سندھ کے 16 اضلاع بشمول کراچی و حیدر آباد میں 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جس طرح عوام نے آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہارکیا ہے‘ اس کے بعد اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ پیپلز پارٹی ہی سندھ کے عوام کی اصلی اور حقیقی نجات دہندہ اور محبوب ترین جماعت ہے۔ اگر ان انتخابات میں کوئی تھوڑی بہت گڑ بڑ ہوئی بھی تو صرف حیدر آباد اور کراچی میں ہی رپورٹ ہوئی۔ باقی کے 14 اضلاع پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا لیکن اتنی سی بات پر ہمارے کچھ دانشور حضرات نجانے کیوں یہ کہنا شروع ہو گئے کہ یہ پلاٹ پہلے سے کہیں طے شدہ لگتا ہے۔ کچھ شکی مزاج لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہوا ضرور ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کراچی میں جماعت اسلامی پیپلز پارٹی سے صرف چند نشستیں ہی پیچھے رہی لیکن نجانے حیدر آباد کے عوام کو کیا ہوا کہ وہاں سائیں سرکار کے مقابلے میں کوئی ٹک ہی نہیں سکا۔
الیکشن والے دن سبھی چینلز پر تبصرے جاری تھے، کراچی کے کچھ مقامی رپورٹرز سے بھی بات ہوئی، سبھی کا کہنا تھاکہ اندرونِ سندھ میں پیپلز پارٹی میدان مارے گی جبکہ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف سرپرائز دے سکتی ہیں۔ کراچی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پہلے نمبر پر رہے گی‘ دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں مقابلہ ہو گا، زیادہ امید یہی ہے کہ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کو پچھاڑ دے گی مگر 40 گھنٹوں بعد آنے والے نتائج دیکھ کر سبھی حیران تھے۔ وہی جماعت اسلامی جس نے کراچی میں (اب تک کے نتائج کے مطابق) 86 نشستوں پر کامیابی حاصل کی‘ اسے پورے حیدر آباد میں صرف ایک نشست ہی مل سکی۔ جماعت کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ شک سا پڑ جاتا ہے کہ حیدر آباد میں انتخابات صحیح نہیں ہوئے‘ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کراچی سے بھرپور کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کو حیدر آباد سے کلین سویپ کر دیا جائے۔ حیرانی تو ویسے جے یو آئی پر بھی ہے جو اندرونِ سندھ میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑنے کی نوید سنا رہی تھی مگر وہ حیدرآباد میں ایک سیٹ بھی حاصل نہ کر سکی۔ اس کے مقابل ٹی ایل پی نے دو سیٹیں جیت کر اپنی حیثیت منوا لی ہے جبکہ کمزور تنظیمی ساخت کے باوجود پی ٹی آئی کی 38 سیٹیں گزارے لائق ہی سمجھی جائیں گی۔ البتہ پیپلز پارٹی نے جس طرح 88 سیٹوں کے ساتھ نصف سے زائد نشستوں پر فتح حاصل کی ہے‘ اس سے حکومت سازی میں یہ مکمل خود انحصار رہے گی۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے پریس کانفرنس کی‘ جس میں ان کا کہنا تھا کہ فارم 11 کے تحت جو رزلٹ انہیں دیا گیا‘ اس کے مطابق وہ کراچی میں 103 نشستوں پر فاتح رہے ہیں مگر فارم 13 میں نتیجہ کچھ اور آیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا مینڈیٹ ہمیں نہ دیا تو ہم پورا ملک جام کر دیں گے جبکہ ایم کیو ایم نے انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود دھاندلی کی شکایات لے کر عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔
گزشتہ سال جولائی‘ اگست میں جب سندھ میں سیلاب آیا تو سب نے دیکھا کہ اندرونِ سندھ کے کیا حالات تھے۔ مقامی باشندوں کے جسموں پر برائے نام لباس تھا‘ ان کے پاس نہ تو سر چھپانے کی جگہ تھی اور نہ ہی کچھ کھانے کو انہیں پہنچایا گیا تھا۔ اگر ان کی کچھ مدد کی بھی گئی تو زیادہ تر غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے۔ سندھ حکومت کی طرف سے ملنے والی امدادبرائے نام تھی۔ دکھ‘ درد اور مصیبت کی اس گھڑی میں اہلِ پنجاب سمیت کراچی کے لوگوں نے ان کی مدد کی اور غیر سرکاری تنظیموں کو اربوں روپے کی امداد اس طرح پہنچائی کہ کسی کی عزتِ نفس کو رتی بھر بھی ٹھیس نہ پہنچے۔ اس دوران میڈیا کے نمائندوں کا جس جگہ بھی جانا ہوا‘ سندھ کے عوام‘ شہباز قلندرؒ اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے عقیدت مندوں نے بغیر کسی ڈر اور خوف کے پیپلز پارٹی کے بارے میں اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے۔ ان حالات کو دیکھ کر لگتا تھا کہ پتا نہیں اندرونِ سندھ کے لوگ کب سے ضبط کیے بیٹھے ہیں‘ اور جب انہیں موقع ملا تو وہ پی پی پی سے متعلق اپنے دلوں میں دبایا ہوا غبار باہر نکالنے میں لمحے بھر کی بھی دیر نہ لگائیں گے، لیکن جو ہوا‘ وہ سب کی امیدوں کے برعکس تھا۔ اس سے قبل کراچی میں جب تیز بارشوں نے ہر گلی‘ ہر گھر اور ہر سڑک کو پانی میں ڈبو کر رکھ دیا تھا اور جب نہ تو کسی کا گھر سلامت رہا تھا اور نہ ہی کسی کی دکان‘ نہ تو کوئی سڑک بچ سکی تھی اور نہ ہی کوئی چوک اور چوراہا سلامت رہا تھا‘ ہر طرف کیچڑ کا راج تھا اور لوگ اپنے گھروں میں رکھا سامان اور عمر بھر کی کمائی کو پانی اور دلدل کی نذر ہوتا دیکھ رہے تھے تو اس وقت بھی وہ صوبائی سرکار کے خلاف پھٹ پڑے تھے۔ ابھی سیلابی ریلوں اور تیز بارشوں کی تباہ کاریاں سمیٹی بھی نہیں گئی تھیں کہ ڈکیتی اور راہزنی کا وہ طوفان شروع ہوا کہ کراچی کا شاید ہی کوئی گھر یا کوئی شخص اس سے محفوظ رہا ہو۔ بتانے والے تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ کراچی میں باقاعدہ اعلانات ہونے لگے تھے کہ وہ گھر اور وہ شخص‘ جسے ابھی تک کسی ڈاکو کے ہاتھوں لٹنے کا موقع نہیں ملا‘ ایسے خوش نصیب سامنے آئیں تاکہ لوگ ان کے تجربے سے استفادہ کر سکیں۔ بہت سے لوگ تو ایسے لوگوں کے بارے میں شک کرنے لگے تھے کہ ہو نہ ہو‘ جو شخص ابھی تک کراچی میں ڈاکوئوں اور راہزنوں سے بچا ہوا ہے‘ کہیں خود بھی ڈاکوئوں کا ساتھی یا ان کا سرغنہ ہی نہ ہو۔اس پرہمارے چند باخبر قسم کے دوستوں کا کہناتھا کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے نزدیک سے بھی یہ چور‘ ڈاکو گزرنا پسند نہیں کرتے لیکن کراچی سے ہی ایک پرانے لکھاری اور ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ یہ لوگ اگر اُن افراد سے دن میں ایک آدھ ملاقات نہ کر لیں تو ان کا دھندا اور کاروبار چل ہی نہیں سکتا‘ اس لیے اپنے اس خیال اور سوچ کو تبدیل کیجئے۔
کراچی اور حیدر آباد سمیت اندرونِ سندھ کے ووٹرز کی پیپلز پارٹی سے اندھی محبت پر اَش اَش کرتے ہوئے ہمارے استاد محترم گوگا دانشور کہتے ہیں کہ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ جب تک بھٹو زندہ ہے‘ اندرونِ سندھ کے عوام اسی طرح خوش حال اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی سے دور رہیں گے کیونکہ بھٹو کے نام پر ان سے ووٹ لینے والے وڈیرے اور ان کے اوپر بیٹھے سائیں جس طرح ہر وقت اور ہر مشکل میں ان کا خیال رکھتے ہیں‘ ان کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دیتے ہیں اس کے پیشِ نظر یہ کوئی عجیب بات نہیں بلکہ سائیں سرکار کی تو کوشش ہوتی ہے کہ سندھ کے عوام کو ہلکی سی تکلیف بھی نہ ہو کیونکہ جیسے ہی سرکار کو پتا چلتا ہے کہ سندھ کی کسی دور دراز گوٹھ میں بیٹھے ہاری یا کسی غریب مزدور کو کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ اس قدر پریشان ہو جاتی ہے کہ اس وقت تک چین نہیں پاتی جب تک اس ہاری یا مزدور کی تکلیف کو جڑ سے اکھاڑ کر دور نہ پھینک دے۔
سندھ کے عوام‘ خاص طور پر اہالیانِ کراچی اور حیدر آباد نے اسی اندھی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے سائیں کے نشان پر اس طرح ٹھپے پر ٹھپے لگائے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف تو کیا‘ پوری دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ محبت ہو تو ایسی! اگر کسی کو اس محبت بلکہ بالکل اندھی محبت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا ہے تو زیادہ نہیں‘ میڈیا و سوشل میڈیا پر الیکشن والے دن سے اب تک اَپ لوڈ ہونے والی ہزاروں وڈیوز میں سے درجن بھر وڈیوز ہی دیکھ لے‘ اندازہ ہو جائے گا کہ کراچی اور حیدر آباد کے عوام کس طرح ایک ربورٹ کے سے انداز میں ایک‘ ایک منٹ میں دس‘ دس ٹھپے لگا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر کراچی ہی کی دوسری وڈیوز یاد آ گئیں کہ جن میں سڑکوں‘ چوکوں‘ چوراہوں‘ حتیٰ کہ ریسٹورنٹس اور دکانوں میں بیٹھے دس‘ دس افراد کو ایک ایک منٹ میں ایک‘ دو افراد لوٹ کر بہ آسانی نکل جاتے ہیں۔