توشہ خانہ کی تفصیلات کی ابھی ایک ہلکی سے جھلک ہی سامنے آئی ہے اور وہ جو دن رات توشہ خانہ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں‘ اب ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ واضح رہے کہ توشہ خانہ کے ریکارڈ کا ایک بہت ہی معمولی سا حصہ ابھی قوم کے سامنے لایا گیا ہے‘ وہ بھی اعلیٰ عدلیہ کے سخت حکم کے بعد‘ اس کا اصل سچ ابھی تک چھپا ہوا ہے۔ اگر توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنا ہی ہے تو پھر 2002ء سے ہی کیوں؟ 2002ء سے پہلے کا ریکارڈ سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ مقام شکر ہے اور عدلیہ کو سلام ہے کہ گزشتہ روز اس نے پچھلا تمام ریکارڈ بھی پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ ابھی پچھلے بیس سال کا ریکارڈ ہی سامنے آیا ہے اور سب کو پتا چل گیا ہے کہ کون کون ''گھڑی چور‘‘ ہے۔ گزشتہ روز کی ایک اہم خبر جہاں عمران خان کی دو بار ملتوی ہونے والی ریلی کا نکلنا ہے‘ وہیں ''توشہ خانہ کیس‘‘ میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری بھی بحال کر دیے گئے۔ مسلم لیگ نواز کی حامی سمجھی جانے والی چند شخصیات نے یہ ٹویٹس بھی کیے کہ ''عمران خان کی گرفتاری جلد متوقع‘‘، ''عمران خان کو اشتہاری قرار دیے جانے کا امکان‘‘۔ آج کی سیاست کے تمام بڑے چہرے‘ جو عمران خان کی دشمنی میں ہر حد سے آگے جا چکے ہیں‘ انہوں نے عمران خان پر توشہ خانہ کا الزام لگانے اور کیسز بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا مگر وقت اور ریکارڈ ثابت کرے گا کہ توشہ خانہ کا سب سے بڑا حصہ خود انہوں نے ہی ہضم کیا ہے۔ جب 1985ء سے 2000ء تک کا توشہ خانہ ریکارڈ سامنے آئے گا تو لوگ انگلیاں دانتوں تلے داب لیں گے۔ اس عرصے میں توشہ خانہ میں کس کس قسم کی کارروائی ڈالی گئی‘ راقم اس کا عینی شاہد ہے۔ ابھی صرف انتظار کیا جا رہا ہے کہ حکومت خود یہ ریکارڈ پبلک کرے۔ جب یہ ریکارڈ سامنے آئے گا‘ اس کے بعد میں اس میں گڑبڑ کا معاملہ ثبوتوں کے ساتھ سامنے لائوں گا۔ جب سے پی ڈی ایم حکومت نے توشہ خانہ کی رٹ لگائی ہوئی ہے‘ میں تب سے خبردار کر رہا تھا کہ اس معاملے کو جتنا اچھالیں گے‘ اتنا ہی اپنا دامن داغدار کریں گے مگر حکومت کی مجبوری بھی سمجھ آتی ہے کہ توشہ خانہ کے علاوہ عمران خان کے خلاف اسے کوئی چیز ملی ہی نہیں لہٰذا دن رات عوام کو توشہ خانہ اور ''گھڑی چوری‘‘ کی کہانی سنا کر عمران خان سے متنفر کیا جانے لگا مگر رجیم چینج والوں کا سارا بیانیہ گزشتہ روز اس وقت زمین بوس ہو گیا جب توشہ خانہ کے حوالے سے چند تفصیلات پبلک کی گئیں۔
یقینا اللہ الحق ہے۔ سچائی کو بھلے جھوٹ اور پروپیگنڈا کے لاکھ پردوں میں چھپا دیا جائے‘ حقیقت آشکار ہو کر رہتی ہے۔ اللہ سچ کو بے نقاب کرتا ہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ کی حکومت کے دوران تمام وفاقی وزرا، مشیران اور معاونین اپنی میڈیا ٹاکس، پریس کانفرنسز حتیٰ کہ ٹاک شوز میں بھی عمران خان پر توشہ خانہ سے تحائف خریدنے کا الزام لگا کر مختلف قسم کی توجیہات پیش کر رہے تھے کہ اس اقدام سے غیر ملکی تعلقات خراب ہوئے، ملک کا امیج خاک میں مل گیا، فلاں فلاں اہم شخصیات ہم سے ناراض ہو گئیں مگر اب جب ریکارڈ سامنے آیا ہے تو سب اپنا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کو ''گھڑی چور‘‘ کہنے والے خود بھی توشہ خانہ سے گھڑیاں لیتے رہے ہیں۔ محض سیاستدان نہیں‘ سرکاری افسر اور کئی 'قلم بردار‘ بھی اس گنگا میں ڈبکیاں کھاتے رہے۔ کون ہے جس نے توشہ خانہ سے گھڑیاں نہیں لیں؟ سابق وزیراعظم کے صاحبزادے‘ جو یہ کہتے تھے کہ وہ غیر ملکی شہری ہیں اور پاکستانی قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا‘ وہ بھی توشہ خانہ کی بہتی گنگا سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں‘ وہ پہاڑ کے سامنے رائی کے ذرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عمران مخالف ہر سیاسی قوت نے توشہ خانہ سے تحائف ہتھیا رکھے ہیں۔ بس اس فہرست اور ریکارڈ کا انتظار کیجئے‘ جو عنقریب پبلک ہونے جا رہا ہے۔
جو لوگ 70ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی نوزائیدہ جماعت پیپلز پارٹی کی سیاست کے گواہ ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھٹو نے غریب عوام کو سیاسی شعور دینے کی جسارت کی تھی‘ اسی لیے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ان کی مقبولیت کو اپنے لیے بدشگونی اور بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسی طرح اکٹھی ہو کر ان پر حملہ آور ہو گئیں جیسے آج ملک کی تیرہ سے زائد مذہبی و سیاسی جماعتیں اور سٹیٹس کو کی ساری قوتیں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔ جس طرح عمران خان کے بارے میں ہر غلیظ اور پست سطح کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، کبھی غیر ملکی ایجنٹ تو کبھی ایمان پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‘ ایسے ہی بھٹو اور ان کے خاندان کی بھی کردار کشی کی گئی تھی اور ان کے مسلمان ہونے پر بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔ دنیا کا وہ کون سا بہتان اور جھوٹ تھا جو ان کے سر نہ باندھا گیا۔ جوزف گوئبلز تو ایک طرف‘ اس کے سب آبائو اجداد اور ساری نسلیں بھی ان جھوٹوں پر کانپ اٹھی ہوں گی لیکن بھٹو ان سب کے مقابل ڈٹا رہا۔ اس وقت بھٹوکی سیاست کو سوشلزم اور اسلام کی جنگ بنا دیا گیا تھا۔ آج رجیم چینج والے عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئے ہیں تو احتساب، انصاف اور جمہوریت کی حقیقی آزادی کی تحریک کو طاقت، دولت اور بقا کی جنگ میں بدل چکے ہیں۔ آج 85 رکنی کابینہ کے تیس‘ چالیس اراکین جب یکے بعد دیگرے ٹی وی چینلز پر نمودار ہوتے ہیں تو گوئبلز کی سٹریٹجی کا پتا چلتا ہے۔ تمام ٹی وی سکرینوں پہ چوبیس گھنٹوں میں سے بیشتر وقت ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا اور پھر چل سو چل‘ عمران خان کے خلاف میڈیا ٹاکس اور پریس کانفرنسز دکھانا ایک معمول بن چکا ہے۔ شاید حکومت، وزرا اور مشیرانِ خصوصی کے پاس پی ٹی آئی کوکوسنے اور ہر غلط چیز کا الزام عمران خان پر دھرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں۔
چند ہفتے قبل جو منی بجٹ پیش کیا گیا‘ اس کی تفصیلات نے ہر ایک کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے والوں نے ایک بار پھر غریب عوام کے استعمال میں آنے والی ہر شے پر ٹیکس در ٹیکس لگا دیے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے انتہائی ضروری اشیا کی خریداری کیلئے مارکیٹ جانے کا اتفاق ہوا۔ روزمرہ اشیا کی قیمتیں نئے ٹیکسز لگنے اور جی ایس ٹی کی شرح بڑھنے کے بعد اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب ہمارے جیسے لاکھوں سفید پوش گھرانوں کیلئے ایک وقت کی باعزت روٹی کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ستم یہ کہ یہی لوگ جو غریبوں کیلئے بجلی‘ پانی‘ گیس اور اشیائے ضروریہ مہنگی کر رہے ہیں‘ وہی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی اداروں سے لیے گئے اربوں ڈالرز کے قرضے اور دوسری مراعات ڈکار لیے بغیر ہضم کر جاتے ہیں۔ اپنی ان کارگزاریوں پر ندامت محسوس کرنے کے بجائے وہ قوم کو ہی کفایت شعاری اور قربانی دینے کا کہتے رہتے ہیں، نیز ہر چیز کا الزام عوام پر دھر دیتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے جس کی وجہ سے حکومتوں کو قرضے لینے پڑتے ہیں۔ جو ملک کو ان حالات‘ اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں‘ وہی عوام کی گردن پر سوار ہو کر کل کو پھر سے برسر اقتدار آنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیا عوام اب بھی نہیں سمجھتے کہ بس! بہت ہو چکا! اب ناظم اور نظام کا فیصلہ کیے بغیر ملک کی تقدیر نہیں بدلی جا سکے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حقیقی آزادی کا نعرہ روز بروز مزید مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عوام اب نظام کی صحیح معنوں میں تبدیلی کے طلبگار ہیں۔ گزشتہ پچھتر برسوں سے جاری نظام حکومت جہاں اس ملک کی بدحالی اور عوام کی زبوں حالی کا اصل ذمہ دار ہے‘ وہاں اقتدار کا چہرہ بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ اس لیے جب تک یہ نظام مکمل طور پر بدلا نہیں جاتا‘ اس وقت تک ملکی حالات بدلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ سکتی۔ اس نظام کو بدلنے کی بات پہ کسی کو اعتراض نہیں لیکن آج تک کسی نے بھی اس نکتے پر توجہ دینے سے متعلق سوچا ہی نہیں کہ اقتدار کے چہرے کی طرح نظام حکومت بدلنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس پر ایک الگ کالم کی ضرورت ہے‘ فی الوقت صرف اتنا کہوں گا کہ اگر آج عوام کی واضح اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آ رہی ہے تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اقتدار کے موجو دہ چہروں میں یہی ایک شخص ہے جو باقیوں کی نسبت قدرے بہتر ہے اور یہی وہ شخص ہے جو اس مروجہ بوسیدہ نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