عمر شریف مر حوم اکثر ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک خاتون‘ جس کے سات بچے تھے‘ اپنی پڑوسن کو بڑی حسرت سے کہتی ہے ''بہن کیا بتائوں ابھی تک مجھے سچا پیار نہیں ملا‘‘۔ ان کا یہ لطیفہ اس وقت یاد آنے لگتا ہے جب میاں نواز شریف کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ ''مجھے اپنے خلاف پاناما مقدمے میں فیئر ٹرائل نہیں ملا‘‘۔ 126 دن یعنی 18 ہفتوں تک سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس کی سماعت ہوتی رہی‘ اس دوران بینچ میں شامل ہر جج انفرادی طور پر بھی میاں نواز شریف کے وکلا سے منی ٹریل طلب کرتا دکھائی دیا۔ مگر منی ٹریل نامی کاغذ کے ٹکڑے کو ملنا تھا اور نہ ہی ملا۔ اس کے با وجود سب نے دیکھا اور مقدمے کی سماعت کا ریکارڈ گواہ ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کے اس کیس کی سماعت کے دوران انہیں بھرپور مواقع دیے جاتے رہے کہ جا کر کہیں سے کچھ تو ڈھونڈ لائیں۔ پہلی بار سماعت کے بعد فیصلہ دینے سے گریز کیا گیا اور مزید تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اس کے بعد بھی پانچ دن تک مسلسل اعتراضات سنے جاتے رہے اور پھر کہیں جا کر اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا۔ اس قدر رعایت ملنے کے با وجود یہ شکوہ کیا جا رہا ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں ملا۔
یہاں پر پاناما کیس کے کچھ عبوری حقائق بیان کر رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ فیئر ٹرائل ملا کہ نہیں۔ سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے وزیر اعظم نواز شریف کو پاناما کیس میں متفقہ طور پر نااہل قرار دیا تھا۔اپریل 2016ء میں سامنے آنے والے پاناما سکینڈل کی سپریم کورٹ میں سماعت یکم نومبر 2016ء کو شروع ہوئی اور 23 فروری 2017ء کو فیصلہ محفوظ کیا گیا، 20 اپریل کو تین‘ دو سے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ سامنے آیا تو مزید تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جاری کیے گئے مختصر حکم نامے میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے عدالت کو غلط معلومات فراہم کیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ہل میٹل، عزیزیہ مل اورلندن فلیٹس پر ریفرنس دائر کرنے کا بھی حکم دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ نواز شریف 2013ء کے الیکشن میں بھی درست اثاثے پیش نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کیا تھا جبکہ اس سے تقریباً تین ماہ پہلے ایک تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس ٹیم میں نیب، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے شامل تھے۔ جے آئی ٹی نے (اس وقت کے) وزیر اعظم نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کو طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار‘ حسن نواز کو 3 بار طلب کیا جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو بھی طلب کیا گیا۔ جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کر کے 10 جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو پیش کی۔ 10 جلدوں پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد پیش کیے گئے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 17 جولائی کو فریقین کے اعتراضات سنے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو 28 جولائی 2017ء کو سنایا گیا۔ اس کے بعد بھی میاں صاحب کو گلہ ہے کہ فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی معزز بینچ نے پاناما لیکس کی پہلے حصے کی طویل سماعت کے بعد حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے چھ اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور جب معزز بینچ نے جے آئی ٹی کا اعلان کیا تھا تو مسلم لیگ نواز کے رہنما وکٹری کے نشانات بناتے ہوئے عدالت سے باہر آئے اور مٹھائیاں بانٹتے ہوئے باقاعدہ فوٹو شوٹ کرایا جو اگلے کئی دنوں تک موضوعِ گفتگو بنا رہا۔ وزیراعظم ہائوس کے اندر کی تصاویر بھی میڈیا کو جاری کی گئیں کہ کس طرح اس ''بے مثال‘‘ فیصلے کی خوشی میں مٹھائیاں کھائی جا رہی ہیں۔ اہلِ خانہ اور پارٹی رہنمائوں کے علاوہ وہ سینیٹر صاحب بھی میاں صاحب کے ہمراہ کھڑے تھے جو آج پانچ سال بعد پاناما کیس پر طرح طرح کے سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت ان کی خوشی دیدنی تھی۔ ایک دوسرے کا منہ میٹھا کرانا اور سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر پانچ وفاقی وزرا کا وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نعرے بازی کرنا‘ کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ فیئر ٹرائل ہوا تھا؟ اب اگر میاں نواز شریف شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں کورٹ سے فیئر ٹرائل نہیں ملا تو پھر ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ ان کی فرمائش پر ان کی پارٹی کے کچھ لوگ یہ کیس سنیں اور انہیں کلین چٹ دے دیں یا کوئی نیا ''لون کمیشن‘‘ بنایا جائے۔
