نرسیما رائو اور اٹل بہاری واجپائی نے بحیثیت وزیراعظم بھارت اپنے گھٹنوں کا علاج بھارتی ڈاکٹروں سے کرایا۔ پھر بحیثیت وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی اپنی سرجری بھارت ہی میں کرائی۔ زرِمبادلہ کے اعتبار سے کئی گنا بڑے ملک کے وزرائے اعظم اپنی سرجری اور اپنا علاج اپنے ہی ملک میں کرا سکتے ہیں تو پاکستانی سیاستدانوں کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ ذرا سے بخار پر بھی بیرونِ ملک بھاگے جاتے ہیں؟ سیاست دان ہی کیا‘ بڑے بڑے سرکاری افسران بھی اپنے علاج کے لیے لندن اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ اگر تو یہ اپنے علاج پر اپنی ذاتی دولت خرچ کریں تو پھر بھی درگزر کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بیرونِ ملک اپنے علاج کے اخراجات قرض کے بوجھ تلے دبی اور بھوک سے ماری قوم کی ہڈیوں سے نکلوائے جائیں تو ایسے میں بے بسی کے آنسو رونے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے؟
آج پاکستان کا ہر دوسرا گھر اور اس دھرتی ماں کا ہر دوسرا فرد جس کرب‘ تکلیف اور بدن کو چیرنے والے حالات کا شکار ہے‘ ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دور کیا جائیں‘ مہنگائی نے مجھ سمیت سفید پوش لوگوں کا بھرکس اس طرح نکال کر رکھ دیا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کیا کریں‘ کہاں جائیں؟ معاشرے کا اصل چہرہ دیکھنا ہو تو عالی شان عمارتوں اور پندرہ فیصد آبادی کو مت دیکھئے بلکہ 80 فیصد سے زائد عوام اور ان کے گھروں کو دیکھئے‘ ان کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں اور بازاروں میں کچھ وقت گزاریے۔ ان گلیوں کے اندر سے گزریے۔ حقیقت کو دیکھ کر روح کانپ اٹھے گی اور اعصاب شل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ہی اربابِ حکومت کو اندازہ ہو پائے گا کہ عمران خان کے لانگ مارچ میں لوگ اس تعداد میں کیوں شرکت کر رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطا بق پاکستان سے کالے دھن کے بیس ارب ڈالر سے زائد رقم سات سے زیادہ ممالک میں منی لانڈرنگ کی صورت میں بھیجی جا چکی ہے۔ برطانیہ سے آئی ایک خبر کے مطابق اس وقت لندن میں مقامی افراد سے زیادہ جائیدادیں بھارتیوں کی ہیں، یعنی لندن میں سب سے زیادہ جائیداد رکھنے میں بھارتی پہلے نمبر پر ہیں جبکہ اس خبر کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر پاکستانی شہری ہیں۔ شاید ہی کوئی بڑا ملکی سیاستدان یا ٹائیکون ہو جس کی لندن میں پراپرٹی نہ ہو۔ برطانیہ کی نیشنل اسیسمنٹ آف منی لانڈرنگ اینڈ ٹیررسٹ فنانسنگ 2020ء کی رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیاتھا کہ پاکستان سے ناجائز پیسہ بلارکاوٹ برطانیہ آ رہا ہے۔برطانیہ کے ہوم آفس اور ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کی مشترکہ طور پر پیش کردہ رپورٹ میں انکشافات کیا گیا کہ زیادہ تر پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے زیادہ برطانیہ پہنچتا ہے اور اس پیسے سے قیمتی اثاثے خریدے جا رہے ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں‘ دیگر کئی ملکوں میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
دبئی کی بروکریج فرم بیٹر ہومز کی طرف سے جاری کردہ 2022ء کی تیسری سہ ماہی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روس، برطانیہ، بھارت، جرمنی، فرانس، امریکہ اور پاکستان کے سرمایہ کار دبئی میں پراپرٹی کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ منی لانڈرنگ کا عفریت جب پا ناما لیکس‘ پنڈوا لیکس اور دوسری لیکس کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہوا تواس نے دنیا کے نجانے کتنے حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور ٹائیکونز کے چہروں پر پڑا ہوا نقاب الٹا کر ان کے ماتھے پر منی لانڈرنگ کی اَنمٹ مہریں ثبت کر دیں۔
منی لانڈرنگ آج صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ حکومتی اور ریاستی فنڈز کے علاوہ منشیات اور اسلحہ سمگلنگ سے حاصل کردہ ناجائز دولت کو بھی منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے اور وہاں زمین‘ جائیداد یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار وغیرہ شروع کر لیا جاتا ہے۔ منی لانڈرنگ کے الزمات کا شور ہمارے ملک کی سیاسی فضا میں پندرہ‘ بیس سال پہلے شدت سے گونجتا رہا مگر پھر میثاق جمہوریت کی وجہ سے یہ تھم گیا۔ بعد ازاں پاناما لیکس اور عمران خان کے مسلسل آواز اٹھانے کی وجہ سے اب یہ آواز ہر گھر میں پہنچ چکی ہے۔ جب تک پاکستان کی سیاست ملک بھر میں پھیلے بنیادی جمہوریت کے ایک لاکھ یا اس سے بھی زائد لوگوں تک محدود تھی‘ منی لانڈرنگ کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا لیکن جونہی بنیادی جمہوریت کی جگہ ''عوامی جمہوریت‘‘ ہماری جھولی میں پڑی‘ تب سے ہر طرف کرپشن‘ لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ان کارناموں کا سہرا محض سیاسی خاندانوں اور ان سے منسلک افراد کے سر نہیں جاتا بلکہ کوئی بھی شعبہ اس سے ماورا نہیں ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ اگر پاناما لیکس اور دوسرے سکینڈلز کے ذریعے کچا چٹھا سامنے نہ آتا تو کیسے پتا چلتا کہ ملکی دولت کن ہاتھوں میں سمٹ کر رہ چکی ہے؟ ان شاہی خاندانوں کی شاہی سواریاں ملک کی شاہراہوں سے گزرتے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا تھا کہ ہم ان کی وہ رعایا ہیں جن کا مقصد محض غلامی ہے۔ اگر یہ لیکس سامنے نہ آتیں یا ان پر خاموشی اختیار کر لی جاتی تو عام پاکستانی کو کیسے پتا چلتا کہ سینکڑوں شاہی افراد لندن‘ امریکہ‘ آئس لینڈ‘ مالٹا اور سوئٹزر لینڈ سمیت دوسرے کئی ممالک میں اربوں کی جائیدادوں کے حامل ہیں۔
امریکہ سمیت چند بڑے ممالک اور کنسورشیم دنیا کے مختلف حصوں میں جو بر سرِ اقتدار شخصیات کو پلٹ دیتے ہیں‘ ملکوں کی اشرافیہ کو اپنے تابع کر لیتے ہیں اور چھوٹے ممالک کو کہیں انسانی حقوق تو کہیں من گھڑت داستانوں میں جکڑ لیتے ہیں تو ان سب کا تعلق منی لانڈرنگ سے ہوتا ہے۔ یہ جو ہم سنتے اور پڑھتے ہیں کہ لندن، دبئی اور سوئٹزر لینڈ میں فلاں ملک کے شہریوں کی کروڑوں‘ اربوں کی جائدادیں ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کیلئے سرمایہ کیسے منتقل ہوا؟ اس کے بھیجنے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ اس کیلئے ہمیں 90ء کی دہائی کا جائزہ لینا ہو گا جب گلف آئل نے کوریا اور بولیویا کے سیاستدانوں کو کمیشن کے پیسے پہنچانے کیلئے بہاماس کے ذریعے چار ملین ڈالر منتقل کیے تھے۔ لاک ہیڈ کارپوریشن نے اٹلی کے سیاستدانوں کو نقد اور ڈرافٹس کی صورت میں ایک ٹرسٹ بنا کر 25 ملین ڈالر کا کمیشن دیا۔ لاک ہیڈ نے جاپانی سیاستدانوں کو رشوت دینے کیلئے امریکہ کے ایک مشہور فارن کرنسی ڈیلر ''ڈیک پریڈ‘‘ کو استعمال کیا جس نے 8.3 ملین ڈالرکے کالے دھن کو ایک بڑے سودے کی ڈیل کے ذریعے سفید کرنے کا چکر چلایا تاکہ کمپنی اکائونٹس میں اس کا بطور سفید دھن اندراج کیا جا سکے۔ دوسری طرف یہ رقم پندرہ ایسی ادائیگیوں کی صورت میں مطلوبہ افراد تک پہنچائی گئی جن کا کھوج لگانا انتہائی مشکل تھا۔ یہ جان کر شاید حیرانی ہو کہ یہ رقم ہانگ کانگ کے ایک ہسپانوی نژاد پادری کے فلائٹ بیگ اور سنگتروں کے کریٹوں کے ذریعے ٹوکیو میں لاک ہیڈ کے اہلکاروں کے حوالے کی گئی۔ اپنے من پسند سیاستدانوں، حکمرانوں اور بڑے بڑے اداروں کو خریدنے اور محفوظ طریقے سے کمیشن پہنچانے کی یہ چند مثالیں تھیں۔ ٹیکسوں کی چوری اور ہیرا پھیری کے ذریعے حاصل کردہ کالے دھن کو سفید کرنے کا عمل محض انفردای حیثیت میں ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی کارپوریشنوں، کمپنیوں اور بڑے بڑے کاروباری اداروں میں بھی جاری رہتا ہے جو ٹیکس سے بچنے اور متعلقہ اہلکاروں کو بھاری رشوتیں اور کمیشن ان کے ایجنٹوں کے کھاتوں تک پہنچانے کیلئے کالا دھن استعمال کرتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کو تیسرے فریق کے کاروبار میں لگا کر لیگل بنانے کے کام میں کئی حکومتیں بھی ملوث رہی ہیں خواہ ان کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہو یا نئے دہشت گرد تیار کرنا، جس طرح امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے سپلنٹر گروپ، داعش اور اس جیسے دیگر دہشت گروپ تیار کیے ہیں اسی طرح نکارا گوا کے باغیوں کو امریکی اسلحے کی خفیہ فروخت اور سودے بازی ایک تیسرے ملک کے ذریعے کی گئی جس کی بعد میں امریکی صدر ریگن نے با قاعدہ تصدیق بھی کر دی تھی۔ اس سودے بازی کے بعض پہلوئوں پر کافی دیر پردہ پڑا رہا لیکن یہ راز چھپا نہیں رہ سکا کہ درپردہ اس میں امریکہ نے ایک اور ملک کی مدد سے اس تیسرے ملک تک اسلحہ پہنچایا اور رقم نکارا گوا کی مارکسسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے کونٹرا باغیوں کو دی گئی اور یہ آپریشن سی آئی اے کے ڈائریکٹر وِلیم کیسی کی نگرانی میں انجام پایا۔