فرض کیجیے کہ ایک شخص لاہور کے کسی بھی حلقۂ انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے متعلقہ پولنگ سٹیشن پر پہنچتا ہے تو وہاں ووٹر لسٹ دیکھ کر اسے بتایا جاتا ہے کہ تمہارے اور تمہارے اہلِ خانہ کے علاوہ تمہارے گھر کے ایڈریس پر چھ ایسے افراد کے بھی ووٹ رجسٹرڈ ہیں جو اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔ ووٹنگ لسٹ میں درج ان افراد کو نہ تو وہ جانتا ہو اور نہ ہی کبھی ان کا نام سنا یا چہرہ دیکھا ہو اور جب یہ معلوم ہو کہ یہ چھ ووٹ جو اس کے گھر کے پتے پر جعلسازی سے درج کرائے گئے ہیں‘ وہ ووٹ ایک سیاسی جماعت کے حق میں کاسٹ بھی کیے جا چکے ہیں تو سوچئے کہ اس شخص کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ اگر وہ شخص اس کا تذکرہ اپنے کسی دوست سے کرے اور وہ بھی اسی قسم کی کہانی سنائے کہ اس کے گھر کے ایڈریس پر بھی سات‘ آٹھ نامعلوم ووٹوں کا اندراج ہو چکا ہے اور یہ صرف دو گھرانوں ہی نہیں بلکہ کئی لاکھ گھرانوں کا مسئلہ ہو تو کیا ایسے میں الیکشن کمیشن اور نادرا سمیت متعلقہ حکام کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اس کی تحقیقات کریں کہ نامعلوم لوگوں کے ووٹ متاثرہ افراد کے گھروں کے ایڈریس پر کس نے اور کیسے درج کرائے‘ وہ کون سا اہلکار تھا جس کی متعلقہ علاقے میں ووٹنگ لسٹ مرتب کرنے کی ڈیوٹی تھی؟
مذکورہ بالا واقعہ کوئی کہانی نہیں بلکہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ستمبر 2017ء میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور بیگم کلثوم نواز کے درمیان لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران پیش آنے والے وہ سچے واقعات ہیں جنہوں نے کئی دنوں تک ایک دھوم مچائے رکھی۔ وہ میڈیا پرسنز‘ جنہوں نے اس اہم ضمنی انتخاب کی کوریج کی‘ یقینا اس بات کے گواہ ہوں گے کہ کم و بیش ہر پولنگ سٹیشن پر اسی قسم کی چیخ و پکار دیکھنے اور سننے کو ملتی رہی کہ ''وہ نامعلوم ووٹرز کون تھے جن کا اندراج ہمارے گھروں کے پتے پر جعل سازی سے کیا گیا؟ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ لاہور سمیت کچھ شہروں میں گھاگ سیاسی جماعتوں اور سیاسی گھرانوں نے بڑی مہارت سے ہر انتخابی حلقے میں دس ہزار تک کے بوگس ووٹوں کا اندراج کرا رکھا ہے اور خان صاحب کو یہ راز ان لوگوں کی جانب سے بتائے گئے جو چند برس قبل تک روایتی سیاسی جماعتوں کی جانب سے لاہور میں اس طرح کے انتظاما ت کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے۔
پی ٹی آئی جب اقتدار میں آئی تو اس نے بہت کوشش کی کہ ہر ایک گھرانے کی ووٹر لسٹ کا مکمل آڈٹ کرایا جائے اور جب لاہور کے ایک حلقے میں اس کام کا آغاز کیا گیا تو سب لوگ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ابھی لاہور کے ایک حلقے کی نصف کے قریب ہی پڑتال ہوئی تھی کہ سات ہزار سے زائد غیر متعلقہ افراد‘ جو متعلقہ ایڈریس پر نہ کبھی بطور مالک یا کرایہ دار رہائش پذیر رہے اور نہ ہی علاقے کے لوگ انہیں جانتے تھے‘ کے نام بطور حلقہ ووٹر انتخابی فہرستوں میں درج تھے۔ ابھی ایک حلقے کی پڑتال بھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ نجانے کیا ہوا کہ الیکشن کمیشن نے یہ کام ہی ٹھپ کر دیا۔ حلقہ این اے 120 کے اس مشہور ضمنی الیکشن کو پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد کی وہ اپیل نہ جانے فائلوں کے کس قبرستان میں دفن ہے‘ جس میں انہوں نے لارنس روڈ‘ لاہور کے دو گھرانوں کی طرز پر قریب بیس ہزار سے زائد بوگس اور جعلی ووٹوں کے اخراج کی پٹیشن دائر کی تھی۔ اب پھر چند ماہ میں یا بقول وفاقی وزیر مریم اورنگزیب‘ اگلے سال اکتوبر میں‘ نئے عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے‘ ایسے میں اس سوال کا اٹھایا جانا فطری ہے کہ کیا لاہور سمیت دیگر شہروں میں اپنے حلقوں کو محفوظ بنانے کے لیے درج کیے گئے جعلی اور بوگس ووٹ ابھی تک برقرار ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ رواں سال جولائی میں پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ہونے والے اہم ضمنی انتخابات میں چالیس لاکھ سے زائد ایسے ووٹرز کی نشاندہی کی گئی تھی جو زندہ تھے‘ مگر ووٹنگ لسٹوں میں انہیں مردہ ظاہر کیا گیا تھا۔ انہی ضمنی انتخابات کے دوران مشہور اداکار شان شاہد کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ کیا وہ ڈھکا چھپا ہے؟ اداکار شان ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلے مگر دو گھنٹے تک وہ اپنا متعلقہ پولنگ بوتھ ہی تلاش کرتے رہے‘ کبھی ایک پولنگ بوتھ تو کبھی کسی دوسرے پولنگ بوتھ پر انہیں بھیجا جاتا، آخر کار جب وہ متعلقہ پولنگ بوتھ پر پہنچ گئے تو ووٹنگ ختم ہونے میں دس منٹ کا وقت ہونے کے باوجود انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسے ایک انفرادی واقعہ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ شان کی مذکورہ سوشل میڈیا پوسٹ پر آج بھی درجنوں بلکہ سینکڑوں ایسے لوگوں کے کمنٹس پڑھے جا سکتے ہیں‘ جنہیں بالکل اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
2015ء میں لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب سے متعلق بھی ایسی ہی کہانیاں سننے کو ملی تھیں۔ یہ شاید ملکی تاریخ کا واحد ایسا حلقۂ انتخاب تھا جہاں صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں پی ٹی آئی نے جیتیں مگر قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ نواز کے امیدوار سردار ایاز صادق کامیاب ہوئے۔ اس وقت کے پی ٹی آئی کے امیدوار علیم خان نے اس پر ایک پٹیشن بھی دائر کی تھی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں ایک نرالا طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ چونکہ کیس عدالت میں زیرِ سماعت تھا لہٰذا کوئی بھی فیصلہ آنے سے پہلے ہی وارڈ عہدیداروں کی مرتب کردہ ایسے افراد کی فہرستیں بنائی جا چکی تھیں جن کے بارے میں غالب امکان تھا کہ یہ تحریک انصاف کے حامی ہیں‘ لہٰذا ضمنی انتخابات میں ان گھرانوں کے ووٹوں کو اس حلقے سے لاہور کے دیگر الیکٹورل حلقوں میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ میرے اپنے ایک عزیز جب ووٹ ڈالنے گئے تو پتا چلا کہ ان کا تو نام ہی ووٹنگ لسٹ میں درج نہیں۔ وہ شدید حیران ہوئے کہ چند ماہ قبل ہوئے عام انتخابات میں تو انہوں نے ووٹ ڈالا تھا‘ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا ووٹ شیراکوٹ کے حلقے میں منتقل کر دیا گیا ہو۔ کسی ایک کے ساتھ نہیں‘ نجانے کتنے ہزار ووٹروں کے ساتھ ایسا ہی ہوا کہ ووٹ کاسٹ کرنے جب وہ متعلقہ پولنگ سٹیشن پہنچے تو پتا چلا کہ ان کا تو ووٹ ہی مذکورہ حلقے میں درج نہیں ہے۔ محض ووٹرز ہی نہیں‘ پی ٹی آئی کی ایک رکن صوبائی اسمبلی کا ووٹ بھی مزنگ سے جلو موڑ منتقل کر دیا گیا تھا جس پر وہ شور مچا مچا کر تھک گئیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔
اِس وقت تحریک انصاف نئے الیکشن کا مطالبہ تو کر رہی ہے‘ بڑے بڑے جلسے کرنے میں اسے کمال حاصل ہے‘ وہ مسلم لیگ کے قلعے‘ لاہور کو فتح بھی کرنا چاہتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ اس قلعے کو فتح کیسے کرنا ہے۔ اگر پی ٹی آئی لاہور میں صاف اور شفاف انتخابات کرانا چاہتی ہے تو اسے ہر حلقے پر محنت کرنا ہو گی اور ووٹرز لسٹوں سے ان بوگس اور جعلی ووٹوں کا اخراج کرانا ہو گا جن کے ووٹوں کو ''کلین سویپ‘‘ اور ''قلعے‘‘ پر اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات کا یہ منظر مختلف کیمروں میں ریکارڈ ہو کر عوام کے سامنے آ چکا ہے کہ مصطفی ٹائون اور جوہر ٹائون میں قائم مختلف پولنگ سٹیشنز پر عام لوگ جب قطاروں میں کھڑے ووٹ ڈالنے کیلئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے تو اچانک ایک بڑی بس آ کر رکی اور پچیس کے قریب خانہ بدوش عورتوں کو اس بس سے اتارکر پولیس کی نگرانی میں ان کے ووٹ ڈلوانے کے لیے انہیں پولنگ بوتھ میں لے جایا گیا۔ جب پہلے سے قطار میں کھڑی خواتین نے اعتراض کیا تو پولیس اہلکاروں نے ان کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ چند منٹوں میں وہ خانہ بدوش عورتیں اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد دوبارہ بس میں بیٹھیں اور بس اپنی نئی منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف لاہور میں ایسے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف اس وقت انتخابات کا مطالبہ شدو مد سے اٹھا رہی ہے حالانکہ سب سے پہلے کرنے والا کام ووٹنگ لسٹوں کو صاف اور شفاف بنانے کا ہے‘ وگرنہ ایک بار پھر 2013ء کے عام انتخابات کے بعد کا منظر دیکھنے کو مل سکتا ہے جب سبھی سرویز میں سبقت لے جانے والی پی ٹی آئی الیکشن ڈے مینجمنٹ کی وجہ سے انتخابات میں شکست کھا گئی تھی۔