27 دسمبر کو ترکیہ میں منعقد ہونے ہونے والی مسلم سکالرز اور تھک ٹینکس کی کانفرنس کے پہلے سیشن میں پاکستان سے عمران خان کو خطاب کی دعوت دی گئی تھی۔ سابق وزیراعظم پاکستان کو خطاب کی دعوت دینے سے پہلے ان کا تعارف کراتے ہوئے متعدد تعریفی جملے استعمال کیے گئے۔ عمران خان کی مسلم دنیا کے لیے خدمات اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی کا ذکر کرتے ہوئے منتظمین نے یہ تک کہا کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان مسلم نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم چاہیں گے کہ مسلم دنیا کے لوگ ان کے خیالات اور افکار پر عمل کرنے کی کوشش کے لیے ان کی رہنمائی حاصل کریں۔ دنیا بھر کے مسلم سکالرز اوراہلِ دانش کے اس اجتماع سے عمران خان نے بذریعہ وِڈیو لنک خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں اسلام کے ضابطۂ سیاست و اخلاقیات، تحفظِ ناموس رسالت، اسلامو فوبیا، امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور بقا و احیائے امت جیسے موضوعات کو گفتگو کا حصہ بنایا گیا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے پاک ترک تعلقات کے علاوہ، مسئلہ کشمیر، اسلاموفوبیا، یوکرین جنگ، بھارت سے تعلقات، چین، امریکہ، طالبان اور دہشت گردی سمیت ہر اہم ملکی و بین الاقوامی ایشو پر کھل کر اظہارِ خیال کیا، جس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا۔ ترکیہ میں منعقدہ اہلِ علم و دانش کی اس اہم ترین نشست کو دنیا بھر کے میڈیا و سماجی میڈیا نے بھرپور کوریج دی۔
ایک جانب ترکیہ میں اکٹھے ہونے والے مسلم دنیا کے سکالرز پاکستان کے سابق وزیراعظم کو مشعلِ راہ قرار دے رہے تھے تو دوسری جانب عین اسی وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عمران خان کو اپنے تنقیدی تیروں کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے حوالے سے سجائی گئی تقریب میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو اپنی حکومت پر بات کرنے‘ محترمہ کی سیاست اور شخصیت پر بات کرنے یا اپنی وزارت کی کارکردگی گنوانے کے بجائے محض عمران خان پر ہی طنز و تنقید کے نشتر چلا رہے تھے۔ جب بی بی شہید کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے عمران خان کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ جس طرح آصف علی زرداری کو کبھی ایک جیل تو کبھی کسی دوسری جیل میں دیکھنے اور ملنے کے لیے ہم بچوں کو ساتھ لیے ہماری والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو چکر لگایا کرتی تھیں‘ اسی طرح تمہارے اہلِ خانہ بھی تم سے ملاقات کے لیے عنقریب جیلوں کے چکر لگایا کریں گے‘ تو ملکی سیاست و تاریخ پر نظررکھنے والے کئی افراد نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو عمران خان نے یا پی ٹی آئی کی حکومت نے جیل میں ڈالا تھا؟ کیا زرداری صاحب کو مختلف سیاسی مقدمات میں گیارہ سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا عمران خان کا کام تھا؟ کیا پی ٹی آئی کی حکومت نے آصف زرداری اور بی بی شہید کے خلاف مقدمات قائم کیے تھے؟
تاریخ کا تلخ سچ یہ ہے کہ جنہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرادری پر مقدمات قائم کیے اور ان کو قید و بند کی سزائیں دیں‘ وہ آج بلاول بھٹو زرداری کے وزیر اعظم ہیں اور انہی کے ماتحت وہ بطور وزیر خارجہ کام کر رہے ہیں۔ مقدمات قائم کرنے والوں کے ساتھ تو بلاول بھٹو زرداری غیر ملکی دوروں پر بھی جا چکے ہیں جبکہ جس شخصیت نے حقیقی معنوں میں یہ مقدمات قائم کیے تھے‘ اسے تو بلاول لندن میں بھی جا کر مل آئے ہیں مگر ان کی تنقید کی ساری تان عمران خان پر آ کر ٹوٹ رہی تھی۔ یہ شاید عمران خان کی مقبولیت کا جادو ہے جو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے اور جس کا خوف سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی اوپر سے نیچے تک کی قیادت کے بیانات میں واضح ہے۔
میں ذاتی طور پر اس واقعے کا عینی شاہد و گواہ ہوں کہ عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو بنی گالا کی رہائش گاہ پر ایک صاحب خان صاحب سے ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں جب بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کی تنقید کا ذکر چلا تو ان صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کی تھی تو اس وقت بطور وزیر‘ کنونشن مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی بھٹو صاحب کے خلاف اسی طرح کے طنزیہ و تضحیک آمیز بیانات دیا کرتے تھے جیسے آج مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے افراد اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر خان صاحب کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ ایک دوپہر لاہور میں مزنگ روڈ پر پیپلز پارٹی پنجاب کے دفتر کا افتتاح کرنے کے لیے بھٹو مرحوم تشریف لائے تو انہوں نے دفتر کی بالکونی میں کھڑے ہو کر وہاں اکٹھے ہونے والے عوام سے خطاب شروع کر دیا۔ اسی خطاب کے دوران کسی نے آواز لگائی: بھٹو صاحب! کرمانی‘ کرمانی۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے ذہین اور فطین لیڈر نے اس پر ایک ایسا جملہ کسا جو ملکی سیاست میں ہمیشہ کے لیے درج ہو گیا اور بھٹو کے مخالفین بالخصوص کرمانی صاحب کو چپ سی لگ گئی۔ جیسے ہی بھٹو کے سامنے کرمانی کا نام لیا گیا تو بھٹو صاحب نے فوراً سوال داغا: Who is she?۔ بھٹو کے اس جواب پر وہ قہقہے لگے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت کے محدود سے پرنٹ میڈیا پر اس جواب نے ایک حشر سا اٹھا دیا۔ بتانے والے نے بھٹو مرحوم کے اسی فقرے کی مثال دیتے ہوئے عمران خان کو مشورہ دیا کہ کسی میڈیا ٹاک کے دوران آپ بھی یہ انگریزی جملہ بول دیجیے گا مگر عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اسے سیاسی سپرٹ کے خلاف سمجھتے ہیں اور مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے اس حد تک نہیں جائیں گے۔
محترمہ شہید کی برسی کے موقع پر سندھ میں کھڑے ہوکر سابق وزیر اعظم کے خلاف جس طرح کی دھمکی آمیززبان استعمال کی گئی‘ کیا وہ معقول طرزِ تخاطب ہے؟ پیپلز پارٹی رہنما شاید یہ بھول رہے ہیں کہ جس قومی اسمبلی کے وہ رکن ہیں اور جس کی بدولت وزارتِ خارجہ کی مراعات کے دم پر وہ دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں‘ ا سی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں انہوں نے2018ء کے انتخابات کو جعلی اور اسمبلی کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے صاف انکار کیا تھا۔ آج کے حکومتی اتحا دمیں شامل لگ بھگ سبھی جماعتوں نے اسمبلی کے پہلے ہی دن ملک بھر میں دوبارہ نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اقتدار عوام کے ''حقیقی نمائندوں‘‘ کے حوالے کرنے کا شور مچانا شروع کر دیا تھا اور اسی ایک مطالبے کی تکرار پی ڈی ایم 9 اپریل2022ء تک کرتی رہی۔ لیکن تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جب عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے ملک بھر میں نئے انتخابات کرانے اور اقتدار عوام کے نمائندوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا تو حکومتی اتحاد کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔وہ دن اور آج کا دن‘ اسمبلی کو جعلی اور مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکاری سبھی جماعتیں عام انتخابات کا نام سن کر ایسے بھاگتی ہیں جیسے جنگل میں اچانک شیر سے سامنا ہو گیا ہو۔
سیاسی تقریبات میں جس طرح کی زبان عمران خان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے‘ اس سے کسی کے قد میں اضافہ تو نہیں ہوا لیکن عمران خان کی مقبولیت اور ہمدردی ضرور بڑھ گئی ہے۔ اس کیساتھ ہی چند لوگ 'نوجوان قیادت‘ سے جس خوش فہمی کا شکار تھے‘ وہ بھی دور ہو گئی ہے۔ کراچی اور حیدر آباد سمیت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات‘ جو کسی بھی جمہوریت کی بنیادہوتے ہیں‘ کے نام سے بدک کر ادھر ادھر بھاگنے والوں کے لیے عوام کی خواہشات کا احترام ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے ۔ پیپلز پارٹی کا تو پہلااصول ہی یہ تھا کہ اقتدار کا سر چشمہ عوام ہیں‘ تو کیا اب یہ نعرہ بھی متروک ہو چکا ہے؟ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اسی لیے کراچی اور حیدر آباد میں عوام کو ان کی حاکمیت کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ شنید ہے کہ ایم کیو ایم کے سبھی دھڑوں کو جوڑنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں‘ ان کا مقصد بھی تحریک انصاف کا راستہ روکنا ہے۔ پوری وفاقی حکومت اور ساری جماعتیں ایک زخمی شخص سے گھبرا کر اس طرح بھاگ رہی ہیں جیسے کسی کا حق غصب کرنے والا متاثرہ شخص کا سامنا ہونے پر بھاگ نکلتا ہے۔