موسم سرما شروع ہوتے ہی ملک بھر میں گیس کے بحران نے اُسی طرح عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں جیسے گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بناتی ہے۔ پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں ایلیٹ کلاس یا اشرافیہ کی تعداد زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ کے قریب ہوگی‘ اس ایک کروڑ آبادی کو چھوڑ کر ہر پاکستانی گیس اور بجلی کے بڑھتے بلوں اور اُن کی شدید کمی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ جن گھروں کو روزانہ صرف تین یا چار گھنٹوں کے لیے گیس مل رہی ہے اور وہ بھی کم پریشر کے ساتھ جوکہ نہ ملنے کے برابر ہے‘ ان کے دکھ‘ تکلیف اور بے چارگی کا اندازہ اقتدار کے ایوانوں اور گرم اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوؤں کو کیسے ہو سکتا ہے۔
کل تک پیپلز پارٹی کی قیادت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتی تھی کہ ایران گیس پائپ لائن معاہدہ اُس کی حکومت کا وہ کارنامہ ہے جسے سنہری حروف میں لکھا جائے گا‘ جسے بعد میں مسلم لیگ (ن) نے التوا کا شکار کیا۔ میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج جب پوری پی ڈی ایم عمران خان کو نا اہل کرانے اور اُن کے ساتھیوں کو پابندِ سلاسل کرانے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیوار بن کر کھڑی ہے تو پھر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل کرنے سے کیوں کترا رہی ہیں؟ آج انہیں حکومت سنبھالے 8ماہ ہو چکے ہیں لیکن نہ جانے کس خوف سے پاک ایران گیس پائپ لائن کے الفاظ بھی اُن کی زبان پر نہیں آ سکے؟ عالمی صورت حال دیکھیں تو اب سعودی عرب جیسا ملک بھی امریکہ پر مکمل بھروسا کرنے کے بجائے چین اور روس کے قریب ہو رہا ہے تو پھر ہمیں اپنی قوم اور ملک کے مفاد کے لیے غلامی کا طوق پھینکنے کی ہمت کیوں نہیں ہو رہی؟ شنید ہے کہ نواز لیگ کے گزشتہ دورِ حکومت میں امریکہ اور سعودیہ نے ملک کو درپیش گیس بحران کو دور کرنے اور ایران سے گیس معاہدہ ختم کرنے کے بدلے میں قطر سے گیس لینے کی راہ دکھائی‘ جس کے بعد ایک دن اُس وقت کے وزیر توانائی نے ا علان کیا کہ پاکستان قطر سے ڈھائی ارب ڈالر کی ایل این جی خریدے گا۔ 2014ء میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں ایک خبر شائع ہوئی جسے ملک کے تمام قومی اخبارات نے بھی شہ سرخیوں کا حصہ بنایا‘ وہ خبر وفاقی وزیر توانائی کا یہ بیان تھا کہ پاکستان قطر سے ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کی ایل این جی خریدنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ اس وقت فنانشل ٹائمز نے یہ تجزیہ بھی پیش کیا کہ قطر کے ساتھ اس معاہدے کے بعد ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا اور یہ کہ قطر سے معاہدے کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے بس باضابطہ طور پر سپلائر کے نام کی منظوری کا انتظار ہے اور یہی وہ انتظار تھا جو آج بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ پاکستان کی طرف سے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کی وجہ سے بھارت کو موقع مل گیا اور اُس نے سودے کو درمیان ہی سے اُچک لیا تاکہ پاکستان نہ ادھر کا رہے نہ ادھر کا اور پھر سب کچھ سامنے آ گیا جب بھارت نے قطر سے 12ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے گیس کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی جبکہ پاکستان یہی سودا 18ڈالر میں کررہا تھا۔ شاید یہی وہ اصل وجہ تھی جس نے اس معاہدے کو کچھ عرصہ کے لیے لٹکائے رکھا۔ 2014ء میں اُس وقت کے وفاقی وزیر توانائی شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قطر سے سالانہ 3.5ملین کیوبک فٹ ایل این جی خریدی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کی یومیہ گیس ضرورت اس مقدار سے کہیں زیادہ تھی۔ قطر سے ایل این جی خریدنے کے اس معاہدے اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے خاتمے کا انکشاف راقم نے سات جون 2013ء کو دنیا اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالم ''درست قدم اٹھائیں‘‘ میں کچھ یوں کیا کہ کالم نگاری میں خیالات کی جگالی سختی سے ممنوع ہے لہٰذا میں اپنے کالم کا آغاز کسی نئی بات سے کروں گا اور وہ نئی بات یہ ہے کہ ''نئی حکومت نے ایران سے گیس پائپ لائن کے بجائے قطر سے این ایل جی کا کاروبار بڑھانے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے‘‘ ۔
