پورا ملک اس وقت آٹے کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ کسی بھی یوٹیلیٹی سٹور پر چلے جائیے‘ اول تو آٹا ملے گا ہی نہیں، اگر کسی جگہ مل رہا ہو تو ایک شناختی کارڈ پر ایک خاندان کے ایک ہی شخص کو آٹا ملے گا اور اگر اس خاندان کے دیگر افراد بھی لائنوں میں لگ کر آٹا لینے کی کوشش کریں تو کسی دوسرے فرد کو آٹا نہیں دیا جائے گا اور اس خاندان کو تین روز بعد دوبارہ آنے کا کہا جائے گا۔ یہ درست ہے کہ مارکیٹ میں آٹا مل رہا ہے لیکن 6500 روپے فی من یعنی 163 روپے فی کلو۔ گزشتہ سال جب گندم کی فصل کی کٹائی ہوئی تھی تو حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا بمپر فصل ہوئی ہے اور 2200 روپے فی من کے حساب سے گندم کی خریداری کی گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے گوداموں میں پڑی یہ گندم اور آٹا گئے کہاں؟ یہ گندم کون سے ''چوہے‘‘ کھا گئے ہیں؟ لوگوں کو یاد ہو گا کہ 2020ء اور 2021ء میں مسلسل دو سال تک یہی سکینڈل سننے میں آیا کہ سندھ کے گوداموں میں پڑی 20 ارب روپے کی گندم ''چوہے‘‘ کھا گئے۔ یہیں پر بس نہیں‘ گزشتہ سال جولائی میں ایک بار پھر یہ خبر سامنے آئی کہ سندھ کے آٹھ سرکاری گوداموں سے کروڑوں روپے مالیت کی ہزاروں ٹن گندم غائب ہو گئی۔ 13 ہزار ٹن سے زائد کی گندم‘ جس کی مالیت 70 کروڑ روپے سے زائد تھی‘ پڑی پڑی غائب ہو گئی۔ گزشتہ تین سال میں تیس ارب روپے کی گندم سندھ کے سرکاری گوداموں سے غائب ہو چکی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ میرپور خاص میں سستے آٹے کے حصول میں سرگرداں اپنے گھر کے نو افراد کا واحد کفیل‘ایک مزدور دھکم پیل کے سبب جان کی بازی ہار گیا۔ محکمہ خوراک کی جو ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ محکمے نے میرپور خاص میں چار مختلف مقامات پر سستا آٹا سٹالز لگانے کی تجویز دی تھی مگر تجویز کے برعکس ایک ہی مقام پر سستے آٹے کے ٹرک لگائے گئے اور مانگنے کے باوجود سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ لوگوں کو جن حالات کا سامنا ہے‘ ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان حالات میں اوور سیز پاکستانیوں اور مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ مدد کیلئے سامنے آئیں کیونکہ بھوک اور سونامی کی صورت میں ملک بھر میں پھیلنے والی بیروزگاری کی وجہ سے لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ جنیوا میں سویڈش اور جرمن صحافیوں نے وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ سے جو سوالات کیے‘ ہمارے ہاں وہ دکھائے ہی نہیں گئے۔ کاش ان مناظر کی ایک جھلک ہی قوم کو دکھا دی جاتی تاکہ اس درماندہ قوم کا ایک ایک فرد اندازہ کر لیتا کہ دنیا میں ان کے حکمرانوں کا کس قدر احترام ہے۔ رجیم چینج کے احسانات میں سے کس کس کا ذکر کیا جائے‘ پٹرول، ڈیزل، گیس، چاول، گھی، آٹا اور سبزیوں کے بعد اب علاج اور درکار ضروری ادویات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ بیشتر اودیات تو میسر ہی نہیں ہیں کیونکہ حکومت امپورٹ کی اجازت نہیں دے رہی۔ جان بچانے والی ادویات کی درآمدات پر پابندی لگا کر حکومت تجارتی خسارے کو کم کرنے کا کریڈٹ لے رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق کراچی کے ہسپتالوں میں گزشتہ ایک ماہ سے ضروری آپریشنز ہی نہیں ہو رہے کیونکہ طبی آلات اور سامان کی قلت ہو چکی ہے مگر حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہی ہے۔ ضروری ادویات، طبی سامان اور خوردنی تیل سمیت جلد خراب ہونے والی اشیائے خور و نوش کے سینکڑوں کنٹینرز کراچی اور بن قاسم پورٹ پر کھڑے ہیں‘ جنہیں کلیئر نہیں کیا جا رہا مگر 163 لگژری گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دے دی گئی ہے کیونکہ خوردنی تیل اور آٹا وغیرہ غریب عوام کی ضرورت کی چیزیں ہیں جبکہ گاڑیاں حکمران اشرافیہ کی۔
