ایک بار پہلے بھی لکھا تھا کہ جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو ہر طرف طرح طرح کی کہانیاں بیان کی گئیں۔ کسی نے کہا کہ اس کے پیچھے امریکہ ہے، کسی نے پی ڈی ایم کی کامیاب حکمتِ عملی کو اس کا سہرا پہنایا، کسی نے کہا کہ یہ سب عمران خان کی اَنا کی وجہ سے ہوا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام نہیں تو ٹاپ کی چند جماعتوں کو سب سے زیادہ جلدی تھی کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان حکومت کو رخصت کیا جائے اور اس کا سبب تھا احتساب کا خوف۔ کہا جاتا ہے کہ سچ کو جھوٹ کے کتنے ہی پردوں میں چھپا کر رکھو‘ بالآخر ایک دن سچ نے کھل کر سب کے سامنے آنا ہی ہے۔ اب تو مسلم لیگ نواز کے کئی رہنما اور وفاقی وزرا تک ٹی وی ٹاک شوز میں یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق، جاوید لطیف اور خرم دستگیر سمیت کتنے ہی نام ہیں جو الگ الگ مواقع پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ جب ہمیں پتا چلا تھا کہ عمران خان کی حکومت نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے جا رہی ہے اور مختلف کیسز میں عمران مخالف سیاست دانوں کو سزا کے ساتھ ساتھ پانچ پانچ سال کیلئے نااہل بھی کیے جانے کا پلان ہے تو پی ڈی ایم نے فوری طور پر حکومت کا خاتمہ ضروری سمجھا۔ ان وفاقی وزرا نے اپنی گفتگو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے احتساب عدالتوں، ایف آئی اے اور نیب میں چلنے والے کیسز عمران خان نے سیاسی بنیادوں پر بنائے تھے۔ آج بھی عمران خان کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں مخالفین کو جیلوں میں بند رکھا حالانکہ ایک یا دو کیسز کے علاوہ باقی سبھی کیسز عمران خان کے دور میں نہیں بنے تھے بلکہ گزشتہ ادوار میں ان جماعتوں کی اپنی حکومتوں میں ہی یہ کیسز بنائے گئے تھے۔ کیا تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں جو گرفتاریاں ہوئیں وہ کسی سیا سی نعرے یا ٹویٹ کی وجہ سے ہوئی تھیں؟ وہ گرفتاریاں حکومت کے خلاف کسی جلوس یا ریلی کی وجہ سے ہوئی تھیں؟ وہ گرفتاریاں اُن مقدمات میں ہوئی تھیں جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ وہ گرفتاریاں فالودے والے، پاپڑ والے یا پھر مقصود چپراسی جیسے افراد کے نام پر بنائے گئے جعلی اکائونٹس کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ یہ تو میثاقِ جمہوریت نے سیاسی جماعتوں کی زبان بندی کرا دی وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کی برسرِ اقتدار جماعتوں کی مسلسل تیس برس تک ایک دوسرے پر کی جانے والی مسلسل لفظی گولہ باری اخبارات کے ریکارڈ میں آج بھی محفوظ ہے۔
پاکستان کی سیا ست پر عشروں سے قابض یہ خاندان ایک دوسرے کا کچا چٹھا سامنے لے کر نہ آتے تو قوم کو کیسے پتا چلتا کہ ہمیں لوٹنے والے کون ہیں۔ The Plunder of Pakistan اور پاناما پیپرز نے تو محض ان سب پر مہرِ تصدیق ثبت کی تھی۔ میثاقِ جمہوریت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں ایک ''خاموش معاہدہ‘‘ ہو گیا مگر عمران خان کی صورت میں تیسری قوت ان کیسز کو مسلسل اٹھاتی رہی اور یہی وجہ ہے کہ آج قوم کے بچے بچے کے ذہنوں میں یہ باتیں راسخ ہو چکی ہیں۔ ایک سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ یہ سب سیاسی مقدمات تھے جو مخالفین نے قائم کیے‘ آج تک کسی کو سزا کیوں نہیں ہوئی، تو اس کا جواب یہی ہے کہ سزا میں رکاوٹ یہ خود ہیں۔ کیا مے فیئر اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ایک حقیقت نہیں ہیں؟ کیا سرے محل کوئی افسانہ تھا۔ یہ انکشاف تو خود جناب نواز شریف نے کیا تھا کہ بھٹو خاندان اور زرداری صاحب کے سوئٹزر لینڈ اور دوسرے ممالک میں بینک اکائونٹس ہیں، یہ سرے محل کے مالک ہیں۔ اگر زرداری صاحب انکشاف نہ کرتے تو قوم کو کیسے علم ہوتا کہ شریف فیملی کے لندن‘ سوئٹزر لینڈ اور دبئی میں کاروبار اور بینک اکائونٹس ہیں۔ عمران خان نے تو اپنے دورِ حکومت میں انہی کیسز کو آگے بڑھایا۔ جس ایک ایشو پر انہوں نے زیرو ٹالرنس دکھائی وہ احتساب کا وعدہ تھا۔ اپنی حکومت گنوا دی مگر احتساب کے نعرے کو نہیں چھوڑا۔ نئی احتساب عدالتوں کا قیام ان کا ایسا جرم بن گیا جو بالآخر حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کر لیں کہ عمران خان اپنی مرضی سے نئی احتساب عدالتیں قائم کرنا چاہتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کرپشن کے عفریت کو کچلنے اور احتساب کے عمل کو تیز کرنے کیلئے پاکستان بھر میں احتساب کی نئی عدالتوں اور ججوں کی تعداد بڑھانے کی منظوری دی تھی۔ اگست 2020ء میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے زیر التوا احتساب ریفرنسز جلد نمٹانے کی غرض سے ملک بھر میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا حکم دیا تھا۔ کوئلے کے پلانٹ میں غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ ہر احتساب ریفرنس کا فیصلہ تین ماہ میں ہو جانا چاہیے۔ یہ امر کس سے پوشیدہ ہے کہ یہاں تو کئی کئی برس تک فردِ جرم ہی نہیں عائد ہو پاتی۔ چالان پیش کر دیا جاتا ہے لیکن اس قدر لاپروائی سے کہ فردِ جرم عائد کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ بیس‘ بیس سال سے ریفرنسز زیر التوا ہیں، ریفرنسز کا جلد فیصلہ نہ ہونے سے احتساب کا قانون بنانے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ فروری 2020ء تک نیب عدالتوں میں 1226 زیرِ التوا مقدمات تھے۔
ایک سو بیس احتساب عدالتوں کے قیام کے حکم کا سنتے ہی پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی گئی اور ایک دوسرے سے اپنی تلخیاں فوری ختم کرتے ہوئے کہیں خفیہ تو کہیں اعلانیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ نئی احتساب عدالتوں کے قیام کا راستہ روکنے کیلئے سب نے سر جوڑ لیے اور محلاتی سازشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر سب نے دیکھا کہ احتساب عدالتوں کے قیام سے قبل ہی نہ صرف عمران حکومت کو گھر بھیج دیا گیا بلکہ اقتدار سنبھالتے ہی نیب قانون میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں کہ ایک کے بعد ایک‘ سب کے کیسز بند ہونے لگے۔ اقتدار کے دیگر ہتھکنڈے اس کے علاوہ ہیں۔ گزشتہ روز ہی کی خبر ہے کہ لاہور کی احتساب عدالت میں آشیانہ سکینڈل کی سماعت کے دوران ''ملزم‘‘ کے وکیل کی جرح کے دوران وعدہ معاف گواہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا اور نیب حکام پر دبائو ڈالنے کا الزام لگا دیا۔ اگرچہ یہ وعدہ معاف گواہ اس سے قبل بھی عدالت کے روبرو بیان ریکارڈ کرا چکا تھا مگر حالیہ سماعت پر اس نے یہ موقف اپنایا کہ پچھلا موقف اُس وقت کے حکام کے دھمکانے پر دیا تھا کیونکہ وہ 'ملزمان‘ کی ضمانت منسوخ کرانا چاہتے تھے، اسے بند انکوائریاں کھول کر نئے کیسز بنانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ اسی طرح جعلی اکائونٹس کیس کے اہم گواہان بشمول مشہورِ زمانہ مقصود چپراسی اور ان کیسز کی تحقیقات کرنے والے ڈاکٹر رضوان کی وفات سے یہ کیسز بھی لاوارث ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے حکم کے باوجود نئی احتساب عدالتیں کیوں قائم نہیں ہو سکیں‘ یہ بھی ایک طویل داستان ہے۔ نہ صرف عدالتی احکامات کو فراموش کر دیا گیا بلکہ پہلے سے جو احتساب عدالتیں کام کر رہی تھیں‘ وہاں پر بھی اس طرح ٹرانسفرز کیے گئے کہ کئی ماہ تک یہ عدالتیں خالی پڑی رہیں۔ بجائے یہ کہ نئی احتساب عدالتیں قائم ہوتیں‘ پہلے سے کام کرنے والے پنجاب کے پانچ احتساب ججوں کے تبادلے کر دیے گئے۔ پھر احتساب عدالتوں میں نئے ججز ہی تعینات نہیں ہونے دیے گئے۔ طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے کیسز کو سست روی کا شکار کیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ ان مقدمات کو حتمی نتائج تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کسیز میں فردِ جرم عائد ہونے جا رہی تھی‘ وہ اب سرے سے بند ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسمبلی میں جو سب سے پہلی قانون سازی ہوئی وہ احتساب ترمیمی بل سے متعلق تھی۔ 50 کروڑ سے کم کرپشن کے کیسز کی سماعت کا اختیار کم کرنے، احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدرِ مملکت سے لے کر وفاقی حکومت کو دینے، ملزم کے خلاف اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چلانے، ملزمان کے خلاف نیب تحقیقات کے لیے کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہ لینے اور فردِ جرم عائد ہونے سے قبل چیئرمین نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کو ختم کرنے جیسے نکات مذکورہ ترامیم کا نچوڑ ہیں۔ کیا ان ترامیم کے بعد کسی حقیقی احتساب یا کرپشن کے کم ہونے کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے؟