اس وقت پاکستان کی معیشت جس تباہی کا شکار ہے وہ لاکھ چھپائیں مھر پھر بھی سب کے سامنے ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں ہم ایران گیس پائپ لائن سے بے اعتناعی برت رہے ہیں جس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف امریکہ‘ سعودیہ اور برطانیہ اس منصوبے کے مخالف ہیں تو دوسری طرف چین‘ روس اور ایران اس منصوبے کے زبردست حامی ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے کچھ بااثر افراد کا جھکائو اولذکر گروپ کی طرف ہے‘ اس لیے وہ اس منصوبے پر عمل در آمد کی کوششوں کو ناکام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ 2775کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن جو ایران کی گیس فیلڈ پارس سے شروع ہوئی تھی‘ وہ ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہوگی جبکہ بقیہ چھ سو کلومیٹر گیس پائپ لائن بھارتی علاقے سے گزرے گی۔ اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر اگست 2008ء میں چین نے بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی با قاعدہ خواہش کا اظہار کیا تھا۔ چین کی اس خواہش نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکہ مزید سیخ پا ہو گیا۔ گیس پائپ لائن کے اس ابتدائی منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ اس و قت سات بلین ڈالر لگایا گیا اور یہ پائپ لائن بیالیس سے پچاس انچ ڈایا میٹر کی تھی‘ اس پر پاکستان کے اخراجات 3.2بلین ڈالر آنے کا امکان تھا۔ پاکستان جب اپنی مفلوک الحالی کی وجہ سے اس قدر بھاری رقم کی فراہمی سے قاصر ہو گیا تو چین نے آگے بڑھتے ہوئے 2010ء میں اس منصوبے کیلئے2.5 ملین ڈالر دینے کی حامی بھرلی۔ چین کے بعد اپریل 2012ء کو روس نے بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے پاکستان کو مکمل بیل آئوٹ پیکیج کی پیش کش کرتے ہوئے اپنی گیس کی سب سے بڑی کمپنی Gazprom کی معاونت سے پاکستان کے تمام ٹیکنیکل اور فنانشل اخراجات برادشت کرنے کا اعلان کر دیا جو امریکہ اور اس کے حامی ممالک کو کسی صورت بھی گوارہ نہیں تھا۔
جیسا کہ ابتدا میں لکھا ہے کہ یہ منصوبہ اپنے آغاز سے ہی کچھ آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہو گیا تھا اور 1996ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے جہاں چند اور اسباب تھے وہاں یہ منصوبہ بھی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تو پاکستان میں بیٹھ کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اس منصوبے کی مخالفت کردی تھی اور ان کے اس بیان کے بعد امریکہ نے پاکستان کو باقاعدہ طور پر اس پراجیکٹ سے مکمل اور قطعی علیحدگی کا مشورہ دیا اور اس کے بدلے پیشکش کی کہ امریکہ پاکستان کو ایل این جی ٹرمینل کے علاوہ تاجکستان سے براستہ افغانستان سستی بجلی مہیا کرا دے گا۔ دوسری طرف سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ نے یہ پیش کش کی کہ ایران سے گیس کے بدلے ہم پرائیویٹ کیش لون اور تیل کی سہولت پاکستان کو مہیا کرتے رہیں گے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو جاتا تو پاکستان کو 200 سے 500ملین ڈالر سالانہ آمدنی کے علاوہ روزانہ ساٹھ ملین کیوبک میٹرگیس مل سکتی تھی جس سے ہمارے تیل کے اخراجات کم ہو جاتے اور ملک میں صنعتوں کو گیس کی وافر فراہمی سے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکتے تھے لیکن یہ اُس صورت ممکن تھا جب قوم عہد کر لیتی کہ ہم کسی کے غلام نہیں!