اگر بجلی کی بات کریں تو دیکھتے جائیے کہ وقفے وقفے سے وہ کس کس آسمان سے عوام پر گرائی جا رہی ہے۔ گیس اول تو میسر ہی نہیں‘ لیکن اس کے باوجود اس کی قیمت میں 74 فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ناقدین اور حاسدین کی سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ جب حکمرانوں کو ہر طرح کی مراعات اور آسائشیں میسر ہوں گی تو انہیں اس قوم کے حالات سدھارنے کا خیال کیونکر آئے گا؟ وہ تو یہی چاہیں گے کہ ہر وقت ان کی تعریفوں کے پل ہی باندھے جائیں۔ کہاں جنیوا کا پُرفضا مقام اور کہاں آٹا ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر۔ جنیوا جانے کے لیے ایک لشکر کی کیا تُک تھی کہ جب آٹے اور روٹی کے حصول کیلئے مائیں اپنے بچے فروخت کر رہی ہوں تو ایسے وقت میں لشکر جرار کے اخراجات کیونکر اٹھائے گئے۔ ایک لمحے کیلئے اس شخص کا سوچئے جو دن بھر محنت مزدوری کرنے کے بعد گھر جانے سے پہلے اپنی دن بھر کی کمائی ہاتھ میں لیے دس کلو آٹے کیلئے لمبی قطاروں میں لگا ہو اور باری آنے پر اسے پتا چلے کہ آٹا ختم ہو گیا ہے اور وہ خالی ہاتھ مایوسی و نامرادی کا بوجھ لیے گھر جائے اور پھر ماں باپ اور بیوی بچوں سے منہ چھپا کر جلدی سے اپنے کمرے میں گھس جائے۔ یہ ایک تازہ اور سچا واقعہ ہے۔ وہ شخص منوں وزنی قدموں سے نجانے کیسے چلتا ہوا گھر آیا اور اپنے بچوں کو آٹا اور روٹی نہ ملنے پر بھوک سے روتا دیکھنے کے بجائے اپنے کمرے میں گیا اور غربت کی شرمندگی سے بچنے کیلئے کمرے کی چھت سے لگے پنکھے سے جھول گیا۔ ایسے واقعات ہر روز اس وطن میں پیش آ رہے ہیں لیکن کسی کو پروا ہی نہیں کیونکہ ان کی منزل کچھ اور ہے۔ اس وقت دوبارہ سب کی نظریں پنجاب کے تاج پر جم چکی ہیں۔ اس کے سوا انہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ یہاں غرناطہ کی سلطنت کے آخری ایام یاد آ رہے ہیں۔
غرناطہ کی سلطنت کا سورج جب غروب ہو رہا تھا اس وقت سرحدی مقام لوشہ میں سلطان ابو الحسن اور فرڈیننڈ (Ferdinand) کا ٹکراؤ ہوا، اہلِ غرناطہ قوت اور تعداد میں مسیحیوں کی مشترکہ افواج سے کمزور تھے مگر طارق بن زیاد کی یاد تازہ کرتے ہوئے ابو الحسن نے فرڈیننڈ کو شکست فاش سے دو چار کیا۔ ابوالحسن لوشہ کے میدان میں ہی تھا کہ غرناطہ میں ولی عہد ابو عبداللہ نے بغاوت کر دی اور غرناطہ کے تخت کا مالک بن بیٹھا۔ اس پر اس کے چچا الزاغل نے فرڈیننڈ کے حق میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے مسیحی افواج کو ابوعبداللہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ فرڈیننڈ نے یہ سنہری موقع جانے نہ دیا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوا دیا۔ غرناطہ کے مضافات کے تمام قلعے ایک ایک کر کے مسیحیوں کے قبضے میں چلے گئے اور آخر کار اہل غرناطہ محصور ہو کر رہ گئے۔ غرناطہ کے تخت کے خواہش مند الزاغل کو فرڈیننڈ نے اس کی خدمات کا صلہ یہ دیا کہ اسے ہسپانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ الزاغل آخرکار مراکش میں جلا وطن کر دیا گیا اور وہیں گمنامی کی موت مر گیا۔ غرناطہ کا آخری حکمران ابوعبد اللہ اپنا ملک پچاس لاکھ طلائی سکوں میں فروخت کر کے مراکش کے شہر 'فاس‘ چلا گیا لیکن وہاں کے حکمران بنی میرن نے اسے گرفتار کر کے نہ صرف تمام دولت چھین لی بلکہ دونوں آنکھوں سے بھی محروم کر دیا۔ سلطنتِ غرناطہ کا آخری حکمران ابوعبداللہ پھٹے پرانے لباس میں ادھر ادھر گھومتا‘ بھیک مانگتا رہا۔ بنی میرن کے حکم سے اس کے لباس کی پشت پر ایک کپڑا بھی سلائی کر دیا گیا تھا جس پر لکھا تھا ''غرناطہ کے اس وطن فروش بادشاہ کو دیکھو اور عبرت حاصل کرو‘‘۔
ملک بھر کے ذرائع ابلاغ میں گزشتہ ایک ماہ میں ہونے والے راہزنی، چوری اور ڈکیتیوں کی کل تعداد کا دس فیصد بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ اگر میں اپنے آبائی ضلع قصور کی بات کروں تو اوسطاً 60 افراد یا خاندان روزانہ ضلع بھر کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں اور چوراہوں پر‘ کہیں دن دہاڑے تو کہیں شام ہوتے ہی لوٹے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری و مہنگائی کے عفریت نے دس سے پندرہ کروڑ افراد کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور یہ شکنجا مزید کستا چلا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ 75 برس بیت گئے‘ اس وطن کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو ہلاکو خان نے بغداد سے کیا تھا۔ اپنے ہر حکمران کو تعصب اور مفادکی عینک سے ہٹ کر دیکھئے‘ کسی ایک نے بھی اس کو نوچ کھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب پورے ملک میں ایک ہی مسئلہ رہ گیا ہے کہ عمران خان سے کیسے نمٹنا ہے‘ اسے کیسے نااہل اور سیاسی میدان سے باہر کرنا ہے‘ اسے کیسے بدنام اور کس کس مقدمے میں گرفتار کرنا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جب جرمن جہازوں نے لندن پر شدید بمباری کی تو چرچل سے پوچھا گیا‘ کیا ہم یہ جنگ جیت جائیں گے؟ چرچل نے پوچھا: کیا برطانیہ کے لوگوں کو انصاف مل رہا ہے۔ خدا جانے ہمارے حصے کا چرچل کب پیدا ہو گا جو عوام سے پوچھے کہ بتائو! انصاف مل رہا ہے؟