صرف اعتزاز احسن پر ہی موقوف نہیں جو اکثر یہ شکوہ کرتے سنے جاتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی ''لاڈلا‘‘ ہے تو وہ شریف خاندان ہے‘ کئی دیگر طبقات بھی شواہد کے ساتھ یہ بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سب سے زیادہ رعایات اگر کسی کو ملی ہیں تو وہ شریف خاندان ہے۔ آج جس اقامہ کو ایک طعنہ بنا کر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاناما کا کیس بنا کر اقامہ میں نااہل کیا گیا‘ تب یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ یہاں بھی خاصی رعایت برتی گئی، وگرنہ پانچ رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ یہ کہتا ہے کہ سپریم کورٹ میں اپنی صفائی کیلئے پیش کیے گئے بیشتر ڈاکیو منٹس جعلی اور بوگس تھے۔ ان کے باوجود مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس سے قبل ملک کے سب سے بڑے ایوان‘ قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر کی جانے والی تقریر کو سپریم کورٹ میں یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ وہ محض سیاسی بیان تھا۔ کون نہیں جانتا کہ مجسٹریٹ یا سول کورٹ تو ایک طرف‘ اگر کسی بھی سرکاری محکمے میں کوئی جعلی کاغذ یا سرٹیفکیٹ جمع کرایا جائے تو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 420، 468، 471 اور 478 کے تحت مقدمہ درج ہو جاتا ہے جس کی سزا دس سے چودہ برس تک ہے لیکن اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے فیصلہ صرف اقامہ تک محدود رکھا گیا۔
بوگس اور جعلی کاغذات کو ایک طرف رکھ کر اگر دیکھیں تو 126 دنوں کی طویل سماعت اور اپنے دفاع میں کسی بھی قسم کا ثبوت پیش نہ کر سکنے کے باوجود لندن میں میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ مجھے فیئر ٹرائل نہیں ملا‘ سب کیلئے سوچنے کی بات ہے۔ اس سے زیادہ فیئر ٹرائل اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو مسلسل اپنے دفاع کا موقع دیا جائے مگر آپ کچھ بھی پیش کرنے سے قاصر رہیں، پھر جب فیصلہ آجائے تو وقتی طور پر خاموش ہو جائیں اور انتظار کریں کہ لوگ سب کچھ بھول بھال جائیں اور پھر اچانک ایک دن انہی لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر‘ جن کی آپ منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہے ہوں اور جن کے حوالے سے بوگس کاغذات اعلیٰ ترین عدلیہ میں پیش کیے گئے ہوں‘ یہ کہنے لگ جائیں کہ میرے ساتھ ناانصافی ہوئی، فیئر ٹرائل نہیں ملا، اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔
یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ جب پاناما لیکس منظر عام پر آئیں اور اس میں اس وقت کے وزیراعظم کے اہلِ خانہ کے نام بھی شامل تھے تو تب بھی ان لیکس کو سازشی تھیوری اور بوگس پیپر قرار دے کر نظر انداز کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم نے پاناما لیکس کے کچھ ہی دن بعد استعفیٰ دے دیا کیونکہ پاناما لیکس سے معلوم ہوا تھا ان کی اور ان کی اہلیہ ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں جس کے بارے میں انہوں نے پارلیمان میں داخل ہونے سے قبل نہیں بتایا تھا۔ برطانیہ میں اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو سخت سیاسی خفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے تسلیم کیا کہ ان کے والد کی جانب سے قائم ایک ''لیگل‘‘ آف شور کمپنی سے ان کا خاندان مستفید ہوا تھا۔ امریکہ سمیت متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک بشمول بھارت نے ان لیکس میں شامل اپنے شہریوں کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا کہ آیا وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب تو نہیں ہوئے۔ اس سے زیادہ ان لیکس کی حقانیت اور کیا ہو سکتی ہے؟