"MABC" (space) message & send to 7575

جب تک ہم قدم نہ ہوں گے

کسی بھی خطے‘ کسی بھی مذہب اور عقیدے پر قائم ہونے والی ریاست اور سلطنت اس وقت تک نہ تو اقوام عالم میں اپنا باعزت مقام بنا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی سالمیت کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے جب تک اس کی قوم اور اداروں کی سوچ یکساں نہ ہو اور جب تک وہ ایک دوسرے کے ہم قدم نہ ہوں۔ ان کا ایک دوسرے کے ہم قدم ہونا ہی ان کی ترقی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ تاریخ کی وہ داستان ہے جب ریاستی و دفاعی ادارے اور قوم ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ایک دوسرے کے دشمن بن کر دنیا بھر میں خود کو تماشا بنا کر رکھ دیا۔ جس طرح انسانی جسم پر لگنے والے کاری زخم زندگی بھر اپنے نشانات برقرار رکھتے ہیں‘ اسی طرح ڈھاکہ کے پلٹن میدان سے کھلنا جیسور اور چٹاگانگ کے میدانوں تک میں سولہ اور سترہ دسمبر 1971ء کو ملنے والی ہزیمت اور لوگوں کی ازلی دشمن کے سامنے جھکی ہوئی گردنیںلاکھ بھلائے نہیں بھولتیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اُنہی لوگوں کو‘ جو کل تک بنگلہ دیش کے قیام کے حوالے سے بھارت کی سوچ اور نظریے کے حامی تھے‘ 51 برس گزرنے کے بعد بھی سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب بیان کرتے دیکھا جاتا ہے۔ کیا اب فیصلہ سازوں کی سوچ میں فرق آ چکا ہے؟ کیا مکتی باہنی اور 'را‘ کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے رہنے والوں سے متعلق فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ اب یہ ہمارے ساتھی نہیں رہے‘ ان کی سوچ پرانی ہے؟ ہماری پالیسی سازی میں نہ جانے وہی چاک چکر دیکھنے کو کیوں ملتے ہیں۔
بھارت پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی 16 دسمبر 1971ء کو لگائے گئے زخم کی لذت سے سرشار ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔ دوسری طرف پاکستان قوم کو توقع تھی کہ ہمارے حکمران‘ ہمارے اربابِ بست و کشاد اس ہزیمت سے کچھ سبق سیکھیں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پایا اور من حیث القوم ہم سب بھارت کو ایک بار پھر موقع پر موقع فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت نے تو اپنی ''ہزار سالہ غلامی کا بدلہ‘‘ بنگلہ دیش بنانے کی صورت میں لے لیا‘ لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ برہمن دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں غرق کرنے کی ''عظیم الشان‘‘ فتح کے نشے کے چور ہو کر کروڑوں روپے خرچ کرکے بنگلہ دیش میں اب تک متعدد بین الاقوامی تقریبات منعقد کرا چکا ہے۔ 15 دسمبر 2013ء کو اسی طرح کی ایک تقریب میں بھارت کے ایسے دوستوں، ہمدردوں، دانشوروں اور قلم کاروں کو اعزازات سے نوازا گیا تھا جنہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارتی جارحیت کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کی کسی نہ کسی طریقے سے مدد کی تھی اور پاکستان کے دفاعی و ریاستی اداروں کو غاصب و جارح ثابت کیا تھا۔ بنگلہ دیش میں برسراقتدار شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور بھارتی حکومت کے زیر انتظام وزارت برائے جنگ آزادی نے 150 کے لگ بھگ ان غیر ملکی ہمدردوں اور دوستوں کو بنگلہ دیش مدعو کیا جنہوں نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بھرپور مدد فراہم کی تھی۔ ڈھاکہ میں منعقدہ اس خصوصی تقریب کے مہمانِ خصوصی بھارت کے اس وقت کے صدر پرناب مکھرجی تھے۔ 
اس سے قبل 25 جولائی2011ء کو کانگریس اور بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کی ہدایت پر بنگلہ دیش کی آزادی کے دوستوں ''فرینڈز آف بنگلہ دیش‘‘ پر پہلی خصوصی تقریب منعقد کرائی گئی تھی جس میں آنجہانی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو بنگلہ دیش کی تخلیق میں مرکزی کردار ادا کرنے پر بعد از مرگ بنگلہ دیش کے اعلیٰ ترین سول اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ دوسری تقریب 27 مارچ 2012ء کو منعقد ہوئی جس میں 83 کے قریب بین الاقوامی تنظیموں اور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ تیسری تقریب 20 اکتوبر 2012ء کو کرائی گئی‘ جس میں61 بین الاقوامی اداروں اور اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 لکھاریوں اور ہیومن رائٹس سے متعلق کچھ خواتین کو بھی مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے کسی نہ کسی طور بنگلہ دیش بنانے میں مدد فراہم کی تھی۔ جن پاکستانیوں نے بنگلہ دیش جا کر بنگلہ دیش کی آزادی کے نام پر ایوارڈز وصول کیے‘ وہ گمنام لوگ نہیں۔
دنیا بھر سے پاکستان دشمن عناصر کو بنگلہ دیش بلا کر دو قومی نظریے کو دفن کرنے کے جشن میں منعقد کی جانے والی تقاریب اور ان میں پڑھے جانے والے مقالوں کی بات کرنا میں اس لیے مناسب نہیں سمجھتا کہ ان میں پاکستان اور پاک فو ج سے متعلق وہ پروپیگنڈا کیا گیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ افسوس تو ان پر ہوتا ہے جنہوں نے ایوارڈز کے لالچ میں اپنے لبوں پر تالا لگائے رکھا اور کسی قسم کا جواب دینے کی جرأت نہیں کی۔ ان لوگوں سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی۔ ان تقریبات میں جس بات کی سب سے زیادہ تکرار کی گئی‘ وہ پاکستان کے وجود سے متعلق تھی کہ یہ کیوں بنایا گیا تھا اور اس کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اس بات پر بھی بحث کی جاتی رہی کہ اس کی اب خطے میں کیا ضرورت ہے؟ ایک طرف پاکستانی قوم ہے جو اکیاون سال قبل دشمن کے تیز دھار آلے سے لگنے والے اپنے زخموں کو بھول کر دشمن کے جال میں پھنستی جا رہی ہے‘ تو دوسری طرف بھارت ہے جو ہمارے زخموں سے رسنے والے خون پر نمک چھڑک کر لطف اندوز ہو رہا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی قیادت کو ہوش ہی نہیں کہ پاکستان کے خلاف ایک بار پھر ایک بڑی سازش کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادتیں سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے تقریبات، سیمینارز اور جلسے کراتی ہیں‘ جن میں ان کے پاس عوام کو کوئی پروگرام دینے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے ملک کے اداروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کسی سیاسی جماعت نے بھارت کی قیامِ بنگلہ دیش سے متعلق ہونے والی تقریبات کو اپنی پریس کانفرنسز یا تقاریر کا موضوع نہیں بنایا۔ پاکستان کے عوام کو لاعلمی کی نیند سے جاگنا پڑے گا کہ آخر چار‘ پانچ دہائیوں کے بعد باسی کڑی میں ابال کیوں آیا؟
بھارت کی پالیسی کو سمجھنے کے لیے ایک ایسی ہی تقریب میں کلدیپ نائر کی ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر کی جانے والی تقریر کو سمجھنے کی کوشش کریں جس میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کو یہ سبق پڑھایا جا رہا تھا کہ چھوڑو سب کچھ اور صرف سائوتھ ایشین بن جائو۔ ''سائوتھ ایشین یونین‘‘ کا یہ تصور دراصل بھارت کے اندر پرورش پانے والا ایسا نقشہ تھا جس پر وہاں دن رات کام ہو رہا ہے۔ یہ تجویز دراصل امریکہ کی اشیرباد سے بنا وہ منصوبہ ہے جس میں بھارت اپنی فوجی طاقت اور بھاری معیشت کے ساتھ اس خطے کے ہر ملک کو ڈرا دھمکا کر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال، میانمار اور بھوٹان کو وہ پہلے ہی زیر کر چکا ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا بھی بھارتی امداد کے سبب چپ چاپ کھڑا ہے۔ بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو بطور کوریڈور استعمال کرتے ہوئے شمال مشرقی ریاستوں میں ہونے والی بغاوتوں کو کچل ڈالے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہمیشہ اس کے اشاروں پر ناچنے والی حکومت ہو جس کی داخلی، دفاعی اور خارجہ پالیسی بھارت کی منشا کے مطابق ہو۔ بھارت کے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی بھارت کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر بنگلہ دیش کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں دن رات مصروف ہے۔ صرف ''تپائی مکھ پروجیکٹ‘‘ کاجائزہ لے لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ شیخ حسینہ حکومت بھارت کی غلامی میں اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بنگلہ دیشی رائفلز کی بارڈر آبزرور پوسٹوں پر بھارتی فوجیوں کی گولہ باری روزکا معمول بن چکی ہے لیکن بنگلہ حکومت کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا۔ بھارت کی سرحدی فورس اپنی نگرانی میں بنگلہ دیش میں منشیات اور ہتھیاروں کی وسیع پیمانے پر سمگلنگ کرا رہی ہے اور وہاں کچھ دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے مگر بنگالی حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ چند سال قبل بنگلہ دیشی وزیراعظم کے دورۂ بھارت کے دوران کولکتہ میں ہوئی ایک تقریب میں حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کی پرائم منسٹر کے بجائے ''مکھیہ منتری‘‘ (چیف منسٹر) کہہ کر پکارا گیا لیکن حسینہ واجد سر جھکائے خاموش بیٹھی رہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں