"MABC" (space) message & send to 7575

بی بی کی شہادت‘ اصل حقائق آج تک پوشیدہ

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہاد ت پاکستان کی تاریخ کے ان سانحات میں سے ایک ہے‘ جن سے متعلق حقائق آج تک سامنے نہیں آ سکے۔اگرچہ اس پر پہلے اقوام متحدہ اور پھر سکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات کرائی گئیں‘ کئی افراد کو سزائیں ہوئیں‘ کچھ مجرم پولیس اور ملٹری آپریشز میں مارے گئے مگر آج بھی پوری قوم اس گتھی کو سلجھا نہیں سکی کہ بینظیر بھٹو کو کس نے اور کیوں شہید کیا تھا۔ چند سال قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے بیان دیا تھا کہ بینظیر قتل کے سارے مجرم اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں جبکہ یہ خبر بھی سامنے آ چکی ہے کہ بینظیر قتل میں ملوث کئی ملزمان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں، ایسے میں بجا طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ محترمہ کو کس نے شہید کیا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جنرل (ر) اسلم بیگ مرزا نے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو اور لبنان کے رفیق حریری کے قتل میں امریکی عسکری تنظیم بلیک واٹر ملوث تھی۔
بلیک واٹر اور ریمنڈ ڈیوس کی ہوشربا داستان کو ہمارے لوگ ابھی بھولے نہیں ہوں گے۔ انہیں آج بھی یاد ہو گا کہ بلیک واٹر کے نام سے پاکستان میں داخل کیے جانے والے اس لشکر کو آنکھیں بند کر کے ویزے جاری کیے گئے تھے۔ جن لوگوں نے بھی یہ ویزے جاری کیے تھے‘ آج وہ بھی دیارِ غیر میں بیٹھے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ کیا آج ان کا اچانک متحرک ہو جانا بے وجہ ہے؟ معروف دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) امجد شعیب نے حالیہ دنوں میں ملک بھر بالخصوص بلوچستان میں ہوئی دہشت گردی کو اڈے مانگنے اور غیر ملکوں ایجنٹوں سے منسلک کیا ہے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ جب بلوچستان میں چند دہشت گردوں کو پکڑا گیا تو یہ بات تحقیقاتی اداروں کے لیے بھی حیران کن تھی کہ ان کے زیرِ استعمال کچھ اسلحہ ایسا تھا جو امریکہ کے مخصوص کمانڈوز کے پاس ہوتا ہے۔ جنوری 2011ء میں لاہور کے مزنگ چونگی چوک میں جدید گن ہاتھ میں پکڑے ریمنڈ ڈیوس نے جب دو موٹر سائیکل سواروں کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو فائرنگ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ اس ہائی پروفائل مقدمے میں پہلی بار بلیک واٹر کانام سامنے آیا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے بارے میں بحیثیت وزیر داخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان نے متعدد بار متنبہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں غیر ملکیوں کے زیرِِاستعمال 400 کے قریب گھر ایسے ہیں جن کے قریب پولیس تو دور کی بات‘ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ یہ بلیک واٹر کے ایجنٹس کون تھے اور ان کو بھیجنے کا اصل مقصد کیا تھا؟ یہ کس کی زیرِ کمان کام کر تے رہے؟ اور کیا بلیک واٹر کا محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے کوئی تعلق تھا؟ یہ سوالات متعدد بار اٹھائے گئے مگر کبھی تسلی بخش جوابات نہیں مل سکے۔
بلیک واٹر اور اس جیسی دوسری تنظیموں کی آڑ میں غیر ملکی ایجنٹوں کی پاکستان خفیہ آمد کا سلسلہ 2012-13ء تک جاری رہا تھا۔ امریکی ذرائع کے مطابق بلیک واٹر کو القاعدہ کے لیڈران کو چن چن کر ختم کرنے کا ٹارگٹ دیتے ہوئے پاکستان بھیجا گیا تھا لیکن شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اس تنظیم نے القاعدہ کو ختم کرنے کے بجائے وزیرستان اور بلوچستان سمیت پاکستان کے مغربی سرحدی علا قوں میں مقامی لوگوں کو جدید اسلحہ اور گوریلا تربیت کے علا وہ سنائپر فائرنگ کی بھی تربیت دے کر مسلح گروہ کھڑے کرنا شروع کر دیے۔ اسلم بیگ مرزا نے مشرف حکومت پر الزام لگایا کہ وار آن ٹیرر میں بلیک واٹر کو اسلام آباد، پشاور، راولپنڈی اور کوئٹہ جیسے شہروں میں بھی آپریشنز کی اجازت دی گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے حوالے سے کوئی رائے قائم کرنے کیلئے ہمیں امریکہ کے دو مشہور اخبارات نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کی 19 اگست 2009ء کی اشاعت میں تحقیقاتی امریکی صحافی Mark Mazzetti کی رپورٹس کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ان رپورٹس کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ 27 دسمبر2007ء کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کا لیاقت باغ راولپنڈی میں کیا جانے والا قتل کسی غیر ملکی ایجنسی کی پلاننگ تھا؟ واضح رہے کہ اس عرصے میں پاکستان میں کئی غیر ملکی ایجنسیاں سرگرمِ عمل تھیں اور اسلام آباد اور پشاور کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں ہونے والے خوفناک بم دھماکوں کے پس پردہ بھی یہی کہانی سامنے آئی تھی کہ غیر ملکی ایجنٹ ان ہوٹلوں میں بیٹھ کر اپنے آپریشنز مانیٹر کیا کرتے تھے جس کی اطلاع ملنے پر ان کے مخالف شدت پسندوں نے خوفناک حملے کیے، ان حملوں میں امریکی عسکری تنظیم کے بھی کچھ لوگ مارے گئے تھے۔ اسلام آباد کے ہوٹل میں ہوئے اسلام آباد کی تاریخ کے سب سے بڑے حملے میں استعمال ہونے والا بارودی مواد کہاں سے آیا‘ یہ بھی ایک معمہ ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی غیر ملکی سفارت خانوں نے اپنے شہریوں کو پاکستان میں غیر ضروری سفر سے متعلق ریڈ الرٹ جاری کیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطا بق2004ء میں سی آئی اے نے فیصلہ کیا تھا کہ نارتھ کیرولینا میں بلیک واٹر کے نام سے جس پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسی کی خدمات بھاری معاوضوں کے عوض حاصل کر رکھی ہیں اور جس کے ارکان کا امریکی سالمیت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں سے بھی تعلق رہا ہے‘ کو پاکستان کے ان علا قوں میں بھیجا جائے جہاں امریکی ایجنسیاں مصروف ہیں تاکہ سی آئی اے اور اس کے مقامی ایجنٹوں سے مل کر یہ القاعدہ سمیت افغان طالبان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کریں۔بلیک واٹر کو پاک افغان سرحد سے ملحق علا قوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے منتخب کیے جانے کی بڑی وجہ اس کے عراق میں القاعدہ اور اس سے منسلک دوسری عسکری تنظیموں کے خلاف جارحانہ آپریشنز تھے۔ عراق میں اس کی خدمات کی سی آئی اے بھی معترف تھی۔ جب بلیک واٹر کے ایجنٹوں نے 2007ء میں بغداد میں فائرنگ کر کے 17 بے گناہ شہریوں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا تو عراقی حکام نے اس کمپنی کو مزید کام کرنے کی اجا زت دینے سے انکار کر دیا۔ عراق میں بے گناہ شہریوں پر فائرنگ کا واقعہ ایسے ہی تھا جیسے ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دن دہاڑے‘ بغیر کسی خوف کے دو افراد کو فائرنگ کر کے اور تیسرے کو گاڑی تلے کچل کر ہلاک کر دیا تھا۔ عراق اور پاکستان کے علا وہ 2002ء میں کابل میں سی آئی اے کے ایجنٹوں کی حفاظت کیلئے بھی بھاری معاوضے پر بلیک واٹر کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اس کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا کہ اس کے ایجنٹ امریکہ کے سابق نائب صدر ڈک چینی کی ملکیتی سکیورٹی کمپنی میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے ادارے یقینا سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا کی جون2009ء میں امریکی کانگریس سے ہوئی اس ایمر جنسی میٹنگ کی تفصیلات سے آگاہ ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ بلیک واٹر کی سات سال کیلئے خدمات حاصل کی جا رہی ہیں اور اس کیلئے کوئی با ضابطہ معاہدہ نہیں کیا گیا بلکہ ذاتی حیثیت سے امریکی نیوی کے سابق اہلکار اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بلیک واٹر کے چیف Eric D Prince سے بات چیت کی گئی ہے۔ بعد میں بلیک واٹر نے خود کو کیمو فلاج کرنے کیلئے خود کو ''ایکس سروس‘‘ کا نام دیا اور مرکزی دفتر اور بہت بڑا تربیتی کیمپ نارتھ کیرولینا میں قائم کیا۔ اس مرکز میں سنائپر فائرنگ کی پریکٹس کے لیے ایک بڑا شوٹنگ رینج بھی موجود تھا۔
بلیک واٹر کو جب پاک افغان سر حدی علاقوں میں القاعدہ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ٹاسک سونپتے ہوئے وہاں اتارا گیا تو پہلے اس کے ایجنٹوں نے وہاں سیف ہائوسز اور محفوظ خفیہ پہاڑی سرنگیں تعمیر کیں۔ پھر ایک ہزار ڈالر ماہانہ کے عوض ایک نئی عسکری فورس کی بھرتی اور تربیت شروع کر دی۔ پھر ان نئے بھرتی شدہ مقامی افراد میں موٹر سائیکلیں اور کلاشنکوفیں بطور تحفہ بانٹنے کے بعد انہیں وہاں کے مشہور قبائل کی طاقت کم کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ بے شمار قبائلی سردار اس دوران قتل ہوئے۔ کئی بڑے قبائل اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے اور چند ماہ بعد ہی فاٹا کے قبائلی علاقوں میں پیدا ہوئے خلا کو کالعدم تحریک طالبان نے پُر کیا اور یہاں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں