"MABC" (space) message & send to 7575

اللہ کی مدد پہنچے گی ضرور

ایک اینکر پرسن کی ایک وڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جو بھی یہ وڈیو دیکھ اور سن رہا ہے‘ اس کا وجود سر سے پائوں تک کانپنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس وڈیو کو میں کئی مرتبہ دیکھ چکا ہوں اور نجانے کتنے دوستوں تک اسے پہنچایا بھی ہے۔ اینکر پرسن اپنی آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے بتا رہی تھیں کہ وہ ہر سال رمضان کے بابرکت مہینے میں جب رمضان سپیشل پروگرام کیا کرتی تھیں تو ہر روز مختلف افراد پروگرام میں بطور مہمان مدعو کیے جاتے تھے جو مستحق ہوتے تھے، مختلف افراد اور ادارے ان کی مدد کے لیے رقوم بھجوایا کرتے تھے۔ ایک صاحب ایسے بھی تھے کہ وہ ہر سال رمضان المبارک میں چار‘ پانچ لاکھ روپے یہ کہتے ہوئے بھجوا دیتے کہ اپنے اردگرد ان لوگوں میں اپنی مرضی سے تقسیم کر دیں۔ اینکر پرسن کہتی ہیں کہ میں یہ پیسے مختلف مجبور اور بے کس لوگوں میں تقسیم کر دیتی تھی۔ ان صاحب کا مفلس اور نادار افراد کیلئے خیرات اور زکوٰۃ دینے کا یہ عمل کئی سال سے جاری تھا۔ اس سال رمضان المبارک کے آغاز پر انہوں نے مجھے فون کر کے بتایا: بیٹا اس رمضان المبارک میں مَیں آپ کے پروگرام میں پیسے نہیں بھجوا سکوں گا، وہ صاحب بتا رہے تھے کہ اب وہ مستحقین اور نادار لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا وہ ہاتھ‘ جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کیلئے اوپر ہوا کرتا تھا‘ اب محتاج بن کر جھک گیا ہے۔ وہ جو زکوٰۃ دیا کرتے تھے‘ اب اس حالت میں پہنچ چکے ہیں کہ خود کسی کی امداد کے طلبگار ہیں۔
اینکر صاحبہ انتہائی دکھ اور درد سے بتاتی ہیں کہ جب ان صاحب سے اس حالت کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو وہ صاحب بولے کہ اس ایک سال میں ان کا کاروبار تباہ ہو گیا، وہ ایک فیکٹری چلاتے تھے اور لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد ان کے ماتحت کام کرتے تھے، اب نہ صرف وہ فیکٹری بند ہو چکی ہے بلکہ وہ بے تحاشا مقروض بھی ہو چکے ہیں۔ بقول ان صاحب کے‘ ابتدائی چند ماہ تک انہوں نے فیکٹری بند ہونے کے بعد بھی ورکرز کو تنخواہیں دینے کی کوشش کی مگر اب ان کی کُل جمع پونجی ختم ہو چکی ہے اور وہ پائی پائی کے محتاج ہو کر دیوالیہ بھی ہو چکے ہیں۔ اب ان کے پاس اپنے بچوں کی سکول کی فیس ادا کرنے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ یہ وڈیو میں نے بار بار دیکھی اور میرا یقین محکم ہے کہ وہ ہاتھ جو بغیر کسی دکھاوے اور محض اپنے رب کی رضا کیلئے اپنی کمائی کا ایک حصہ بطور قرض خداوند کو دیتا ہے، مستحقین پر خرچ کرتا ہے، رب کریم انہیں کبھی لاورث نہیں چھوڑتا۔ کوئی نہ کوئی مذکورہ گھرانے کی مدد کو ضرور آئے گا اور میرا یقین کامل ہے کہ اس وڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اب تک اللہ کریم نے اپنا کوئی خاص بندہ ان تک پہنچا بھی دیا ہو گا۔
زندگی میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے‘ اچھا اور برا وقت ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بس ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی حالت میں انسان کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ یہ یقین رکھیے کہ وہ ڈوبتوں کو بحفاظت نکال لیتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے اندر کیا راز پوشیدہ ہے۔ بلاشبہ اس وقت حالات کافی تلخ ہیں۔ ہر کوئی مالی تنگدستی اور عسرت کا رونا رو رہا ہے۔ جس کسی سے ملو‘ اس کے پاس سنانے کو ایسی ہی کہانیاں ہیں۔ آئیے اب ایک اور تصویر دیکھتے ہیں۔ ایک گھرانہ‘ جو بہت ہی باعزت طریقے سے اپنی زندگی کے دن گزار رہا تھا‘ اپنے کسی قریبی رشتے دار کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اس کے ساتھ ایک نیا کاروبار شروع کرنے پر آمادہ ہو گیا مگر حقیقت اس وقت آشکار ہوئی جب ہنستا بستا گھر اجڑ کر دو وقت کی روٹی کا محتاج بن گیا اور وہ قریبی رشتہ دار سب کچھ سمیٹ کر خود کسی دوسرے ملک میں جا بسا۔ اس خاندان کا بہت بڑا نہ سہی لیکن ایسا کاروبار ضرور تھا کہ وہ عزت سے زندگی گزار رہا تھا اور مستحقین کی مدد کیلئے بھی ہر وقت تیار رہتا تھا لیکن اس ظالم رشتہ دار کی باتوں میں آکر اپنا سب کچھ بیچ کر اس کے پاس دوسرے صوبے میں چلے گئے۔ تین ماہ تک اس نے انہیں اپنے پاس بٹھائے رکھا اور ایک نئے کاروبار کا جھانسا دے کر اسے شروع کرنے کیلئے انتظار کرانے لگا۔ جو خواب اس نے دکھائے تھے‘ ان کے مطابق وہ ایک جائز اور بہترین کاروبار تھا۔ وہ خود بھی چند برسوں میں کروڑ پتی بن چکا تھا۔ اس نے اپنے عزیز کے بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور تین ماہ تک انہیں اپنے پاس ہی رکھا۔ ہر دوسرے دن سائٹ وزٹ اور مارکیٹ سٹریٹیجی جاننے کے نام پر انہیں ادھر ادھر گھماتا رہا اور تین ماہ بعد اچانک وہ غائب ہو گیا۔ ان بچوں نے اپنی جمع پونجی زمین اور مشینری کے حصول کے لیے اسے تھما رکھی تھی، وہ بھی ساتھ ہی لے اڑا۔ اولاً تو پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔ اس کے گھر والے بھی پریشان تھے، بچے بھی حیران تھے کہ ان کا باپ کہاں چلا گیا ہے‘اس کی کوئی خبر نہ مل سکی۔ چند ہفتوں بعد پتا چلا کہ ایک نئی شادی کرنے کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک شفٹ ہو گیا ہے۔ اس بات کو اب ایک سال گزر چکا ہے‘ اس دوران اس نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اسی عرصے میں اس شخص کا سگا بھائی بھی انتقال کر گیا مگر اس کے جنازے میں شرکت کیلئے بھی وہ نہ آیا۔ وہ فیملی‘ جسے نیا کاروبار کرانے کیلئے اپنے پاس بلاتے ہوئے نجانے کس قسم کے سبز باغ دکھائے گئے تھے کہ وہ اپنی تمام جمع پونجی برباد کر کے لٹے پٹے مہاجرین کی صورت میں واپس اپنے گھر اس طرح لوٹی کہ اب دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے۔ اس دکھ نے اندر ہی اندر سب کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ کمانے والے اس دکھ اور بیکاری کی وجہ سے ایک ایک کر کے بیمار رہنے لگے اور ان کی بیماریوں کی وجہ سے گھر کی حالت اس کیفیت کو پہنچ گئی کہ بچی کھچی جمع پونجی ہسپتالوں نے چاٹ لی۔ پھر ایسی قیامت امڈی کہ گھر کا سربراہ بستر سے جا لگا اور چند ماہ بعد جب کمزوری اور بیماری نے اسے انتہائی لاغر کر کے رکھ دیا تو پتا چلا کہ اس کے گردے ختم ہو چکے ہیں۔ اللہ کا یہ بندہ اس وقت راولپنڈی کے ایک سرکاری ہسپتال میں زندگی اور موت کی کیفیت میں ہے۔ معالج کہتے ہیں کہ اگر گردہ عطیہ مل جائے تو زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ اس کے بچے اپنے باپ کو گردہ دینے کیلئے ہسپتال پہنچے مگر بدقسمتی سے ان کا گردہ میچ نہیں کر پایا۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ جتنی دیر ہو رہی ہے‘ زندگی کے دن بھی اتنے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ عید الفطر کی تعطیلات کی وجہ سے پہلے ہی آپریشن کا کہا گیا ہے اور سترہ لاکھ روپے جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔اس گھرانے کی فریاد اللہ پاک کیسے سنے گا‘ کس کے ذریعے سنے گا‘ یہ تو وہی بہتر جانتا ہے۔ مگر میرا یقین ہے کہ دنیا میں کوئی ایک تو ایسا ضرور ہو گا جو اس باعزت لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور انسان کی زندگی بچانے کیلئے آگے بڑھے گا۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا اپنے بندے کو لاوارث چھوڑ دے۔ اللہ کی مدد کس طرح آئے گی‘ کس کے ہاتھ اور کس گھر سے آئے گی‘ اس کے متعلق تو سب سے بہتر رب کریم ہی جانتے ہیں لیکن ایک یقین ضرور ہے اور یہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ خدا اپنے اُن بندوں کی مدد ضرور کرتا ہے جو آسودگی میں ہمہ وقت دوسروں کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ بسا اوقات کوئی دکھ اور تکلیف بندے کا امتحان بھی ہوتی ہے اور مولا کریم کو اپنے بندے کے صبر و رضا کی کیفیت کو دیکھ کر اس پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور جب صبر اور نماز کے ساتھ بندہ اپنے رب سے مدد اور کرم کی بھیک مانگتا ہے تو رحمتِ خداوند کسی ایسی شکل میں اس کے پاس پہنچتی ہے کہ دیکھنے اور سننے والے رب کریم کے اس معجزے کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں اور اپنے رب کی رحمت اور مخلوق کی مدد کے وعدے کو نسل در نسل بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں