جب شدید سردی اور بارش میں پانچ سو کے قریب خواتین کو آٹے کے دس کلو کے تھیلے کیلئے لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر کانپتے دیکھا تو ہمت کر تے ہوئے ایک اَن دیکھے شخص سے درخواست کی کہ مجھے آٹے کے کچھ تھیلوں کی ضرورت ہے۔ خدا کے اس بندے نے یہ درخواست فوراً قبول کر لی اور آٹے کے کچھ تھیلے بھجوا دیے۔ جب ٹوٹی پھوٹی گندی گلیوں میں پانچ سے دس افراد پر مشتمل انتہائی غریب گھرانوں کو بازار میں ملنے والے ناقص نہیں‘ بلکہ نمبر ون آٹے کے تھیلے دیے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بوڑھی عورتوں نے آسمان کی جانب دیکھ کر اپنے کپکپاتے ہاتھ بلند کر کے جب اَن گنت دعائوں سے نوازا تو ساری محنت وصول ہو گئی۔ یقینا اجر تو سارا ان کا ہے جنہوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر آٹا فراہم کر دیا مگر یہ بھی نصیب کی بات ہے کہ اس کارِ خیر میں وسیلہ کون کون بنتا ہے۔ اگر صرف لاہور شہر کی بات کی جائے تو اندازاً اس وقت لاہور میں پچاس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل اور ریسٹورنٹس موجود ہیں، جہاں ایک وقت میں ایک فرد سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک کا کھانا کھا جاتا ہے۔ کبھی شام کو پوش علاقوں کے ریسٹورنٹس اور کافی شاپس کا چکر لگائیے، پارکنگ میں آپ کو جگہ نہیں ملے گی جبکہ ان کے اندر تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں ہو گی، بڑی بڑی گاڑیوں میں پوری پوری فیملی موسم انجوائے کرنے نکلی نظر آئے گی۔ اگر یہ محض چائے کافی ہی پئیں تب بھی ان کا بل تین‘ چار ہزار روپے پر چلا جاتا ہے۔ لیکن 1865 روپے کا پندرہ کلو آٹا دس افراد پر مشتمل گھرانہ‘ بھلے اچار یا چائے کے ساتھ ہی سہی‘ کم از کم دس دن کھا سکتا ہے۔ ایک ہی شہر‘ ایک ہی علاقے میں ایسے ایسے لوگ بھی آباد ہیں کہ ایک طرف دولت کی کمی نہیں تو دوسری طرف دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ بڑی بڑی سوسائٹیوں کی اونچی دیواروں کے پرے وہ مناظر عام دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن کا پُرآسائش گھروں میں رہنے والے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔
یہاں ایک کہانی یاد آ جاتی ہے۔ ایک گائوں میں مقیم بیوہ خاتون کا نوجوان بیٹا تلاشِ روزگار اور بہتر مستقبل کی تلاش میں کسی دور دراز شہر چلا گیا۔ اولاً کچھ عرصے تک تو اس خاتون کو اپنے بیٹے کی خیر خیریت کی اطلاع ملتی رہی لیکن پھر کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہ رہا ،نہ ہی اسے پتا تھا کہ وہ کہاں اور کدھر ہے۔ بوڑھی ممتا کو ہر وقت یہی فکر کھائے جاتی کہ اس کا بچہ نجانے کس حال میں ہو گا، اس نے کچھ کھایا بھی ہو گا کہ نہیں۔ اس خیال سے وہ ایک روٹی زائد پکا کر گھر کی کھڑکی کے باہر رکھنے لگی تاکہ کوئی بھوکا شخص اسے اٹھا کر کھا لے۔ جو روٹی ہر روز وہ کھڑکی کے باہر رکھتی تھی‘ اس کے روٹی رکھنے کے چند ہی منٹوں بعد ایک کبڑا بوڑھا کہیں سے نمودار ہوتا اور لپک کر وہ روٹی اٹھا کر تیزی سے اچھلتا کودتا غائب ہو جاتا۔ وہ بوڑھی عورت اکثر اس بات پر خفا ہو جاتی کہ وہ شکریہ ادا کرنے یا کوئی دعا دینے کے بجائے یہ منمناتا ہوا چلا جاتا کہ 'کر بھلا سو ہو بھلا‘۔
نجانے کیوں اس خاتون کو اس کبڑے شخص سے چڑ سی ہونا شروع ہو گئی۔ وہ سوچتی تھی کہ وہ تو کسی بھوکے اور ضرورت مند کیلئے بڑی محنت اور پیار سے روٹی پکاتی ہے لیکن ہر روز یہ کبڑا بوڑھا ہی اسے چٹ کرنے آ جاتا ہے۔ اس کا سر غصے سے گھومنے لگا۔ اسے بوڑھے شخص کی آواز سے بھی نفرت ہونے لگی تھی۔ وہ دن رات اسی فکر میں غلطاں رہنے لگی کہ وہ ایسا کیا کرے کہ اس کبڑے شخص کی منحوس آواز سننے سے جان چھوٹ جائے اور اس کے بجائے قصبے کا کوئی دوسرا بھوکا اور ضرورت مند اس کی پکائی ہوئی روٹی کھایا کرے۔ کافی سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ میں روٹی میں چوہوں کو مارنے والا زہر ملا دوں گی تاکہ یہ کبڑا روٹی کھا کر مر جائے۔ اس نے حسبِ معمول شام کو روٹی پکائی اور اس میں زہر کی اچھی خاصی مقدار شامل کر دی۔ جب وہ کھڑکی سے باہر پتھر کی سلِ پر روٹی رکھنے لگی تو اس کے ہاتھ کانپنا شروع ہو گئے۔ اسے یکدم خیال آیا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے، کیا وہ زہر دے کر ایک بے گناہ شخص کی جان لینے جا رہی ہے؟ اس بات کے تصور سے ہی اس کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ اپنے چشمِ تصور سے دیکھنے لگی کہ روٹی کھانے کے بعد کبڑا بوڑھا زہر کی تکلیف سے تڑپ رہا ہے، اس کے گلے سے آواز بھی ٹھیک طرح سے نہیں نکل رہی، وہ کسی کو مدد کے لیے بھی نہیں بلا سکتا۔ اسی خیال نے اسے جھنجھوڑ دیا۔ اس نے فوراً وہ روٹی اٹھا کر ضائع کر دی۔ ضمیر کی ملامت سے اس کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑیاں بہنے لگیں۔ انہی جھڑیوں میں اس نے ایک نئی روٹی پکائی‘ اس پر سالن رکھا اور اسے کھڑی سے باہر رکھنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا۔ اب وہ دیوار سے لگ کر اس کبڑے شخص کا انتظار کرنے لگی۔ چند ہی منٹوں بعد وہ کبڑا شخص نمودار ہوا اور روٹی پکڑتے ہی ''کر بھلا سو ہو بھلا‘‘ کی صدا بلند کر کے یہ جا‘ وہ جا۔ وہ خاتون دیوار سے لگی یہ فقرہ سن کر ایک بار پھر جھلا گئی‘ ساتھ ہی اپنے گناہ کے احساس سے اس نے آنسو بہانا شروع کر دیے۔
باورچی خانے کے فرش پر گر کر وہ زور زور سے روتے ہوئے خدا سے اپنی اس حرکت کی معافی مانگ رہی تھی۔ اسی دوران اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ وہیں فرش پر سو گئی۔ اس کی آنکھ رات گئے اس وقت کھلی جب اچانک کسی نے اس کے گھر کا دروازہ زور زور سے بجانا شروع کر دیا۔ وہ جلدی سے اٹھی اور بھاگ کر دروازے تک گئی۔ جونہی اس نے دروازہ کھولا تو اس کی خوشی اور حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا لاپتا ہو جانے والا بیٹا کھڑا تھا۔ بیٹے کو بھینچ بھینچ کر اس نے گلے لگایا۔ اس کا بیٹا بہت ہی کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ پچکے ہوئے گال‘ اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں‘ الجھے ہوئے پراگندہ بال اور بوسیدہ لباس۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے مدتوں سے وہ نہایا بھی نہیں تھا۔ اپنے بیٹے کو وہ گھر کے اندر لے کر آئی تو روشنی میں یہ دیکھ کر اور بھی پریشان اور غمزدہ ہو گئی کہ اس کے بیٹے کا لباس انتہائی میلا کچیلا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا، بیٹے کے ہاتھ اور پائوں پر مختلف زخم تھے۔ بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر ماں کا کلیجہ کٹ کر رہ گیا۔ وہ دیوانہ وار اس سے لپٹ کر زور زور سے چیخیں مار کر رونے لگی۔ اپنی ماں کے آنسو پونچھتے ہوئے بیٹا انتہائی نقاہت کے عالم میں کہنے لگا: ماں تُو میرے اچانک لاپتا ہو جانے پر فکر مند تو ہو گی، لیکن میں کیا بتاتا تجھے کہ میں اغوا ہو گیا تھا۔ پھر وہ بولا کہ وہ اغوا کرنے والوں کی قید سے کس طرح بھاگا‘ یہ لمبی کہانی ہے لیکن یہ ایک کرشمہ ہی ہے کہ آج اس وقت وہ اس کے سامنے زندہ سلامت موجود ہے۔ وہ بتانے لگا کہ نجانے کتنے دنوں سے بھوکا پیاسا‘ چھپتا چھپاتا پیدل چلتا ہوا جب وہ اپنے قصبے سے چند کلومیٹر دور پہنچا تو بھوک اور نقاہت سے اس کی آنکھوں کے آگے اس قدر اندھیرا چھا گیا اور اسے لگا جیسے اس کا آخری وقت آ گیا ہے۔ اسے کوئی ہوش نہ رہا اور وہ سڑک کے بیچوں بیچ گر کر بے ہوش ہو گیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ شاید رات کے اندھیرے میں گزرنے والی کوئی گاڑی مجھے کچل کر رکھ دیتی لیکن پھر ایک بوڑھا اور کبڑا شخص نجانے کہاں سے فرشتہ بن کر نمودار ہوا۔ اس نے مجھے سڑک سے اٹھاکر ایک طرف کیا، بھوک اور نقاہت سے میری جان نکلی جا رہی تھی‘ اس نے اپنے گدڑی سے پانی کی ایک بوتل نکالی اور چند قطرے میرے منہ میں ٹپکائے، جس سے مجھے زندگی کا کچھ احساس ہونے لگا۔ بیٹا بتا رہا تھا کہ اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ میں سارا پانی پی جائوں اور میں نے اس بوڑھے سے بوتل چھیننے کی کوشش بھی کی لیکن اس نے مجھے زیادہ پانی پلانے سے گریز کیا۔ میں کئی دنوں سے بھوکا تھا۔ بڑی مشکل سے میرے منہ سے روٹی کا لفظ نکلا، جس پر اس کبڑے نے اپنے تھیلے سے ایک روٹی نکالی اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے میرے منہ میں ڈالنا شروع کر دیے۔ اب مجھ میں زندگی کے آثار بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ اس بوڑھے کبڑے نے بتایا کہ وہ بھیک میں ملی ہوئی یہ روٹی روزانہ چند کلومیٹر دور قصبے کے ایک گھر سے لاتا ہے لیکن آج میں زیادہ مستحق تھا‘ اس لیے اس نے یہ روٹی مجھے دے دی۔ بیٹے کے منہ سے یہ سنتے ہی ماں کی نظروں کے سامنے وہ زہر والی روٹی گھومنے لگی۔ اس کی زبان سے اب ایک ہی فقرہ نکل رہا تھا ''کر بھلاسو ہو بھلا‘‘۔ کہنے کو تو یہ ایک افسانہ ہے لیکن کسی کو آٹے کا ایک تھیلا، دودھ اور گھی کا ایک پیکٹ دیتے ہوئے ایک لمحے کیلئے اس کہانی کو ضرور سامنے رکھیں۔ جس قیمت میں ہم ایک ہوٹل، ریسٹورنٹ میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں‘ اتنے ہی پیسوں میں ایک گھرانہ کئی دن تک روٹی کھا سکتا ہے۔