"MABC" (space) message & send to 7575

غیر سیا سی کالم اور ٹریفک

نجانے کیا طریقۂ کار اختیار کیا‘ کس نے کسے کیا کہا‘ کس کو مجبور کیا‘ کس کس کی منتیں ترلے کیے‘ قصہ مختصر یہ کہ سب حیلے بہانے کرنے کے بعد گھر پر قبضہ کرنے والے عمل کو قانون کی چادر پہنا دی اور اس کے مکینوں کو رات کے اندھیرے میں اس طرح دھکے دیتے ہوئے نکالا کہ کسی کا اپنے لیے چند دن کا زادِ راہ لینا بھی ممکن نہ ہو سکا۔ نصف شب کے قریب اچانک گھر کے مکینوں کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا۔ قبضہ تو ہو گیا لیکن قابض حضرات کو نجانے کیا ہوا کہ قبضہ حاصل کرنے کے بعد‘ پنجابی محاورے کے مطابق‘ سب کی مت ہی ماری گئی۔ وہ جو ذہین فطین کی سند لیے ہوئے تھے‘ انہیں کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا کہ اب کیا کرنا ہے‘ کدھر جانا ہے۔ جتنے بھی ہاتھ پائوں مارتے‘ اس سے الجھنیں اتنی ہی بڑھ جاتیں‘ معاملات اتنے ہی زیادہ پیچیدہ ہو جاتے۔ اس پر مستزاد مرمت کے نام پر گھر میں توڑ پھوڑ شروع کر دی گئی۔ ان کی ہر وقت کی ہڑبونگ اور بے وقت آنے جانے سے ہمسایے اور اہلِ محلہ بھی تنگ آنے لگے۔ ایک دن تنگ آ کر کسی اہلِ محلہ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے فریاد کی کہ اگر کسی جائز‘ ناجائز طریقے سے آپ کو یہ گھر مل گیا ہے تو اس میں سکون سے رہیں‘ کم از کم مزید توڑ پھوڑ تو نہ کریں۔ جب قابضین کو بلا کر کہا گیا کہ اس گھر میں فلاں فلاں مرمت کا کام اب اہلِ محلہ کے لیے تنگی کا باعث بن رہا ہے‘ کم از کم گھر کے آگے جو کھڈا کھدوایا ہے‘ وہ تو بھروا کر بند کرا دیں تو کہا گیا کہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں۔ وہ گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت کہاں سے کرائیں۔ محلے والے اس جھوٹ کو بخوبی سمجھ گئے کیونکہ وہ گھر میں چلنے والی آئے روز کی پارٹیوں سے بخوبی واقف تھے۔ اب اہلِ علاقہ بھی گھر کے نئے مکینوں سے خاصے تنگ آ چکے تھے، پرانے مکینوں نے اہلِ محلہ کو اپنی دردناک کہانی سنائی کہ کس طرح جعلی کاغذات بنا کر گھر سے بے دخل کیا گیا اور اب گھر میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ اس پر اہلِ محلہ نے ایک پنچایت بلائی جس نے گھر کے نئے مالکان کو چند ماہ کی مہلت دیتے ہوئے حکم سنایا گیا کہ اس گھر میں وہی رہے گا جو اس کی ملکیت کا مصدقہ ثبوت لے کر آئے گا۔ قابضین نے یہ فیصلہ ماننا تو دور کی بات‘ اس پنچایت کو ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
جس طرح اُس گھر کی حالت روز بروز ابتر ہو رہی تھی‘ اسی طرز پر ملک بھر میں ٹریفک کا بھی کوئی حال دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ کسی انسانی معاشرے اور قانون کا احترام کرنے والی سوسائٹی کے مناظر ہیں۔ بے شمار نئے ٹریفک اہلکار بھرتی کرنے اور انہیں نت نئی کاریں اور موٹر سائیکلیں دینے کے باوجود ٹریفک کی صورتحال بجائے بہتری کے‘ ابتری کی جانب گامزن ہے۔ حکومتیں اور متعلقہ حکام اس حوالے سے اپنی نااہلی کو تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں کیونکہ ان کیلئے ہوٹر والی گاڑیا ں اور موٹر سائیکلیں ان کا راستہ صاف کرانے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں لگاتیں‘ اس لیے انہیں کیا خبر کہ بائیس کروڑ عوام پر کیا گزرتی ہے۔ 28 جنوری 2006ء کو اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اسلام آباد میں ماڈل ٹریفک پولیس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک سے وی آئی پی کلچر کے خاتمے کیلئے پولیس کو سیاسی حمایت مہیا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج سے وہ ٹریفک پولیس کو فری ہینڈ دے رہے ہیں کہ وہ ٹریفک قوانین کی پابندی اور پاسداری کرانے کے لیے کسی بھی قسم کا سیاسی و انتظامی دبائو یا کسی بھی بڑی سے بڑی سفارش کو خاطر میں نہ لائے۔
کسی بھی ملک سے متعلق کوئی اجتماعی یا انفرادی رائے قائم کرنے کیلئے اس ملک میں دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں، اول یہ کہ اس ملک کے لوگ آئین و قانون کا کتنا احترام کرتے ہیں، دوم وہاں رواں دواں ٹریفک کے انداز دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ملک کسی امن پسند اور قانون پسند شخص کے رہنے کے قابل ہے یا نہیں۔ ہمارے ملک میں پہلی دفعہ آنے والوں کو بھی سٹرک پر اترنے کے چند ہی منٹوں بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس ملک میں ٹریفک کے حوالے سے کوئی قانون یا کوئی ضابطہ وجود نہیں رکھتا۔ وردیاں پہنے کچھ لوگ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرتے اور سڑکوں پر کچھ مخصوص ہوٹر والی گاڑیاں ضرور کھڑی دکھائی دیتی ہیں مگر کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر دیکھیں‘ ٹریفک سگنل کی کھلے عام خلاف ورزی کی جا رہی ہو گی اور سب یہ تماشا دیکھنے میںمحو ہوں گے۔ یہاں ٹریفک قوانین اور سگنل کی پابندی کرنے والے لوگوں کو کمزور‘ ڈرپوک اور پاگل سمجھتے ہوئے عجیب سی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ استادِ محترم گوگا دانشور ملک میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم ٹریفک کو کسی ترقی یافتہ ملک کی طرز پر لانے کیلئے ایک نسخہ لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو مرضی کر لیں‘ جتنے چاہے نئے افسر اور اہلکار سڑکوں اور بازاروں میں تعینات کر دیں‘ اس ملک کی ٹریفک اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو گی جب تک ان کے نسخے پر بھرپور طریقے سے عمل نہیں کیا جاتا۔
گوگا دانشور جب پھینکنے پر آتے ہیں تو بڑے بڑے گپ باز ان کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے جنم میں سردار رنجیت سنگھ کے استاد رہے ہیں اور رنجیت سنگھ انہی کے مشوروں پر عمل کرتا تھا‘ اسی لیے وہ پنجاب کے کامیاب ترین حکمرانوں میں سے ایک ہے۔ گوگا جی کا دعویٰ ہے کہ وہ ستر سال کی بگڑی ہوئی ٹریفک صرف تین ماہ میں ٹھیک کر کے دکھا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے حکم پر بغیر کسی چون و چرا‘ سختی سے عمل کیا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ تین ماہ میں لاہور اور کراچی کی ٹریفک کو دبئی اور یورپ کی طرز پر ٹھیک نہ کر سکے تو سزا کے طور پر انہیں مال روڈ پر نصب بھنگیوں کی توپ سے باندھ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حنوط کر دیا جائے۔ گوگا دانشور کی تجویز ہے کہ چوک، سڑک، بازار اور مارکیٹ کے باہر اور اندر تعینات ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں چالان بکس نہیں ہوں گی۔ تین ماہ تک ہر قسم کا چالان مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کے ہاتھوں سے چالان بکس لے کر ان میں لمبے لمبے اور تیز نوک والے ''سوئے‘‘ پکڑا دیے جائیں۔ اور انہیں یہ حکم دیں کہ جو ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی کرے، تیز رفتاری کا مظاہرہ کرے، ون وے، لائن اور لین کی خلاف ورزی کرے، اوور لوڈنگ کرے،غرض کسی قسم کی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے‘ ان کی گاڑیوں کے دو پہیوں میں دو‘ تین بار تیز نوک والے سوئے مار کر ان میں سوراخ کر دیے جائیں۔ ہر چوک‘ چوراہے اور سڑک پر محض چند کار لفٹر درکار ہوں گے جو پنکچر گاڑیوں کو چوکوں اور سڑکوں سے اٹھا اٹھا کر ایک طرف کرتے جائیں۔
گوگا دانشورکہتے ہیں کہ جو ڈرائیور کسی افسر، کسی وزیر، مشیر، کسی ایم پی اے یا ایم این اے کا کارڈ دکھائے یا کسی سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرے‘ ایسے افراد کی گاڑیوں کے دو کے بجائے چاروں پہیوں میں چار‘ پانچ پنکچر کیے جائیں۔ اگر کسی بڑے افسر، اہم عہدیدار یا کسی سیاسی نمائندے نے ٹریفک اصولوں کی ایک سے زیادہ بار خلاف ورزی کی ہو تو اس کی تمام تعلیمی اسناد منسوخ کر کے اسے دوبارہ تمام امتحانات دینے کا پابند کیا جائے۔ اگر بڑے بڑے افسران کے ڈرائیور ٹریفک قوانین کو کچلتے پائے جائیں تو اس گاڑی کے مالک افسر کی تمام مراعات فوری ضبط کر کے اسے او ایس ڈی لگا دیا جائے۔ گوگا دانشور کہتے ہیں کہ ہما ری ٹریفک کا علاج صرف اور صرف اسی نسخۂ کیمیا پر عمل سے ممکن ہے کیونکہ لوگ پانچ سو‘ ہزار یا دو ہزار روپے جرمانے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے‘ اس لیے سرد و گرم موسم میں یہ لوگ جب دھکا لگا لگا کر اپنی گاڑیوں‘ بسوں‘ ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کو پنکچر لگانے والی شاپس پر لے جانا شروع ہوں گے‘ تو دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے سے قبل ہی ان کی 'کانپیں ٹانگنا‘ شروع ہو جائیں گی۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ گاڑیوں کے ٹائروں کا کیا قصور کہ ان کے بخیے ادھیڑے جائیں تو ان سے صرف اتنا کہا جائے کہ ملک کے آئین کے جو بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں‘ وہ کیوں دکھائی نہیں دیتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں