"MABC" (space) message & send to 7575

یہ کیسی بے بسی ہے

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اگر مان لی گئیں تو بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں سمیت ٹیکسز میں نہ صرف اضافہ ہو جائے گا بلکہ اشیائے ضرورت کو بھی مزید مہنگا کرنا پڑے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر‘ نئے بجٹ سے پہلے ہی بجلی اور گیس کے سینکڑوں ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کے خاتمے کے لیے ہر وہ شے مہنگی کرنا پڑے گی جو عوام کی روزمرہ زندگی کیلئے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا بھی یہی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی چاہتے ہیں اور حکومت کی خواہش ہے کہ عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہ پڑے لیکن آئی ایم ایف ہمیں دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی تمام باتیں بھی ماننا پڑیں تو مان لیں گے‘ اگر حکومت کو مزید سخت فیصلے بھی لینا پڑے تو لیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات دو‘ تین نکات پر اڑے ہوئے ہیں۔ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کے لیے نئے ٹیکسز کے علاوہ آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا ہے کہ جس طرح 2017-18ء میں ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر باندھ کر رکھا گیا تھا‘ اب وہ طریقہ نہ دہرایا جائے بلکہ ڈالر کو مارکیٹ ریٹ پر لایا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو‘ خدشہ ہے کہ ڈالر کی قیمت تین سو روپے کو چھونے لگے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر روک کر نہ صرف معیشت بلکہ ملک و ریاست کو نقصان پہنچایا جا رہاہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی حکومتیں ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کر کے رکھ سکتی ہیں مگر ہمارے سیاسی و معاشی دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جھوٹ اور فریب زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ ایک نہ ایک دن سچ اور حقیقت نے کھل کر سامنے آنا ہی ہوتا ہے۔ اپنی کارکردگی یا سیاسی ساکھ کو جعلی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے ایل سیز کی بندش اور معاشی و تجارتی سرگرمیوں کی معطلی کی سزا کسی اور کو نہیں‘ اس ملک اور اس کے عوام کی دی جا رہی ہے۔ ڈالرکو ہی معیشت کا پیمانہ کیوں بنایا جاتا ہے اور اس کی قیمت کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے‘ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں ہے۔ جان پارکنز کی کتاب ''کنفیشنز آف این اکنامک ہٹ مین‘‘ (ایک معاشی غارت گر کے اعترافات) میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام عالمی طاقتوں نے اس طرح ترتیب دیا کہ وہ جب چاہیں‘ جنگ کیے بغیر اپنے ٹارگٹس حاصل کر سکیں۔ کسی ملک کی معیشت کو جب چاہے کنٹرول کر کے وہاں کے عوام کو حکومت سے متنفر کرنے کیلئے یہ نظام قائم کیا گیا تاکہ ان ممالک کی سیاسی قیادت اپنا اقتدار بچانے کیلئے ان اداروں کی ہر شرط من و عن تسلیم کرتی رہے۔ عالمی شطرنج میں ہونے والے فیصلے انہی مالیاتی اداروں کے دیے گئے روڈ میپ کے مطابق ہوتے رہیں۔
جب بھی مالیاتی ادارے کسی ملک کو قرضہ دیتے ہیں تو ان کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ گندم اور گھی کو مہنگا کیا جائے اور ٹیکسز بڑھائے جائیں۔ اس کا براہِ راست اثر غریب افراد پر ہوتا ہے۔ ان مالیاتی اداروں نے آج تک یہ نہیں کہا کہ وزیروں، مشیروں، افسروں کی تعداد، وزیراعظم ہائوس، گورنر ہائوسز، وزیراعلیٰ ہائوسز کے اخراجات، بیورو کریٹس کی تنخواہیں اور مراعات نصف کر دو، لگژری گاڑیوں کے بجائے بسیں امپورٹ کرو، اشرافیہ کے بجلی اور گیس کے بل عوام کی جیب سے نہ دیے جائیں، سرکاری دفاتر کے ایئر کنڈیشنڈ بند رکھے جائیں، ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہیں نصف اور مراعات سمیت دنیا بھر کے دورے بند کیے جائیں۔ ریاستی سربراہ لائو لشکر لے کر بیرونِ ملک کے دوروں پر نہ جائیں۔ان اداروں کا سارا زور غریب عوام ہی پر چلتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح ان کے سانس لینے پر بھی ٹیکس عائد کر دیا جائے۔
دوسری عالمی جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچی تو امریکہ نے فیصلہ کیا کہ یورپ سمیت تیسری دنیا کے ملکوں کی اقتصادی حالت کو مضبوط کیا جائے۔ بظاہر یہ اقدام لائقِ تحسین اور جنگ سے تباہ حال قوموں کیلئے اطمینان کا باعث تھا لیکن چند برسوں کے تجربات کے بعد ہی یہ تلخ اور شرمناک حقیقت سامنے آ گئی کہ اس کے پیچھے تباہ حال اور غریب قوموں سے ہمدردی نہیں بلکہ اس کی آڑ میں تمام وسائل پر آہستہ آہستہ قبضہ کر تے ہوئے پوری دنیا کو اپنا باجگزار بنانا تھا۔ ایک دن نجانے کیسے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا تھا کہ ''غریب ملکوں کی امداد کا اصل مقصد ان ملکوں کی مدد کرنا نہیں بلکہ خود اپنی مدد کرنا ہے‘‘۔مشہور واقعہ ہے کہ دہائیوں قبل جمیکا کے صدر نے ایک تقریب میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد وہ کاغذات جب آئی ایم ایف کے نمائندے کے حوالے کیے تو اسے کہا ''اب ہماری حکومت نہیں رہی‘ ہماری حکومت اب آپ کی نگران حکومت ہے اورآج سے میں جمیکا کا نگران صدر ہوں‘‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں پر حکومت کرنیوالے اور ان کی پالیسیاں بنانے والے یہ مالیاتی ادارے تیسری دنیا کی مدد کے نام پر اپنے سرپرست ملکوں کی جیب کو کم اور دوسروں کی جیب کو زیا دہ استعمال کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف اوردوسرے مالیاتی ادارے کس طرح مجبور اور مقروض ممالک کو لوٹتے ہیں‘اس حوالے سے ایک خاتون کا قصہ یاد آ گیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے پاس انتہائی قیمتی اور نایاب نوادرات ہیں۔ اس کے نوادرات دیکھنے کیلئے سیاح دور دور سے آتے تھے۔ ایک دن ایک لالچی اور چالاک شخص نے سیاحوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ اس خاتون کے پاس چینی کا بنا ہوا ایک ایسا قدیم پیالہ ہے جس کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے کم نہیں۔ وہ اس خاتون کے پاس جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اس نایاب پیالے میں ایک بلی کو دودھ پلا رہی تھی۔ ایک سیاح نے سوچا کہ اگر اس سے پیالے کی قیمت پوچھی تو وہ بھاری دام مانگے گی‘ کیوں نہ اس سے بلی ہی خرید لی جائے تاکہ جب یہ پیالہ اس کے پاس بیکار رہ جائے تو اس سے من چاہی قیمت پر پیالہ بھی خرید لیا جائے۔ اس سیاح نے خاتون کے سامنے اس بلی کی تعریفیں شروع کر دیں۔ خاتون نے کہا کہ یہ بلی برائے فروخت ہے اور اس کی قیمت پچاس ڈالرہے۔ کچھ بھائو تائو کرنے کے بعد پینتالیس ڈالر میں بلی کا سودا ہو گیا۔ بلی لے کر چند قدم دور چلنے کے بعد وہ سیاح واپس پلٹا اور خاتون سے بولا: یہ پیالہ اب تمہارے کسی کام کا نہیں‘ بیس ڈالر میں اسے بھی بیچ دو‘ میں اس پیالے میں بلی کو دودھ پلایا کروں گا۔وہ خاتون ہنس کر بولی: یہ پیالہ ہی میرا اصل ذریعہ آمدنی ہے جسے دکھا کر میں اب تک کئی درجن بلیاں فروخت کر چکی ہوں۔
کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ عالمی بینکوں میں سارا پیسہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کا‘ قرض لینے والے ممالک کا ہے اور یہی پیسہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو سخت شرائط پر بطور قرضہ دے کر ان کو پابند کیا جاتا ہے کہ بجلی مہنگی کرنی ہے‘ پانی کے بل کم نہیں کرنے‘ گیس کی قیمت مزید بڑھانی ہے‘ آٹے، گھی اور دوسری اشیائے خوردنی پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دو‘ ایک نیا ٹیکس لگا کر تیل کو مزید مہنگا کرنا ہے‘ جنرل سیلز ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔ اگر قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا رہے تو یہ دنیا کے مالیاتی نظام کو تباہ نہ کر دے‘ اس لیے عالمی ساہوکاروں نے قرض لینے والے ممالک کی واجب الادا قرضوں کی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے تیسری دنیا کی حکومتوں پر ایسی شرائط عائد کر دیں کہ ان کی معیشت کو تھوڑا تھوڑا سانس آتا رہے اور وہ قرض اتارنے کے لائق رہیں۔یہ ملک بظاہر اپنا اپنا بجٹ پیش کرتے ہیں مگر اس کی منظوری وہ ادارے دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنے عوام کو کوئی مراعات دینا چاہیں تو اس کیلئے انہیں نئے ٹیکسز لگانا پڑتے ہیں‘ کیونکہ موجودہ آمدنی کو وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اسی سے تو مالیاتی اداروں نے اپنا قرض اور اس کے سود کی اقساط وصول کرنی ہوتی ہیں۔
ستم دیکھئے کہ غریب ملکوں کو دیے جانے والے قرضوں کا بڑا حصہ ترقی پذیر ممالک کے بدعنوان حکمرانوں کے کھاتوں میں منی لانڈرنگ اور مختلف طریقوں سے جاتا ہے اور پھر مختلف ذرائع سے گھومتا ہوا بیرونِ ملک اور پھر دوبارہ ان مالیاتی اداروں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں