائل فونز قبضے میں کیوں نہیں لیے گئے؟ دنیا بھر کا میڈیا مکمل ثبوتوں کی ساتھ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ کینیائی پولیس کرائے کے قاتلوں کے طور پر مشہور ہے اور اس کی تصدیق TRT اور الجزیرہ کی رپورٹس بھی کرتی ہیں۔ دو روز ہوئے نیروبی کے ایک سابق گورنر نے بیان دیا کہ ارشدشریف کی ٹارگٹ کلنگ انڈر ورلڈ کے لوگوں کا آپریشن ہو سکتا ہے جن میں نیروبی اور ممباسا کے بڑے بڑے کار ڈیلر گروپ شامل ہیں۔ دیکھتے جائیے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس بہیمانہ قتل کو اور کتنے نئے رنگ اور ٹویسٹ دیے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں